کالمز

سی پیک کا منصوبہ اور گلگت بلتستان کاتاریخی پس منظر

تحریر : محمد شراف الدین فریادؔ

مملکت اسلامی پاکستان اپنے ہمسایہ دوست ملک عوامی جمہوریہ چین کے تعاون سے سی پیک اور ون روٹ ون بیلٹ منصوبے سے خطے کی تعمیر و ترقی کی روشن کرنیں دیکھ رہا ہے مگر اس کا اذلی دشمن بھارت کبھی نہیں چاہتا کہ یہ عظیم بین الاقوامی منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچے اور مملکت اسلامی پاکستان ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو ۔ چونکہ خود بھارت اس اہم منصوبے کی مخالفت کرکے اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکتا اس لیے انہوں نے اپنے مکارانہ چال کھیلتے ہوئے امریکہ کے کندھوں پر بندوق رکھ کر منصوبے کی نشانہ بازی شروع کی ہے ۔ اس کی ایک واضح مثال یہ کہ گزشتہ ایام امریکی وزیر دفاع جیمزمیٹس نے اس اہم منصوبے کی کھل کر مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں کئی سڑکیں اور گزرگاہیں موجود ہیں تاہم کسی ملک کو صر ف ایک ہی گزرگاہ اور سڑک کے ذریعے اپنی اجارہ داری قائم نہیں کرنی چاہیے ۔اس لیے اس منصوبے کی امریکہ مخالفت کرتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ گزرگاہ اور سڑک متنازعہ علاقہ سے گزاری جارہی ہے جو خود کسی تنازعہ کو جنم دیگا ۔ یہاں امریکی وزیر دفاع نے کسی خطے یا علاقے کا نام تو نہیں لیا مگر اس کے اس بیان کا مقصد گلگت بلتستان ہی ہے کیونکہ بھارت عالمی سطح پر گلگت بلتستان کو ہی متنازعہ خطہ قرار دے رہا ہے ۔ گلگت بلتستان کے عوام بھارت کے اس موقف کو یکسر مسترد کرتے ہیں کیونکہ تاریخی اور جغرافیائی حقائق کے مطابق گلگت بلتستان کو جموں و کشمیر سے کسی بھی صورت جوڑا نہیں جاسکتا ہے ۔

