بلاگز

غذر سے چائینہ تک۔۔۔ چینی باغ اور چاقو کے لیئے لائسنس۔۔۔ (پارٹ ۴)

تحریر: دردانہ شیر

عبدالحد کا کہنا تھا وہ گزشتہ سات سالوں سے اپنا وطن صرف اس وجہ سے نہ جاسکا کہ ایک طرف تو میرا پاسپورٹ ان افراد نے اپنے قبضے میں لے لیا تھا اور دوسری طرف میں نے سات سال محنت مزدوری کرکے اپنے اوپر جتنا قرضہ آیا تھا وہ بھی ان لوگوں کو ادا کیا اب وہ لوگ جن کو میں نے قرضہ دینا تھا کسی جرم میں جیل میں ہیں مجھے اب اپنا ملک جانے سے کوئی نہیں روک سکتا مگر میں نے ان لوگوں کے خلاف کیس کیا ہے جن افراد نے مجھے اپنے گھر میں قید کر کے رکھ دیا تھااب میں اپنے پاؤں پر کھڑ ا ہوگیا ہوں اور اپنے گھر پیسے بھی بھجتا ہوں اور بہت جلد میں اپنا کیس جیت جاونگا انھوں نے کہا کہ جب مجھے ان افراد نے اپنے گھر میں قید کیا تو میں شوگر کا مریض بن گیا اور اب تک اپنا علاج کرارہا ہوں۔

عبدالحد کی باتوں کو سن کر ہم سخت پریشان ہوگئے کہ ایک شخص محنت مزدوری کے لئے دیار غیر آیا اور سات سال تک اپنا گھر نہ جاسکا اس کی پریشانی کو دیکھ کر ہمیں انداز ہوتا تھا کہ وہ اپنے ملک جانے کے لئے کتنا بیتاب ہے بہرحال ہم نے بھی ان کو تسلی دی کہ اﷲپاک بہتر کر یگا اور بہت جلد آپ اپنے ملک میں ہونگے تاشقرغن کی سردی نے ہمارا برا حال کر دیا تھا اور میں اور میر اساتھی میرنواز بیمار تھے دوائی لینے کے لئے ایک کیلنک گئے تو وہاں موجود ڈاکٹر کو دوائی دینے کا کہا مگر نہ وہ ہماری زبان سمجھتی تھی اور نہ ہم ان کی زبان سمجھا سکتے تھے ہمیں دوائی لینے میں سخت پریشانی ہوئی مگر بغیر کوئی دوائی لیے ہوٹل پہنچ گئے۔

مجھے سوست میں عزیزم ندیم علی رفع رہنما پی ٹی ائی نے ایک بندے کا نمبر دیا تھا اور کہا تھا کہ ماموں اگر کاشغر میں کوئی پریشانی ہو تو وہاں پر برادرم عمران ہونگے ان سے ضرور رابط رکھنا ہمارے پاس موبائل تو تھا مگر سیم نہ ہونے کی وجہ سے ہم مکمل طور پر دنیا سے کٹ گئے تھے اس سے قبل جب بھی میں چائینہ گیا وہاں اپنا پاسپورٹ دیکھا کر سیم لیتا تھا مگر اس سال غیر ملکیوں کو سیم کی فراہمی بھی بند کر دی گئی تھی ہوٹل کے کمرے میں آکر وہاں موجود ٹیلی فون سے لوکل نمبر پر بات ہوتی تھی میں نے برادرم عمران سے بات کی تو انھوں نے اگے سے کہا کہ میں اپ لوگوں کی کل سے انتظار کر رہاہوں اب کدھر ہیں ہم نے اپنے ہوٹل کا نام بتایا کہ ہم چینی باغ ہوٹل میں ہیں جس کے بعد پتہ چلا کہ عمران بھی اسی ہوٹل میں ہی قیام پزیر ہیں جہاں پر ہم ٹہرے تھے شام کو ان سے ملاقات ہوئی تو ہمیں پاکستان کی بہت ساری دوائیاں تھما دی اور دوائی کے کھانے سے کافی افاقہ ہوگیا۔

