کالمز

وزیراعلیٰ کواڑھائی سال بعد عوام کی فکر؟

صفدرعلی صفدر

گلگت بلتستان میں پاکستان مسلم (ن) کی حکومت کواقتدار میں آئے کم و بیش اڑھائی سالہ کا عرصہ گزر گیا۔ اس دوران صوبائی حکومت نے علاقے اور عوام کی فلاح وبہبودکی خاطرجوبھی اقدامات اٹھائے وہ عوام کے سامنے ہیں۔ تاہم اب تک کے وہ تمام اقدامات صرف بندکمروں میں کئے جاتے رہے۔چاہے ان کا تعلق سی ایم ہاؤس سے ہو یا وزراء کے دفاتر یا پھر بیوروکریسی کے دستخطوں سے۔لیکن عوام کا ان اقدامات اور فیصلوں سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام کسی حدپاکستان پیپلزپارٹی کی سابق صوبائی حکومت کی طرح مسلم لیگ نوازکی حکومت سے بھی مایوس نظرآرہے تھے۔

مایوسی کی اس فضاء کو حاکم وقت نے بھی محسوس کیا یا اپنے مشیران کے تواسط سے اس متعلق اگاہی ہوئی، تب تو وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے اپنے اقتدار کا نصف دورانیہ گزرجانے کے بعدبندکمروں سے نکل کرعوام سے براہ راست مخاطب ہونے کی خاطر ضلعی سطح کے دورے شروع کئے۔ اس سلسلے میں سی ایم صاحب نے پہلی فرصت میں ضلع استور کا تفصیلی دورہ کیا اور منی مرگ جیسے دورآفتادہ علاقے تک جاکرعوامی اجتماعات سے مخاطب ہوئے۔ اس دوران انہوں نے منی مرگ کو تحصیل کا درجہ دینے اور استورکی مرکزی سڑک کی مرمت سمیت متعدداعلانات کئے۔

دوسرے مرحلے میں ضلع غذرکے دورے پر روانہ ہوئے، جہاں انہوں نے یاسین، گوپس اوراشکومن میں عوامی اجتماعات سے خطاب کیا۔سی ایم صاحب نے استورکی طرح غذرمیں بھی عوامی فلاح وبہبودکے متعددمنصوبوں کا اعلان کیا۔ غذرمیں کئے جانے والے چند چیدہ چیدہ اعلانات میں یاسین کو سب ڈویژن کا درجہ دینے کا دوبارہ اعلان سرفہرست ہے۔ دوبارہ اعلان سے مراد یہ کہ یاسین کو سب ڈویژن کا درجہ دینے کے حوالے سابق دورحکومت میں اسی حلقے سے منتخب رکن قانون سازاسمبلی محمدایوب شاہ نے اسمبلی میں ایک قرارداد لائی جس کی ایوان نے متفقہ منظوری دی تھی۔ تاہم بعدازاں اس معاملے میں مبینہ طورپر سیاسی مداخلت کے سبب یاسین سب ڈویژن کا نوٹیفیکیشن جاری نہ ہوسکا۔

لہذااس حوالے سے عوام وضاحت کے متمنی ہیں کہ آیا وہ اس کا کریڈیٹ پاکستان پیپلزپارٹی کی سابق حکومت کو دیں یا پاکستان مسلم لیگ نواز کی موجودہ حکومت کو؟اگرپاکستان مسلم لیگ(ن) وزیراعلیٰ کے اعلان کے بل بوتے پر یاسین سب ڈویژن کا کریڈیٹ لینا چاہتی ہے توپھریہ بات بھی وضاحت طلب ہے کہ قانون سازاسمبلی سے منظورشدہ قراردادوں کی قانونی حیثیت کیا ہے؟اگراسمبلی کے قراردادوں کی کوئی حیثیت ہے تو پھریاسین سب ڈویژن کا کریڈیٹ پیپلزپارٹی کودینے میں دقت محسوس نہ کی جائے۔ ایسے قراردادوں کی کوئی حیثیت نہیں تو پھرآئندہ کے لئے تمام فیصلے قانون سازاسمبلی کی بجائے سڑکوں اور جلسہ جلوس میں ہی کئے جائیں۔
بہرحال یاسین کے عوام کو سب ڈویژن مبارک! وزیراعلیٰ کے اعلان کے تحت یاسین سب ڈویژن کا نوٹیفیکیشن ایک ہفتے کے اندراندرجاری ہونا تھا جوکہ مقررہ مدت کے گزرجانے کے باوجود تادم تحریرجاری نہ ہوسکا ہے۔یاسین سب ڈویژن کے علاوہ وزیراعلیٰ نے غذرمیں بھی تعلیم، صحت، مواصلات اور دیہی ترقی کے مختلف منصوبوں کا اعلان کیا جن میں سے زیادہ ترمنصوبے آئندہ مالی سال کے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں رکھنے کے احکامات دیئے گئے ہیں۔

وزیراعلیٰ کے اعلانات میں غذرکے مختلف علاقوں میں رابطہ سڑکیں تعمیرکرانے کا بھی ذکرموجود ہے۔ لیکن تعجب کی بات ہے کہ ان اعلانات میں کہیں پر بھی غذرکی کھنڈرنمامرکزی سڑک کی مرمت کا ذکرتک نہیں ۔ حالانکہ غذرکے عوام کی اس وقت سب سے بڑی ضرورت اس خستہ حال سڑک کی مرمت ہے جوکہ سالہاسال سیلاب اور لینڈسلائیڈنگ کی زدمیں آنے کے سبب انتہائی زبوں حالی کا شکارہے۔

