کالمز

ستر سالوں سے محرومی کا شکار گلگت بلتستان

ممتازعباس شگری

گلگت بلتستان پاکستان کے شمال میں کوہ قراقرم کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان میں واقع ہے ،گلگت بلتستان کی تاریخ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ یہ وادی سترسالوں سے محرومی کا شکار ہے۔ یکم نومبر 1948کو دنیا کے نقشے پر ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے نمودار ہونے کے بعد سولہ نومبر کو جذبہ ایمانی کے تحت پاکستان کے ساتھ بغیر کسی شرائط کے الحاق کر دیا ۔ بعد ازاں قائداعظم کی رحلت کے بعد بندربانٹ اوراداروں کے درمیان لڑائی میں کسی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ ریاست کے مسائل حل کرنے کیلئے اقدامات کریں۔اور گلگت بلتستان کو ان کے جائز حقوق دلائے،وہاں کے ایک نسل حقوق کے ارمان دل میں لیے اس دنیاکو خیر باد کہہ چکے ہیں جبکہ ایک طبقہ اب بھی حقوق کی خواب دیکھ رہے ہیں۔خدا جانے یہ خواب کب شرمندہ تعبیر ہو گا۔

لوگ اداس ہے اس سے پہلے اُن کی یہ اداسی مایوسی اوربے بسی میں ڈھل جائے حکومت پاکستان کو اس خطے کی اہمیت کا ا ندازہ کرتے ہوئے ان کے مسائل فوری طور پر حل کرنے کی اشد ضرورت ہیں۔

سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری نے اس تاریخی ،ادبی اور ثقافتی ورثے کے حامل اکائی کو شمالی علاقہ جات کے گم نامنام سے نجات دلا کر گلگت اور بلتستان کو ملا کر گلگت بلتستان کا نام دے کر ایک صوبائی وحدت کی شکل دے دی۔ دیکھنے کو تو وزیر اعلیٰ سمیت تمام لوازمات موجود تھا لیکن ان کے پاس اختیارات اور بجٹ بالکل بھی نہیں تھا۔ وقت گزرتا گیا پیپلز پارٹی پاکستان کی حکومت کا سورج گلگت بلتستان سے غروب ہو گیا الیکشن جیتنے کے بعدنئے وزیر اعلیٰ کے ساتھ پاکستان مسلم لیگ ن نے اپنی حکومت تو قائم کر لی مگر حقوق کی بات جوں کی توں ہی رہ گئی ۔ یہاں کے لوگ اب بھی اضطراب کا شکارہے ۔یہاں کے باسیوں کے پاس دولت تو کم ہے مگر اُن کے اداب و مہمان نوازی کا جو وقار ہے وہ شاید کسی بادشاہ کو ہی نصیب نہیں تھا ۔

یہاں کا بچہ بچہ پاکستان کے نام پر کٹ مرنے کو تیار ہے۔ اس کا اندازہ پاک فوج میں موجود جوانوں کی ہمت اور جواں مردی کو دیکھ کر کیا جا سکتا ہے۔ یہاں کے جوان ملک کی دفاع کو فخر سمجھتے ہے۔ کارگل کی جنگ میں یہاں کے بہت سارے نوجوانوں نے ہندوستان کے ناکام عزائم کو خاک میں ملانے کیلئے وطن کی دفاع کرتے ہوئے جام شہادت نوش فرمایا ۔بہت سے نوجوان ابھی دنیا کے بلند ترین محاز سیاچن پر وطن کی خاطر ہمہ وقت تیا ر بیٹھے ہوئے ہیں تاکہ دشمن پاکستان کومیلی آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھ سکیں۔وہ وطن کی خاطر اپنی جانیں نذر کرنے کو بے تاب ہے۔