گلگت بلتستان کی اپنی ایک الگ شناخت اور الگ تہذیب ہے مگر ہماری بد قسمتی یہ رہی ہے کہ ہم نے خود ہی اس خطے پر زبردستی قبضہ کرنے والوں کو اس پورے علاقے کا وارث بنا کرپیش کردیا ہے یہی وجہ ہے کہ مضبوط تاریخی حقائق رکھنے کے باوجود بین الاقوامی سطح پر ہمارا مقدمہ کمزور تر ہوگیا ہے ۔ امریکہ اس خطے کو متنازعہ کہے تو بھی حیرت نہیں ہوگی کیونکہ وہ تو ویسے بھی تمام معاملات میں پاکستان کے بجائے بھارت کی پشت پر تھپکیاں دیتا آرہا ہے اور اس نے پاکستان کی ہر بڑی سے بڑی قربانی کو بھی نظر انداز کردیا ہے۔ لیکن حیرت اس بات پر ضرور ہورہی ہے کہ ہمارے بعض اپنے بھی ہمیں متنازعہ کہہ کر نہ صرف زخموں پر نمک پاشی کر رہے ہیں بلکہ بھارت اور امریکی موقف کی تائید کا سبب بھی بن رہے ہیں ۔ گزشتہ دنوں گلگت بلتستان صوبائی حکومت کے ترجمان فیض اللہ فراق صاحب نے ” امریکی وزیر دفاع کا بیان اور گلگت بلتستان ” کے عنوان سے ایک مضمون تحریر کیا جس میں اُنہوں نے کہا ہے کہ امریکی وزیر دفاع جس متنازعہ خطے کی بات کر رہا ہے وہ متنازعہ خطہ بلتستان ، استور اور گلگت ہے جبکہ دیامر، ہنزہ نگر اور غذر متنازعہ نہیں ہیں ۔ اور سی پیک (CPEC) کا روٹ ان متنازعہ علاقوں سے نہیں بلکہ ہنزہ نگر سے ہوتے ہوئے دیامر سے گزرتا ہوا پاکستان تک جاتا ہے ۔ معلوم نہیں فیض اللہ فراق صاحب نے کن حقائق کے تناظر میں اپنا موقف پیش کیا ۔ اول تو یہ ہے کہ سی پیک کا روٹ ہنز نگر سے ہوتے ہوئے گلگت اور پھر گلگت سے دیامر کی طرف جاتا ہے انہیں اس طرح کے کمزور موقف بیان کرنے سے بہتر تھا کہ وہ گلگت بلتستان کی تاریخی حقائق کا حوالہ دیتے ہوئے امریکی وزیر دفاع اور بھارت کو بتا دیتے اور کہتے کہ جن لوگوں نے عالمی نقشے میں گلگت بلتستان کو متنازعہ ظاہر کیا ہے ہم اسے تسلیم نہیں کرتے کیونکہ متنازعہ خطہ جموں و کشمیر ہے اور گلگت بلتستان کی تاریخ اس سے بالکل مختلف ہے ۔ اگر فیض اللہ فراق صاحب گلگت بلتستان کی تاریخ سے نابلد ہیں تو ہم بتا دیتے ہیں کہ گلگت اور ملحقہ علاقے جس میں ہنزہ ،نگر ،چلاس (حدود بھاشہ تک) ، استور ، پونیال ، کوہ غذر ، اشکومن ، یاسین ، چترال سمیت دریائے سندھ کا ایک حصہ بشمول کوہستان ، ملازئی اور سوات کے شمالی حصے شامل ہیں "دردستان” کے نام سے موسوم رہے ہیں ۔ اگر اس سے بھی قدیم بلور قوم کا مطالعہ کیا جائے تو پورا بلتستان ، کرگل اور لداخ کے علاقے بھی اسی یونٹ میں شامل ہوتے ہیں ۔ اس تاریخی حقائق کو کوئی بھی جھٹلا نہیں سکتا کہ 1842 ؁ء سے قبل اس پورے یونٹ پر یہاں کے مقامی راجاؤں کی حکومتیں رہی ہیں ۔ 1842 ؁ ء میں پہلی مرتبہ پنجاب کے سکھوں نے گلگت پر قبضہ کیا اور یوں تاریخ میں پہلی مرتبہ گلگت پنجاب کے سکھ حکمران کی عملداری میں چلا گیا ۔ سکھوں کے مسلسل اس خطے پر قابض رہنے کے بعد یکم جولائی

1847 ؁ء کوکشمیری مہاراجہ نے حملہ آور ہوکر گلگت اور استور پر قبضہ کرکے ڈوگرہ حکومت کی بنیاد رکھی ۔ 1935 ؁ء میں ڈوگروں نے اس خطے کو 60 سال کے پٹے پر برٹش حکومت کو فروخت کردیا ۔ 1947 ؁ء میں برصغیر کی تقسیم کے بعد برطانوی حکومت کا خاتمہ ہونے والا تھا اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے کشمیری مہاراجہ ہری سنگھ نے گلگت اور ملحقہ علاقوں کا کنٹرول دوبارہ سنبھالنے کے لیے 30 جولائی 1947 ؁ء میں گھنسارا سنگھ کو گورنر مقرر کرکے گلگت بھیج دیا جس کے آمد کے ساتھ ہی گلگت اور ملحقہ علاقے یاسین ، چلاس اور استور میں آزادی کی تحریکیں شروع ہوگئیں 14 اور 15 اگست 1947 ؁ء کوپاکستان اوربھارت دنیا کے نقشے میں وجود میں آگئیں جس کے تین ماہ بعد یعنی یکم نومبر1947 ؁ء کو گورنر گھنسارا سنگھ کو گلگت سے بے دخل کرکے آزادی کا اعلان کیا گیا اور 16 نومبر 1947 ؁ء کو قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ بات چیت طے کرکے گلگت اور ملحقہ علاقوں کو غیر مشروط طور پر پاکستان میں شامل کر لیاگیا ۔ گلگت کے آخری ڈوگرہ گورنر گھنسارا سنگھ نے بھی اپنی کتاب ” گلگت 1947 ؁ء سے پہلے ” میں اس خطے کی مندرجہ بالا تاریخی حقائق کو تسلیم کیا ہے ۔

