کالمز

قسمت کی دیوی

ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی ؔ

احتساب عدالت کے نا کے پر پولیس اور مسلم لیگ (ن)کے کارکنوں میں جھڑپ نے حالات کو ایک نئے ’’ناکے ‘‘پر لاکر کھڑا کیا ہے مسلم لیگ کے کارکن کیپٹن صفدر اور مریم نواز کی پیشی کے وقت احتساب عدالت میں داخل ہونا چاہتے تھے وہاں رینجزز ہوتی تو ان کو روک دیتی پولیس انکو روکنے میں ناکام ہوئی اسلئے ہاتھا پائی تک نو بت پہنچ گئی دو چار وکلاء کو بھی چوٹیں آئیں جج نے اس کا نوٹس لیا آئیندہ پیشی پر رینجرز کی ڈیوٹی لگادی جائیگی اب اسلام اباد کے صحافتی اور سفارتی حلقوں میں دو باتیں گر دش کر رہی ہیں کون بنے گا کروڑ پتی ؟اور قسمت کی دیوی کس پر مہر بان ہوگی ؟ اصل میں بات ایک ہے جس کے دو سوالات بنائے گئے ہیں سوال بنا نا اور سوال کرنا بھی ایک الگ علم الگ مہارت اور الگ فن ہے

راولپنڈی کے ایک تعلیمی ادارے میں مطالعہ پاکستان کا ٹیسٹ تھا پرنسپل نے کہا ایک ہفتے کے اخبارات نکالو اور پرچہ بناؤ تاکہ مطالعہ پاکستان کے ساتھ ساتھ حالات حاضرہ پر طلباء وطالبات کا عبور بھی معلوم ہو جائے اور پتہ لگے کہ کون کتنے پانی میں ہے استاد نے جو پرچہ بنایا اس میں چار سوالات بہت دلچسپ تھے پہلا سوال تھا قومی حکومت کا وزیر اعظم کون ہوگا صیحح جواب پر نشان لگائیں 1 ۔عمران خان 2 ۔شیخ رشید 3 ۔طاہر القادری 4 ۔کوئی اور دوسرا سوال تھا قومی حکومت بننے کے بعد صدر ممنون حسین کا کیا بنے گا 1۔استعفیٰ دینگے 2۔جبراًنکالے جائینگے 3۔صدر رہنیگے 4 ۔رخصت پر چلے جائینگے تیسرا سوال یہ تھا کہ سب سے زیادہ مٹھائیاں کہاں بانٹی جائینگی 1 ۔راولپنڈی میں 2 ۔لاہور میں 3 ۔کراچی میں 4۔پشاور میں اور چوتھا سوال تو عجیب و غریب تھا 2018 کے انتخابات کس سال ہونگے 1۔2030 میں 2۔2050 ء میں 3۔2060 ء میں 4۔کبھی نہیں طلباء اور طالبات نے جس طرح جوابات دئیے وہ ذہانت سے بھر پور تھے پہلے سوا ل کے جواب میں 100فیصد نے عمران خان کے نام پر نشان لگایا دوسرے سوال کے جواب میں 80 % نے دوسرے نمبر کو نشان زد کر دیا تیسرے سوال کے جواب میں سب نے راولپنڈی کو منتخب کر دیا جہاں فرزند راولپنڈی کی لال حویلی بھی ہے قریب ہی جی ایچ کیو ہے چوتھے سوال کے جواب میں نصف نے نمبر ایک پر نشان لگایا نصف نے نمبر چار کو نشان زد کر دیا یہ ہمارا مطالعہ پاکستان بھی ہے اور حالات حاضرہ کا امتحان بھی پرچے کے دیگر سوالات بھی دلچسپ تھے ایک سوال تھا قسمت کی دیوی کس پر مہربان ہے ؟ 1 ۔ہم پر 2۔ ہمارے دشمن پر 3۔الطاف حسین پر 4۔عمران خان پر 20 طلبہ نمبر ایک پر نشان لگایا 70 نے نمبر 4 کو نشان زد کر دیا 10 طلبہ نے نمبر 2 پر نشان لگایا اتفاق سے درست جواب بھی نمبر 2 ہی تھا ان ہی دنوں ایک اور تعلیمی ادارے کے پرچے دیکھنے کا اتفاق ہوا پولیٹیکل سائنس کے پرچے میں سوا ل تھا جمہوریت کی تعریف کرو جواب دینے والے نے کمال کر دیا اُس نے افلاطون اور ارسطو سے شروع کر نے کے بجائے پاکستان سے شروع کیا اور لکھا ہمارا پیا ر ا ملک پاکستان جمہوریہ کہلاتا ہے کیونکہ یہ ایک جمہوری ملک ہے یہاں مارشل لاء سے پہلے جو حکومت اس کو جمہوری حکومت کہا جاتا تھا او ر مارشل لاء کے بعدجو حکومت آئے گی وہ جمہوری حکومت کہلائے گی مثلاًضیا ء الحق کے مارشل لاء سے پہلے بھٹو کی حکومت تھی اور مارشل لاء کے بعد بے نظیربھٹو کی حکومت آئی وہ بھی جمہوری کہلائی مشرف کے مارشل لاء سے پہلے نواز شریف کی جمہوری حکومت تھی جبکہ مارشل لاء کے بعد زرداری کی جمہوری حکومت آئی گویا دو مارشل لاوں کے درمیان وقفے یا ’’ٹی بریک ‘‘کو ہم جمہوریت کہتے ہیں طالب علم کو پورے نمبر دیدیے گئے تاہم جواب کے آخر میں نوٹ لکھا گیا کہ مشرف نے مارشل لاء نہیں لگوایا تھا اُس نے اپنے آپ کو چیف ایگزیکٹیو کا نام دیا مارشل لاء ایڈمنسریٹر کا نام نہیں دیاکورکمانڈروں کا کام انہوں نے قاف لیگ سے لیا جو اتفاق سے ہم خیال بھی تھے اور اس کے لیڈروں نے قسم کھائی تھی کہ 20 سالوں تک مشرف کو وردی کے ساتھ صدر منتخب کیا جائے گا طالب علم بہر حال طالب علم ہوتا ہے نمبر دینے والے کا دل کشادہ ہونا چاہئے

