کالمز
حکومتی نمائندوں کا امتحاں شروع
حالیہ ہڑتالوں اور احتجاجوں کے ساتھ پاکستان بلخصوص گلگت بلتستان کے سوشل میڈیا پر ایک بحث شدّو مد کے ساتھ جاری ہے کہ گلگت بلتستان کو حق دو ٹیکس لو۔ زیادہ تر تو اس غیر آئینی اور غیر قانونی ٹیکس پر حیراں و پریشاں ہے اور ایسے کسی بھی صورت قبول کرنے کو تیار نظر آتے لیکن بعض پھر بھی اس ٹیکس کے حوالے سے نرم گوشہ رکھتے ہوئے نظر آتے ہیں جو حکومتی طبقہ اور موجودہ حکومت کی یار اور ان کے نمک خوار ہوسکتے ہیں وہ دل ہی دل میں اس ٹیکس کی مخالف ہے لیکن بظاہر اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کی غرض سے ان کے حق میں بیانات دےرہی ہیں۔ یہ رِیت صرف اس وقت ہونے والے ہڑتالوں اور احتجاجوں کا بلکہ ماضی میں بھی عوام گندم سبسیڈی سمیت دیگر مسائل کی وجہ سے سڑکوں پر نکلے تواس وقت بھی صورت حال یکسر مختلف تھے۔ آج دھرنوں میں زبانی کلامی دعوے کرنے والے اس وقت گھروں اور دفاتر میں تماشا دیکھ رہے تھے اور اس وقت اپنے عالیشان گھروں اور دفتروں میں بیٹھ کر چند ناقبت اندیش مشیروں کے مشوروں پر عمل کرنے والے اس دور میں عوام کے ساتھ اتحادی بں کر بلند وبانگ دعووں سے سینہ پیٹ رہے تھے اور اقتدار میں آکر تارے توڑ لانے کی باتیں کرہے تھے لیکن یہ ساری باتیں زھن میں آنے کے بعد لگتاہے اس غریب اور مظلوم عوام سے کوئی مخلص نہیں ہے۔
یہ سیاسی لوگ عوامی اجتماع کو اپنی مفاد کیلے استعمال کرنے کے ساتھ صرف اور صرف ایک دوسرے کو تنقید کانشانہ بنانے اور آنے والے سالوں کیلے اپنے لیے جگہ بنانے کے علاوہ کچھ کرتے۔ مجھے یقیں ہے کہ میرے اس تجزیے سے زیادہ تر قاری اتفاق کریں گے اور بعض کو یہ جملے ناگوار بھی گزریں گے باوجود اس کے یہی سچ اور حقیقت ہے۔ اگر یہ نمائندے اس خطے اور اس خطے کے باسیوں سے مخلص ہوتے تو یہ نمائندے ہمیشہ عوامی ترجمان بنتے وہ اقتدار میں ہو یا نہ ہو لیکن ایسا نہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ لوگ مفاد پرست اور وفاق پرست ہیں۔
گلگت بلتستان کی تاریخ میں آج تک کسی نے مخلص ہوکر اس خطے کے حوالے سے نہیں سوچا جس کا خیمازہ آج ستر سال ہونے کے بعد بھی ہم بھگت رہے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس نے بھی اس خطے میں بسنے والوں کی محرومی اور ان کے حقوق کے لیے آوز بلند کی تو انہیں مختلف القابات سے نوازے۔ یہاں تک انہیں غدّار وطں ڈیکلیر کرنے کی کوشش کی اور انہیں زباں بند رکھنے پر مجبور کیا۔
آج گلگت بلتستان کی چودہ لاکھ سے زائد عوام اس بات کو لیکر سرا پا احتجاج ہے کہ حق دو ٹیکس لو مگر یہ نعرہ بھی سمج سے بالا تر ہے کیونکہ اقوام متحدہ کے قوانین کے مطابق یہ خطہ متنازعہ ہے اور متنازعہ خطے میں جس انداز سے ٹیکسز لاگو کیا گیا ہے ایک تو یہ اقوام متحدہ کے قراداد کی منافی ہے تو دوسری طرف پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے کی توہین ہے اور یہ عمل توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔ ایسے میں گلگت بلتستان کے باسیوں کےمطالبہ عقل قبول نہ کرنے والی بات ہے۔
یہاں کے زیادہ تر باسی سرے سے ہی ٹیکسز کے خلاف ہے اور یہی اس علاقے کی مفاد میں بھی ہے اور قانونی نقطہ نگاہ سے حقیقت بھی مگر جو حالات اس وقت نظر آرہے ہیں وہ ایک اندوھناک حالت ہے۔ اس وقت گلگت بلتستان کی ہر فرد یک زباں ہو کر یہی مطالبہ کر ہے ہیں کہ گلگت بلتستان میں غیر آئینی اور غیر قانونی ٹیکسز کو مکمل ختم کیا جائے۔ اسی بات کو لیے کئی دنوں سے گلگت بلتستان مکمل بند ہے یہاں تک شہروں کی بات اپنی جگہ کسی گلی کوچہ میں بھی ایک کھوکھہ تک نہیں کھلا۔ لوگوں نے اپنے نقصاں کو برداشت کیئے۔
