کالمز

یوم تاسیس کشمیراور آزادی کی منزل

ڈاکٹرا اعزاز احسن

قوموں کی زندگیوں میں چند ایسے مواقع آتے ہیں جو نہ صرف انہیں ماضی کی یاد دلاتے ہوئے مستقبل کے سفر میں آسانیاں پیدا کرتے ہیں بلکہ یہ مواقع قوموں کی تقدیر بدلنے میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چوبیس اکتوبر صرف آزاد جموں وکشمیر کا یوم تاسیس ہی نہیں ہے، بلکہ یہ وہ خاص دن ہے جو یاد دلاتا ہے کہ کشمیریوں نے حق خود ارادیت کے حصول کے لئے جو لہو کے دیپ جلائے تھے وہ تاحال روشن ہیں۔ انیس سوسینتالیس میں پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد ڈوگرہ حکمران نے برصغیر کے تقسیم کے طے شدہ فارمولے سے انحراف کرتے ہوئے کشمیر کو مسلم اکثریتی ریاست ہونے کے باوجود بھارت میں شامل کرنے کی کوشش کی۔ ڈوگرہ حکمرانوں کے اس ناپاک ارادے کو کشمیری مسلمانوں نے مسلح جدو جہد کر کے ریاست جموں و کشمیر کا ایک حصہ آزاد کرایا.چوبیس اکتوبر انیس سوسینتالیس کو آزاد جموں و کشمیر کی تو اپنی حکومت بن گئی، لیکن مقبوضہ کشمیر کے عوام کی جدوجہد آزادی ابھی بھی جاری ہے، اس حوالے سے اقوام متحدہ کے کردار کو بھی قابل تعریف قرار نہیں دیا جا سکتا۔آج بھی اقوام متحدہ اپنی ہی پاس کردہ قرار دادوں پر عمل نہیں کرا سکی۔

اقوام متحدہ کی بے رخی, بھارتی ہٹ دھرمی اور ہزاروں نوجوانوں کی شہادت کے باوجود کشمیریوں کی خواہش آزادی کو ختم نہیں کیا جا سکا۔ آج بھی مقبوضہ کشمیر کے عوام اپنی آنکھوں میں آزادی کے خواب سجائے بھارتی تسلط سے نجات کے لئے سرگرداں ہیں۔چوبیس اکتوبر کو 1947 کا دن یقیناًایک تاریخ ساز دن ہے اسی دن فضا میں یہ باغیانہ اعلان گونجا کہ ریاست جموں کشمیر میں جاری جہاد کو آئینی اور انتظامی قوت عطا کرنے اور اس جہاد کے اعلیٰ مقاصد (1)جموں کشمیر کے مسلمانوں کی جدوجہد آزادی اور پاکستان سے الحاق کی تحریک کو عوامی قوت پہنچانے اور دنیا بھر میں پروجیکٹ کرنے اور آزاد شدہ علاقوں میں نظام حکومت قائم کرنے کیلئے راولا کوٹ پونچھ کے خوبصورت نوجوان بیرسٹر سردار محمد ابراہیم خان کی صدارت میں آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر قائم کی گی ہے۔ بیسویں صدی میں اس طرح کی آزاد حکومت کے قیام کا یہ پہلا اعلان تھا۔ اس سے پہلے فرانس کی آزادی کیلئے جنرل ڈنگاں نے لندن میں بیٹھ کر آزاد فرانس کی حکومت کا اعلان کیا تھا لیکن جنرل ڈنگاں کے پاؤں کے نیچے فرانس کی سرزمین کا ایک انچ بھی نہیں تھا جبکہ آزاد حکومت کے اعلان پر نہ صرف ہندوستان کے مسلمانوں اور کشمیریوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی بلکہ دنیا بھر میں عالم اسلام نے مسرت کا اظہار کیا تھا لیکن ہندوستان کی کانگریس قیادت نے پاکستان کے قیام کو دل سے قبول نہیں کیا تھا بلکہ آج تک قبول نہیں کیا ہے۔