چینی باغ کاشغر کے بڑے ہوٹلوں میں شمار ہوتا ہے جہاں گلگت بلتستان کے کاروبار کی غرض سے آنے والے افراد قیام کرتے ہیں اس لئے ہم نے بھی اس ہوٹل میں قیام کرنا مناسب سمجھا دوسرے دن خریداری کے لئے ہم نے یان بازار کارخ کر دیا کاشغر میں یان بازار اس شہر کے سب سے بڑے بازار میں شامل ہوتا ہے جہاں اشیاء ضرورت کی ہر چیز مل جاتی ہے۔ میر نواز میر کاروباری غرض سے چائینہ آیا تھا انھوں نے بڑی تعداد میں کمبل اور کوٹ خرید لئے اور پورا دن ہمارا یان بازار میں ہی گزرا۔

کاشغر شہر کسی وقت چند ہزارلوگوں کی ایک بستی تھی اور یہ لوگ ایک ہی ایریے میں قلعہ نما بستی میں رہتے تھے اور اس بستی کو اب بہت ہی بہتر طریقے سے محفوظ کر لیا گیا ہے اور روزانہ دنیا کے کونے کونے سے کاشغر کی پرانی بستی کو دیکھنے ہزاروں کی تعداد میں سیاح آتے ہیں اور اس بستی اور یہاں کے لوگ کا اس وقت کا رہن سہن کو دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔ آج کاشغر ایک بہت بڑے شہر میں تبدیل ہوگیا ہے بلند بالا بلڈنگ بن گئے ہیں اور تاحد نگاہ بلند بالا بلڈنگ ہی نظر آتے اور سی پیک کی وجہ سے جو تبدیلی کاشغر میں آئی اس کی مثال نہیں ملتی خصوصا کاشغر سے تاشقرغن تک جو سڑک بنی ہے وہ دیکھنے کے قابل ہے۔ کاشغر میں کسی وقت بہت اچھے چاقو مل رہے تھے مگر اس دفعہ ہم نے دیکھا کہ چاقو تو دور کی بات ہے ہوٹل میں سیب کاٹنے کے لئے چھری بھی نہیں مل رہی تھی۔ اس حوالے جب ہم نے پتہ کیا تو بتایا گیا کہ یہاں پر چاقو رکھنے کیلئے بھی باقاعدہ پولیس سے لائسنس لینا پڑ تا ہے اورلائسنس کے بغیر چاقو رکھنا سخت جرم ہے۔ ہم حیران ہوگئے کہ چاقو کے لئے بھی لائسنس۔ ہمارے ملک میں تو مختلف اسلحہ کی لائسنس حاصل کرنے میں جو آسانی ہے وہ چین جیسے ملک میں چاقو کا لائسنس لینے میں بہت مشکل ہے جس وجہ سے اتنے بڑے ملک میں جرائم نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔

کاشغر شہر کی خوبصورتی کے لئے وہاں کی حکومت سخت اقدامات کررہی ہے اور روزانہ کئی بار بلدیہ کی گاڑیاں روڈ پر سے گزرتی ہے شہری تمام کوڑا کرکٹ کو ان کی گاڑیوں میں ڈال دیتے ہیں کوڑا کرکٹ ڈالنے والی گاڑی کے بعد ایک گاڑی سڑک پر پانی ڈالتے ہوئے گزرتی ہے اور اس کے بعد سرف سے روڈ کو صاف کیا جاتا ہے جس سے علاقے کی صفائی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

ایک ارب تیس کروڑ سے زیادہ آبادی والے چائینہ کاسنکیانگ صوبہ ملک کے پسماندہ صوبوں میں شامل ہوتا ہے مگر وہاں کی ترقی کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ صوبہ اتنا ترقی کر رہا ہے تو دوسرے صوبوں کی کیا حالت ہوگی۔ میں چار دفعہ چائینہ کے پسماندہ صوبے میں گیا مگر مجھے کئی پربھی کوئی بھیک مانگنے والا نہیں ملا تمام لوگ اپنی محنت کر رہے ہیں اور اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ کسی بھی جگہ مجھے اخبار نظر نہیں آیا فیس بک وہاں چلتا نہیں لوگ صرف زراعت یا اپنے ملک کی ترقی و تعمیر کے حوالے سے سوچتے ہیں ٹی وی چینل میں کوئی سیاسی بحث نہیں صرف زراعت اور انٹر ٹیٹمنٹ کے پروگرام دیکھاتے ہیں (جاری ہے)

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button