چنانچہ وزیراعلیٰ کو چاہیے تھا کہ وہ غذرکے عوام کو سی پیک کے تحت گلگت چترال روڈکی تعمیرکی خوشخبری سنانے کے ساتھ ساتھ وقتی طورپر مسافروں کی سہولت کے لئے موجودہ غذرروڈکی فوری مرمت کا بھی اعلان کردیتے، کیونکہ سی پیک کے تحت گلگت چترال روڈکی تعمیرکے لئے ابھی کافی وقت درکار ہے اور اس وقت تک موجودہ سڑک کی حالت مذیدابترہوگی۔

بہرحال عوامی فلاح وبہبودکی خاطر وزیراعلیٰ کے ضلعی سطح کے دوروں کا یہ اقدام قابل تعریف ہے ۔ اس سلسلے کو ذرا تیزی سے آگے بڑھاتے ہوئے سردیوں کی آمدسے قبل تمام اضلاع کے تفصیلی دورے کئے جاتے تو بہتر ہوتا کہ باقی ماندہ اضلاع کے عوام بھی سی ایم صاحب کے دوروں کے ثمرات سے مستفید ہوجاتے۔وزیراعلیٰ کے ضلعی سطح کے دوروں کی ایک اور اہمیت یہ ہے کہ اس سے مسائل میں گرے ہوئے عوام کو ایک امیدکی کرن مل جاتی کہ ان کے مسائل کا بھی کوئی ادراک رکھنے والا ہے۔ کیونکہ عوام اپنے منتخب نمائندوں کی کارکردگی کے حوالے سے شدید مایوسی کا شکارہیں۔

خود عوامی نمائندے ،چاہے ان کا تعلق حکمران جماعت سے ہو یا اپوزیشن سے، سب اس پریشانی سے دوچار ہیں کہ وہ اڑھائی سال کے اس عرصے میں اپنے متعلقہ حلقوں میں وہ کام نہ کرسکے جس کے لئے عوام کو ان سے توقعات تھیں۔جبکہ مجموعی طورپربھی صوبائی حکومت وہ کارکردگی نہیں دکھاسکی جس کے کرنے کے لئے وزیراعلیٰ اور اس کی ٹیم نے عہدکیا تھا اور ہم نے بڑے فخرکے ساتھ اسے میڈیا کی زینت بنایا تھا۔

عوام حکومت سے اپنے گھرکی دہلیزپر صحت، تعلیم، مواصلات، پینے کے لئے صاف پانی، روزگار کی فراہمی کا حصول اور لوڈشیڈنگ اورغیرقانونی ٹیکسوں سے چھٹکارہ چاہتے تھے جوکہ حکومت کی جانب سے بھرپورکوششوں کے باوجود ابھی تک ممکن نہ ہوپایا ہے۔عوامی مسائل کے حل میں حکومتی کوتاہی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت دوردرازعلاقوں میں عوام کے لئے طبی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کہیں پر ڈاکٹروں کی کمی ہے تو کہیں ادویات کا فقدان ہے۔

تعلیم کے حوالے سے سرکاری سکولوں کی کارکردگی میں بھی کوئی نمایاں بہتری نہیں آسکی۔

مواصلات کے حوالے سے حکومت کی کارکردگی گلگت شہرکی سڑکوں کی نامکمل ری کارپیٹنگ کے علاوہ کہیں اورنظرنہیں آرہی ہے۔

بجلی کی صورتحال یہ کہ سردیوں کی آمدکے ساتھ ہی لوڈشیڈنگ کا عذاب نازل ہونا شروع ہوا ہے۔

بیروزگاری کے خاتمے کے لئے کوئی خاص حکمت عملی نہ ہونے کے سبب نوجوان ڈگریاں ہاتھ میں لیکر نوکریوں کے لئے ٹھوکریں کھانے پر مجبورہیں۔ سرکاری ملازمتوں پر میرٹ پر بھرتیوں کے حکومتی دعوے کا بھانڈہ تو خودایک حکومتی وزیرنے یہ کہتے ہوئے پھوٹ دیاکہ این ٹی ایس والے پیسوں کے عویض بندے ایڈجسٹ کرنے کی آفردیتے ہیں۔

ایک طرف غربت اور مہنگائی کی انتہا تو دوسری طرف وفاقی حکومت کی جانب سے ٹیکسوں کے نفازکا ایک نیاسلسلہ شروع ہوتو پھرکس بنیادپر حکومتی کارکردگی دکھائی دیگی؟

زبانی دعوے اور سیاسی اعلانات تو مہدی شاہ سرکارمیں بھی حدسے زیادہ ہوئے مگرانجام جوملا وہ عوام کے سامنے ہے۔ اب موجودہ حکومت کو بھی وہ دن دیکھنے میں کوئی دیرنہیں لگ سکتی۔ لہذا ایسی صورتحال کے تناظرمیں وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن کی جانب سے ضلعی سطح کے دورے کرنے کا یہ اقدام انتہائی دانشمندانہ اور زمینی حقائق کے عین مطابق ہے۔ ان دوروں سے انہیں کم ازکم یہ تواندازہ ہوگا کہ ان کی حکومت نے ان اڑھائی سالوں میں عوام کو کیا گل کھلایا اورزمینی حقائق کس سمت پر ہیں۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button