28 جولائی کے بعد عالمی نشریاتی اداروں کو پاکستان ہاتھ آیا ہے سیاسی بے یقینی ،افراتفری اور طوائف الملوکی کو زیر بحث لایا جا رہا ہے سٹاک ایکسچینچ کی مندی پر تبصرہ ہو رہے ہیں خیبر پختونخوا دیوالیہ ہونے کے قریب ہے اس کو زیر بحث لایاجاتا ہے لاہور میں دوسرا میٹرو یعنی اورنج لائن تکمیل کے قریب ہے اُس پر بحث ہو رہی ہے چائنا پاکستان اکنامکس کوریڈورپر پیشرفت کا سلسلہ رک گیا اس پر باتیں کی جاتی ہیں آنے والی قومی حکومت کے سامنے کئی مسائل ہونگے اس پر تبصرے چل رہے ہیں انتخابات کی قباحتوں کا ذکر ہو رہا ہے کہا جاتا ہے کہ الیکشن میں دیہات اور شہروں کے لوگ اُمیدوار بنتے ہیں غریب ،مزدور ،ان پڑھ اور دہقان ان کو ووٹ دیتے ہیں بھلا یہ بھی کوئی طریقہ ہے ؟ اس طرح بننے والی حکومت ملک کی کیا خدمت کریگی ؟عالمی نشریاتی ادارے پاکستان کے مستقبل پر سوالات اُٹھاتے ہیں اور مایوسی پھیلانے والی باتیں کرتے ہیں ایک پروگرام میں بھارتی صحافی کلدیب نیئر کا حوالہ دیکر ایک واقعہ سنا یا گیا محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم تھیں ان کے بھارتی ہم منصب سے سوال کیا گیا کہ تمہاری حکومت کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کے ساتھ بامعنی مذاکرات کیوں نہیں کرتی ؟ بھارتی وزیر اعظم نے کہا اس پر ہم سوچ بچار کر رہے ہیں مگر پتہ نہیں لگتا کہ پاکستان میں اختیارات کس کے پاس ہیں اور حکومت میں کون ہے ؟احتساب عدالت کے ناکے پر مسلم لیگی کارکنوں کے ساتھ پولیس کی ہاتھاپائی اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ حکومت میں کون ہے اور اختیارات کس کے پاس ہیں ؟ اگر یہ حالات رہے تو قومی حکومت آنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی بقول غالب ؂

’’خاموشی ہی سے نکلے ہے جو با ت چاہیے ‘‘

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button