ہم وزیر دفاع جیمزمیٹس کو واضح کردینا چاہتے ہیں کہ اُنہوں نے کچھ سال قبل حملہ کرکے افغانستان اور عراق پر قبضہ کیا تھا جب ان کے قبضہ کرنے سے افغانستان یا عراق امریکہ کا حصہ نہیں بن سکتے ہیں تو پھر پنجاب کے سکھوں اور کشمیری مہاراجوں کے قبضہ کرنے سے گلگت بلتستان بھی حملہ آوروں کا حصہ نہیں بن سکتا ۔ گلگت کے عوام تو آزادی کی جنگ لڑکر 16 نومبر947 ؁ء کو پاکستا ن میں شامل ہوگئے ہیں ۔ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو شہید نے اس خطے کو پاکستان کاآئینی صوبہ بنانے کے لیے تمام تر تیاری مکمل کر لیا تھا مگر اس وقت بھٹو صاحب کو بتایا گیا کہ اقوام متحدہ نے کشمیر میں رائے شماری کی قرار داد پاس کیا ہے تو لہٰذا اس خطے کو بھی کشمیر کے ساتھ نتھی کیا جائے تاکہ رائے شماری میں پاکستان کے حق میں زیادہ ووٹ پڑے جس پر بھٹو نے آئینی صوبے کا پلان موخر کردیا بس اسی غلطی کی وجہ سے آج تک گلگت بلتستا ن کے عوام اپنے تمام تر آئینی و جمہوری حقوق سے محروم چلے آرہے ہیں ۔ اب وفاقی حکومت نے سرتاج عزیز صاحب کی سربراہی میں جو جائزہ کمیٹی بنائی ہے ، اس میں اگر کشمیری ڈوگرہ کی انتظامی تسلط سے ہٹ کر اس خطے کی تاریخی حقائق پر مضبوط دلائل دئیے جائیں تو ہمارا کیس خود بخود کشمیر سے الگ ہوگا اور گلگت بلتستان مملکت پاکستان کا پانچواں آئینی صوبہ بن سکتا ہے ۔ اسی تناظر میں بھارت ، امریکہ یا کسی بھی عالمی سازشی قوت کو سی پیک سمیت اس خطے اور پاکستان کے مفاد کے کسی بھی منصوبے کو متنازعہ بنانے کا موقع نہیں ملے گا ۔ ورنہ اس کے برعکس ہم اگر اس بحث میں پڑ جائیں گے کہ ہمارا فلاں علاقہ متنازعہ ہے اور فلاں علاقہ غیر متنازعہ ہے جیسی فضول بحث کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ عالمی سازشی قوتیں آئینی صوبہ تو کیا عبوری صوبہ بھی بنانے نہیں دیں گے ۔ پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینٹ میں ہم اپنی نمائندگی سے قیامت تک محروم رہیں گے۔ ہم سب کا ایک ہی موقف ہونا چاہیے کہ عالمی نقشے میں ہمیں جو متنازعہ دکھایا گیا ہے وہ بالکل ہی غلط ہے ہمیں کشمیر کے ساتھ نتھی کرکے متنازعہ نہ رکھا جائے بلکہ اس خطے کی تاریخی حقائق ، جغرافیہ اور الگ تہذیب جیسے حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے الگ شناخت دی جائے جو کہ اس خطے کے عوام کا آئینی ، سیاسی اور جمہوری حق ہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button