آج جب سٹی پارک سے گزر ہوا تو اپنے دوست منظور کشمیری، ارے بابا یہ کشمیر کے نہیں ہیں بلکہ گلگتی کشمیری ہیں، اور بلدیہ گلگت میں اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ پر نظر پڑی جو بڑے ہی جوش خروش سے کل اتوار کو ہونے والے یوم حسین کے جلسے کی تیاریوں میں مصروف تھے اور جب اس کی نظر مجھ سے ٹکرا گئی تو بڑے ہی چاہ سے باہیں کھول کر میری طرف بڑھے۔ بس پھر کیا تھا باہوں سے باہیں مل گئی۔ ہم سے پرے کچھ ہی فاصلے پر ڈاکٹر عثمان ہونٹوں میں مسکراہٹ سجائے ہمارے بغل گیر ہونے کے منظر کو غور سے دیکھ رہے تھے ۔عثمان صاحب بڑے ہی ملنسار اور ہمدرد انسان ہیں ہومیوپیتھک کے شعبے سے ان کا تعلق ہے ۔اپنے فلیڈ میں مولا کا درجہ رکھتے ہیں مولا کا لفظ سن کر کہیں غلط مطلب اخذ نہ کرنا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے فن کے بڑے ماہر ہیں اور اکثر غریبوں کے کام آتے ہیں۔ میرے اور منظور کشمیری کے قدم اس کی طرف بڑھے مصافحہ کے بعد گپ شپ کا سلسلہ شروع ہوا۔ منظور حسین نے کل اتوار کو منعقد ہونے والے یوم حسین کے حوالے سے تفصیل بتائی اور بتایا کہ یہ جلسہ جو کل منعقد ہو رہا ہے۔
آغا راحت الحسینی امام امامیہ مسجد گلگت کے اعلان کی روشنی میں جو اس نے ستمبر کے مہنیے میں نگرل میں ہونے والے ایک اجتماع میں کیا تھا کہ آئندہ سے تعلیمی اداروں میں یوم حسین نہیں منایا جائیگا۔ یہ اس سلسلے کی ایک کڑی ہے جسے کل سٹی پارک گلگت میں مشترکہ طور پر منایا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ پچھلے سال قراقرم یونیورسٹی میں یوم حسین کے تنازعے میں گرفتاریاں ہوئی تھی اور اس وقت آغا صاحب نے تعلیمی اداروں میں یوم حسین نہ منانے کا حلف نامہ جمع کرایا تھا جس کے باعث گرفتار ہونے والوں کو رہائی نصیب ہوئی تھی۔
میں یہاں نواز ناجی کی ایک تقریر کے چند الفاظ لکھنا مناسب سمجھتا ہوں جو انہوں نے شیر قعلہ غذر میں ایک جلسے کے دوران کہے تھے۔ علما چاہئے کسی بھی فرقے کے ہوں ہم سب کے مشترک ہیں۔نہ کوئی ہماری مدد کے لئے ایران سے اور نہ ہی سعودی عرب سے یا بدخشاں یا کسی اور ملک سے آئیگا۔ہمارا تعلق کسی بھی فرقے سے ہے سب کا جینا اور مرنا گلگت بلتستان کے لئے ہونا چاہئے ۔بڑی ہی پیاری اور خوبصورت بات ہے ناجی کی ۔اپنی اس بات کو ناجی نے عملی طور پر سچ بھی ثابت کر دیا حال ہی میں وزیر اعلیٰ نے یاسین غذر کا دورہ کیا جس میں نواز خان ناجی نے بڑی ہی اخلاقی جراعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ کو خوش آمدید اورمہمانداری کا حق نبھاتے ہوئے ۔ وزیر اعلیٰ کو چوغہ پہنایا ۔اب اس پر بھی کچھ لوگوں کے پیٹ میں مروڑ ہو رہی ہے کہ نواز ناجی نے ایسا کیوں کیا۔میں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا ۔
باتیں تو بہت ساری یاد آرہی ہیں لیکن طوالت کے ڈر سے مختصر طور پر یہ لکھنا پسند کرونگا کہ یوم حسین کو مشترکہ طور پر منانے کا آغاز ایک اچھا اور نیک شگون ہے۔ہم سب جب اپنے کو مسلمان سمجھتے ہیں تو یہ فرق کیوں صرف حسین ہی سب کا کیوں اسلام کے تمام آئمہ کرام کیا ہم سب کے مشترک نہیں ۔
ایسی باتیں اور ایسی چیزیں جو آپس میں ناراضگی کا باعث بنتی ہیں ان کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے ان چیزوں اور باتوں کو جو مشترک ہیں سب مل کر منانے سے کونسی قیامت ٹوٹنے کا اندیشہ ہے۔ آئیں سب ہی محبت کی زبان بولیں اور ایک دوسرے پر دشنام طرازی سے باز آجائیں تاکہ ہمیں حلف نامے نہ دینے پڑیں ۔ اللہ ہم سب کا حامی و نگہبان ہو۔