کانگریس کی قیادت خاص کر کشمیری نژاد جواہر لال نہرو نے اس کیخلاف سازشیں شروع کر دی تھیں۔ سب سے بڑی سازش یہ تھی کہ ریاست جموں کشمیر کے پاکستان سے فطری الحاق کو روک کر دفاعی اور معاشی طور پر پاکستان کو کمزور رکھا جائے۔ وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن جنہیں کانگریس نے ہندوستان کا پہلا گورنر جنرل بنایا تھا نے ہندوستان کی 650چھوٹی بڑی ریاستوں میں سے ریاست جموں کشمیر کا 26 جون 47ئکا دورہ کیا اور ریاست کے مہاراجہ ہری سنگھ کو حوصلہ کا پیغام دے کر آئے تھے۔کانفرنس کے صدر دھاریہ کریلانی سری نگر گئے اور شیخ عبداللہ کی نیشنل کانفرنس کے کارکنوں کو رام کرتے رہے۔ سرحد سے ولی خان پختونستان کے نعرہ کے ساتھ سری نگر گئے اور نیشنل کانفرنس کے کارکنوں کی پیٹھ ٹھونک کر آئے۔ ان سازشوں کا نقطہ عروج ہندوستانیوں کے باپو مہاتما گاندھی کا کوہالہ کے راستے یکم اگست 1947ئکو سری نگر کا سفر تھا۔ گاندھی تین دن سری نگر میں رہے۔ شیخ عبداللہ کے گھر بھی گئے۔ خود چل کر گاندھی مہاراجہ ہری سنگھ کے محل میں گئے۔ ہری سنگھ نے گاندھی کے گھٹنوں کو ہاتھ لگا کر تعظیم بجا لائی۔ اس ملاقات میں جموں کشمیر کو ہتھیانے کی سازش مکمل ہو گئی تھی۔ شیخ عبداللہ جو مہاراجہ ہری سنگھ کیخلاف تقریر کرنے کی پاداش میں جیل میں تھے۔ اپنے ایک ہندو دوست کے نام خط کے ذریعہ ہری سنگھ کو پیغام پہنچایا کہ وہ ہندوستان کیساتھ الحاق کرے۔ہری سنگھ کے بیٹے ڈاکٹر کرن سنگھ نے اپنی کتاب میں اس خط کی تصدیق کی ہے۔

ان سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے 28Eکانفرنس کی جنرل کونسل نے سری نگر میں سردار محمد ابراہیم کے گھر میں 19جولائی 1947کو اپنے اجلاس میں قرارداد منظور کی تھی جس میں مہاراجہ ہری سنگھ سے مطالبہ کیا گیا تھا تقسیم ہند کے اصولوں کیمطابق اور ریاست جموں کشمیر میں مسلمانوں کی 80 فیصد آبادی اور ریاست کے پاکستان سے قدیم مذہبی، اقتصادی اور مواصلاتی رابطوں کی رو میں ریاست کا الحاق پاکستان سے کرے ورنہ مسلمان علم جہاد بلند کر دینگے۔ یہ علم جہاد بلند ہوا۔ اسکے نتیجہ میں 5000مربع میل کا علاقہ آزاد ہوا۔ اس جہاد کو قوت پہنچانے، عوامی تائید فراہم کرنے اور دنیا بھر میں پروجیکشن کیلئے 24 اکتوبر کو آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کا قیام عمل میں آیا تھا۔ ہندوستان اس جہاد کیخلاف سلامتی کونسل میں گیا تھا۔ وہاں 13اگست 1948ئاور 5جنوری 1949ئکی قراردادوں میں کشمیری عوام کو یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ رائے شماری کے ذریعہ فیصلہ کرینگے کہ وہ ہندوستان کیساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان کیساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں۔ ان قراردادوں کو ہندوستان نے قبول کیا۔

جواہر لال نہرو نے اپنی پارلیمنٹ میں اور سری نگر کے لال چوک میں خطاب کرتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ ہم ان قراردادوں پر عمل کرینگے۔ چاہے انکے نتائج سے ہمیں دکھ ہی ہو لیکن ہندوستان نے آج تک ان قراردادوں پر عمل نہیں کیا اور کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ بنا رکھا ہے۔یہ دن ہم سے تقاضا کر رہا ہے کہ پنجہ باظل میں جھکڑے کشمیر کے حصے کی آزادی کے لئے تمام توانیاں صرف کر کے کشمیر کی آزادی کے لئے دی جانے والی قربانیوں کی لاج رکھیں اور صبح آزادی کی منزل کے رواں دواں رہیں۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button