اگر سیاحتی اعتبار سے بات کی جائے تو گلگت بلتستان کو پاکستان کے ماتھے کا جومر کہا جائے تو بھی غلط نہیں ہو گا۔ گرمیوں کے موسم میں پاکستان سمیت دنیا بھر سے سیاح اس حسین وادی کا رخ کرتے ہیں کیونکہ گلگت بلتستان کوکے ٹو جیسے دنیا کے دوسری بلند ترین چوٹی کو اپنی دامن میں رکھنے کا شرف حاصل ہے۔ سیاحوں پر لگنے والے ٹیکسز اور انکم سے پاکستان کی آمدنی کی شرخ میں بھی اضافہ ہوتا ہے ۔ایک نظر سے دیکھا جائے تو گلگت بلتستان سوئزرلینڈ سے کم نہیں ۔اُن کا ملک ہی وہاں پر آنے والے دنیا بھر کے سیاحوں سے حاصل ہونے والے آمدنی سے چلتا ہے۔ایک اندازے کے مطابق اس سال گلگت بلتستان کے سولہ لاکھ کی آبادی نے تقریباََ آٹھ لاکھ سیاحوں کو خوش آمدید کہا ہوٹلوں اور ریسٹ ہاوسسز میں جگہ کم پڑ ے تو وہاں کے مہمان نواز لوگوں نے اُن کے لیے اپنے اپنے گھروں کے دروازے کھول دیے۔

اب سوال یہ اُٹھتا ہے کہ اب تک گلگت بلتستان کو آئینی حقوق سے محروم کیوں رکھا گیا ہے۔ کیا ہم اپنے ہی صوبوں کو حقوق دینے کیلئےکسی دوسرے ملک کی اجازت نامے کے انتظار میں ہیں۔ حکومت وقت کو فوری طور پر گلگت بلتستان کو اسمبلی میں سیٹ دینے کا اعلان کرنا چاہیے۔اس صوبے کے لیے بجٹ مختص کرنا چاہیے۔وادی میں جہاں جہاں بھی چشمے اور سیر گاہیں ہیں وہاں پر ہوٹلز وغیرہ تعمیر کر کے سیاحت کو فروغ دیا تو پاکستان کا امیر ترین صوبہ بن سکتا ہے۔ سیاحت کی فروغ کیلئے سڑکیں بنانے چاہیے ،پی آئی اے کا پنتالیس ،پچاس سیٹ کا جہاز وہ بھی صرف موسم پر انحصار کر کے سرکاری افسران کیلئے کارآمد آتے ہیں کو وسعت دیتے ہوئے آل ویدر بناکر سیاحوں اور عام عوام کو بھی فراہم کرنا چاہیے۔ سکردو آئیر پورٹ پاکستان کا سب سے بڑا آئیر پورٹ ہیں وہاں پر بڑی جہازیں چلانی چاہیے تاکہ سیاح بھی مستفید ہو سکیں ۔سرمایہ کاروں کو یہاں پر فیکٹریاں لگانی چاہیں تاکہ علاقے کے لوگوں کو روزگار میسر ہو اور خوشخالی کی طرف سفر کا باقاعدہ آغاز ہو۔جب یہ صوبہ ترقی کر جائے ان کو اُ ن کے جائز حقوق دیں دوسرے صوبوں کے برابر حق دیے جائے تب ان پر ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کریں تو وہاں کے غیور عوام اس فیصلے کو من وعم تسلیم کرینگے اور اگر حکومت زبردستی اُن سے ٹیکس لینا چاہے تو عوام اور تاجر برادری اس طرح کے فیصلوں کے خلاف ڈٹ جائیں گئے اور حکومت کو ان کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑے گا۔ جس ملک میں حکومتوں کو توسیع دینے کیلئے ریفرنڈم ہو سکتی ہے تو علاقوں کو اُن کے جائز حقوق دینے کیلئے قانون سازی کیوں نہیں ہو سکتی۔حکومت وقت کو چاہیے کہ پاکستان اور گلگت بلتستان کے عوام کے مفادات کے پیش نظر آئین میں ترامیم کر کے گلگت بلتستان کو آئینی صوبہ بناکر وہاں کے لاکھوں عوام کا خواب شرمندہ تعبیر کریں۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button