کہا جاتا تھا کہ کچھ پانے کیلے کچھ کھونا پڑتا ہے اسی مثال پر خوب عمل کر رہے تھے اس سے یہ ثابت ہورہا تھا کہ گلگت بلتستان کے باسیوں نے اپنی ماضی سے سبق سیکھا ہے اور ماضی کی غلطیوں کو زہنوں میں رکھ کر اتحاد واتفاق کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگ اب گلگتی بلتیوں سے نکل کر ایک قوم بننے جارہی ہے۔ ایسے میں ایک بات زہن نشین کرنا ضروری ہے کہ اس اتحاد اور اتفاق کو ثبوتاژ کرنے کیلے علاقہ دشمن عناصر سرگرم ہونے کا خطرہ ہے لیکن ہمیں صبرسے کام لینے اور ٹھنڈے دماغ کا استعمال کرتے ہوئے اپنے صفوں میں باہمی محبت اور اخوت کو برقرار رکھنا ہوگا تاکہ انہیں اپنے عزائم میں ناکامی ملے۔ اگر اس اتحاد اور بھائی چارہ گی کو برقرار کھنے میں ہم کامیاب ہوئے تو وہ وقت دور نہیں کہ ہمیں اپنا حق ملے۔ اگر گلگت بلتستان کے عوام تھکے ہارے بغیر انجمن تاجران کے ساتھ ڈٹے رہیں تو یہاں پر جبری نافذ شدہ ٹیکس بھی ہمیشہ کیلے نیست ونابود ہوگا۔
کئی دنوں سے جاری اس ہڑتال میں اس وقت بچے بوڑھے جواں شامل ہیں اور یہاں ہمارے ماؤں بہنوں کی طرف سے پیغام بھی موصول ہورہی ہے کہ اگر انجمن تاجران حکم کریں تو ہم بھی اپنے حقوق کے حصول کیلے اپنے بچوں سمیت سڑکوں پر نکلنے کو تیار ہیں اور اپنا حق چھین کے لیں گے۔ سلام ہو ایسی خواتیں پر جو اپنے حقوق کے حصول کیلے بےتاب ہیں. لیکن ہڑ تال کے شروع سے لیکر چار دن تک خاموش خواب خرگوش لینےوالے حکمران بھی اب جاگ گئےنہیں اور عوام کو اس مصیبت سے نکالنے کیلے میدان میں کود پڑےہے اور مظاہریں اور انجمں تاجران سے مذاکرات کرنے کے ساتھ تاجروں کے مطالبات تسلیم کرنے کیلے وفاق سے بات کرنے اور گلگت بلتستان میں جبری لاگو کردہ ٹیکسز کو ختم کرانے کیلے مکمل جدوجہد کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
مذاکراتی کمیٹی میں سٹینڈنگ کمیٹی کے چیرمیں اشرف صداگلگت بلتستان کونسل، صوبائی ترجمان فیض اللٰہ فراق، وزیر تعمیرات ڈاکٹر اقبال، ارمان شاہ، سلطان علی خان، اورنگزیب ایڈوکیٹ وغیرہ جبکہ دوسری طرف انجمن تاجران گلگت بلتستان کے صدر ابراہیم، راجہ ناصر صدر ہوٹلز ایسو سی ایشن، فدا حسین وائس چیرمین عوامی ایکشن کیمٹی۔اورمسعود الرحمٰن سیکٹری جنرل انجمن تاجران گلگت بلتستان وغیرہ شامل تھے کئی گھنٹے بحث ومباحثہ کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کے غیر ملکی دورہ سے واپسی کے فورًا بعد وزیر اعظم سے ملاقات میں یہ سارے مسئلے ختم کرائیں گے
جس کیلے 23 تاریخ تک وقت مانگی گئی۔ انجمن تاجران اور دیگرنے اتفاق کرتے ہوئے 23تاریخ تک ہرتال موخر کرنے کا اعلان کیا ہے۔
سکردو میں عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئےانجمن تاجران کے صدر اور دیگر نے کہا کہ اگر اس بار بھی حکومتی نمائندے اپنے وعدوں پر عمل نہ کریں تو انہیں بہت مہنگا پڑے گا اور 23تاریخ تک ٹیکسزختم نہ کریں تو سول نافرمانی کی تحریک چلائیں گے۔
گلگت بلتستان کے تاجروں اور دیگر تنظیموں کے نمائندوں نے حکومتی مذاکراتی ٹیم کی باتوں پر عمل تو کر لیے ہیں لیکن اب اصل امتحاں ان عوامی نمائندوں کا ہے جنہوں نے مقررہ ڈیڈ لائن تک ٹیکسز ختم کرانے کا وعدہ کیا ہے۔ اگر یہ نمائندے اپنےو عدہ وفا نہ کر پائے تو حالات ایک بار پھر ہڑتال اور دھرنوں کی طرف کروٹ لے سکتی ہے۔ ایسی صورت میں نقصان صوبائی حکومت کا ہوسکتا ہے۔ کیونکہ اب کے بار حتجاج اوردھرنے کی صورت میں دبارہ مذکراتی میز پر آنے کی دعوت دے تو اس وقت ان کو ناکامی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ اس وقت نہ تاجر ان کے باتوں پر عمل کریں گے اور نہ ہی گلگت بلتستان کے دیگر باسی لھٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ جوں ہی وزیر اعلیٰ اپنادورہ مکمل کرکے وطن واپس پہنچے تو اس وقت مزید وقت لینے اور لیت ولعل سے کام لینے کے بجا ئے اپنی اولیں فرصت میں اس مسئلہ کو حل کیا جائے تاکہ گلگت بلتستان کے عوام کو اس ظالمانہ ٹیکسز سے نجات ملے اور حکومتی وقار برقرار رہے۔