گلگت بلتستان میں ترقی کےمواقع اوردرپیش مشکلات
تحریر: اے اے شعمون
جنت نظیر گلگت بلتستان د نیا کا خوبصورت ترین اور قدرتی وسائل سے مالامال خطہ ہے۔ہم دنیا کے خوش قسمت لوگ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس خوبصورت ترین علاقے میں پیدا کیا۔
اس کی ایک جھلک دیکھنے کو ملک اور ملک سے باہر کے لوگ اپنی خوش بختی سمجھتے ہیں۔
جہاں ہمارے پہاڑ اور گلیشرز پورے ملک کی سرسبزو شادابی کا باعث ہیں۔ وہاں شمالی قطب سے آنے والی یخ بستہ ہواوں کی راہ میں آڈ ہیں۔ جو پورے ملک کے موسم کو متعد ل رکھنے میں مدد دیتی ہیں۔ خوبصورت پہاڑی مناظر اور فلک بوس چوٹیاں دنیا بھر کی سیاحوں اور کوہ پیماؤں کے لیے مقناطیس کی سی حثیت رکھتے ہیں ۔ سیاحوں اور کوہ پیماؤں کی آمد جہاں ملک کی اقتصادی صورت حال کو بہتربنانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ وہاں دنیا بھر میں پاکستان کی ایک مثبت تصویر پیش کرتے ہیں۔
عالمی سطح پر ہماری سرحدیں دنیا کی تین بڑے ممالک کیساتھ متصل ہیں۔ شمال میں عالمی افق پر ابھرتی ہوئی عوامی جمہوریہ چین کو ہمارا خطہ ملک کے ساتھ منسلک کرتا ہے۔ اور شمال مغرب بذریعہ واخان سابق سوویت یونین اور موجودہ توانائی کے وسائل سے لیس وسطی ایشیاء کے ممالک سے منسلک ہےجوکہ مستقبل میں ایک بہترین اقتصادی راہداری کے مواقع فراہم کرسکتاہے۔ شمال مشرق میں خطہ گلگت بلتستان جنت جنت نظیر وادی کشمیر سے منسلک ہے ۔جو دنیا ہی میں جنت کا ایک منظر پیش کر رہا ہے۔
بدلتی ہوئی عالمی تناظر میں توانائی کے وسائل کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ۔ ہمارے آبی ذخائر میں بے انتہا ہائیڈل بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔جوکہ بہت سستی اور ماحول دوست ہے۔مجوزہ دیامر ڈیم، بونجی ڈیم سکردو ڈیم اور پھنڈر ڈیم ایسے منصوبے ہیں۔جن کی تکمیل سے نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ پورے وطن عزیز کی تقدیر بدلے گی۔
ہمارا خطہ معدنی ذخائر سے بھی مالامال ہے۔ یہاں کے قیمتی پتھر پوری دنیا میں مشہور ہیں ۔ سروے سے پتہ چلا ہےکہ ہمارے پہاڑوں میں سونے چاندی اور دیگر معدنیات کے وافر ذخائر موجود ہیں۔اگر ان کو دریافت کر کے قابل استعمال بنایاجائے تو نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ پورے پاکستان کی کایا پلٹ جائے گی۔ جہاں ہمارے پہاڑوں کی جیو اسٹرٹیجک Geo strategic اہمیت مسلم ہے۔ وہاں دیو سائی جیسے بلند بالا سطح مرتفع کی موجودگی ہمارے علاقے کی اہمیت کو چار چاند لگاتاہے۔ اگر مناسب منصوبہ بندی سے یہاں ہوائی اڈہ بنایا جائے تو دفاعی اعتبار سے دنیا کا بہترین اثاثہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اس اہمیت کے پیش نظر عالمی قوتیں پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کو اپنی خارجہ پالیسی کا لازمی جز سمجھتی ہیں۔
علمی میدان میں بھی یہ خطہ ملک کے کسی خطے سے کم نہیں۔ ملک کے دیگر حصوں سے شرح خواندگی یہاں پر زیادہ ہے۔ مردوں کے شانہ بشانہ عورتیں بھی زندگی کے مختلف شعبوں میں عظیم خدمات سرانجام دے رہی ہے۔ نذیر صابر، حسن سدپارہ اور ثمینہ بیگ نے جہاں کوہ پیمائی کے میدان میں اپنے جوہر دیکھائے ہیں وہاں ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تحقیق کے سلسلے میں بھی یہاں کے اسکالرز دن رات محنت میں مصروف ہیں۔ یہاں کے نڈر اور دلیر فوجی جوانوں نے ملک کا نام فخر سے بلند کیا ہے۔
گلگت بلتستان میں اربوں ڈالر سے بننے والے پاکستان چائنا اقتصادی راہداری منصوبے کے لیے Gatway کی حثیت رکھتا ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل سے جہاں چین کو اپنی مصنوعات کی عالمی منڈی تک رسائی سہل ہوگی۔ وہاں انفراسٹکچر کی تعمیر ٹرانزیٹ فیس کی مدد میں وطن عزیز کو بھی اقتصادی طور پر بہت فائدہ ہوگا۔
گلگت بلتستان میں اقتصادی زونز کے قیام سے یہاں کے لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر آئیں گے۔ اور علاقائی پیداوار کی عالمی منڈی میں رسائی اسان ہوگی۔
معزیز سامعین ۔ اب ہم کچھ ایسے مسائل کا ذکر کریں گے ۔ جن کاسامنا اس خطے کو رہا ہے۔ ماضی میں اس خطے کو نظر انداز کیا گیا اور اس کو مناسب نام دینے کی بجائے عرصہ دراز تک اس کی شناخت صرف شمالی علاقے سے کی گئی۔ یہاں پر بنیادی ڈھانچے یعنی انفراسٹرکچر کی تعمیر و ترقی پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ تعلیم صحت اور ثقافت کے شعبے بھی تقریباً نظر انداز رہے۔ اس خطے کی پہچان دشمنوں کی سازشوں اور کچھ اپنی کمزوریوں کے باعث فرقہ واریت اور نسل پرستی کی بنیاد پر کی گئی۔ یہاں پر توانائی کے لیے بے شمار ذخائر ہونے کے باوجود ان کو استعمال کرنے کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ ملکی اور بین الاقوامی سیاحوں کے لیے مناسب سہولیات اور رہنمائی کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں کیاگیا۔ لیکن ماضی قریب میں وفاقی حکومتوں نے ان علاقوں کے جغرافیائی اور دفاعی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے ان علاقوں کی طرف توجہ دینا شروع کی ہے۔ میگا پروجیکٹس کا اجراء یونیورسٹی کیمپسس کا قیام ڈیمز بنانے کی منصوبہ بندی اس سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ بقول اقبال
ذرانم ہوتو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی