کالمز

3دسمبر معذور افراد کا عالمی دن

شکور علی زاہدی

ہر سال 3دسمبر کو UNOکی جانب سے پوری دنیا میں سپیشل افراد کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کی مناسبت سے دنیا کے مختلف ممالک میں معذور افراد کے مسائل، ان کی تعلیم و تربیت اور انہیں معاشرے کے دیگر افراد کے برابر لانے کے لیے مختلف قسم کے پروگرام ، سیمینار، محفلیں اور ریلیاں منعقد کی جاتی ہیں ۔ جن کے ذریعے خصوصی افراد کے مسائل سے آگاہی اور ان کو حل کرنے کے لیے عملی اقدامات کے متعلق آگاہی حاصل کرتے ہیں۔ ان کے اس نیک شگون آواز کو میڈیا کے ذریعے دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا جاتا ہے۔

پوری دنیا میں معذور افراد کے کل تیرہ اقسام ہیں تاہم انہیں سمیٹ کر چار اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں قوت سماعت اور گویائی سے محروم افراد دوسرے نظر سے معذور افراد تیسرے جسمانی معذور افراد اور چوتھی قسم میں ذہنی پسماندہ افراد شامل ہیں ۔ 3دسمبر کا عالمی دن ان تمام معذور افراد کی نمائندگی کرتا ہے اگرچہ دنیا کی تاریخ میں پہلی دفعہ پہلی جنگ عظیم کے دوران ہونے والی تباہی کے بعد جس میں بہت سے افراد مختلف معذوری میں مبتلا ہوئے تھے ان کی دیکھ بھال کی جانب توجہ دی گئی ۔ 1930میں امریکہ میں نابینہ افراد کے لیے قانون سازی کی گئی ۔ 1931میں فرانس کے اندر ہر مون نامی شخص نے نابینا افراد کے مسائل کی جانب توجہ دینے کے لیے ایک بڑی تقریب منعقد کی۔ اکتوبر 1964میں امریکی کانگریس نے سینٹ میں ایک بل پاس کیا جس میں ہر سال 15اکتوبر کو سفید چھڑی کا عالمی دن منانے کا اعلان کیالیکن تمام معذور افراد کے مسائل کے متعلق اقوام متحدہ میں پہلی دفعہ 1976میں غور خوص کے لیے ایک اہم میٹنگ منعقد کی گئی۔ اس دوران یو این او کی جنرل اسمبلی میں یہ فیصلہ ہوا کہ 1981کے سال کو پوری دنیا میں معذوروں کے ساتھ اظہار ہمدردی و یک جہتی والا سال کے طور پر منایا جائے گا۔ پھر 1983سے 1992کے درمیان یو این او کے پلیٹ فارم سے معذور افراد کے تمام تر مسائل کا انتہائی گہرائی سے جائزہ لیا گیا۔

1992 میں یہ حتمی فیصلہ کیا گیا کہ اس کے بعد 3دسمبر کو ہر سال پوری دنیا میں معذور افراد کا عالمی دن کی حیثیت سے منایا جائے گا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی یو این او کی جنرل اسمبلی نے 1992میں ایک اہم تقریب منعقد کر کے اس دن کو منانے کے اغراض و مقاصد بھی بیان کیے۔ اول یہ کہ دنیا کے تمام ممالک 3دسمبر کو عالمی یوم معذور کی مناسبت سے منانے کے پابند ہونگے۔ دوسرا یہ کہ عام افراد کو اس دن کے حوالے سے معذور افراد کے متعلق شعور و آگاہی دی جائے گی تاکہ وہ خصوصی افراد کی اہمیت کو سمجھ سکیں۔ تیسرا یہ کہ اس دن کو منانے کا مقصد معذور افرا دکے مسائل کو اجاگر کرنا اور عام لوگوں کو سمجھانا ۔ چوتھا یہ کہ معذور افراد کے بنیادی حقوق کا خیال رکھنا۔ پانچواں یہ کہ عام آدمی کو معذور افراد کے ساتھ سیاسی سماجی معاشرتی اور اخلاقی تعلقات بحال رکھنا۔ چھٹا یہ کہ معذور افراد کے لیے مالی معاونت کرنا اور ان کو روزگار فراہم کرنا۔ ساتواں یہ کہ زندگی کے ہر پلیٹ فارم میں ان کی حوصلہ افزائی کرنا۔ آٹھواں یہ کہ معذور افراد کے ساتھ پیش آنے والی معاشرتی نا انصافیوں کو دور کرنا۔ نواں یہ کہ انہیں ایسا ماحول محیا کرنا کہ وہ احساس کمتری کا شکار نہ ہو جائیں ۔ اور دسواں یہ کہ معذور افراد کی زندگی کو بہتر سے بہتر بنایا جائے گا۔ اس لیے یو این او کی جانب سے 2007کو معذور افراد کے ساتھ اظہار یکجہتی کا سال منایا گیا۔ اور 2013کو معذور افراد کے ساتھ عام لوگوں کو ترقی اور خوشحالی کے سال کے طور پر منایا گیا۔ دنیا کی جدید ترقی کے ساتھ اس دن کی اہمیت بھی بڑھتی جا رہی ہے پاکستان میں 1993کو پہلی دفعہ اس کی دن کی مناسبت سے تقاریب منعقد کی گئی۔

2017کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر کی کل آبادی میں تقریباً15% کا تعلق معذور افراد سے ہے پاکستان کی 20کروڑ آبادی میں 50لاکھ افراد معذور ہیں۔ جن میں 12لاکھ افراد نابینا ہیں۔

2017کی مردم شماری کے مطابق گلگت بلتستان کی سولہ لاکھ آبادی میں 20 ہزار کے قریب معذور افراد پائے جاتے ہیں ۔WHOکے سروے کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں تقریباً 10%افراد معذور ہیں۔ دنیا کے 45ممالک میں خصوصی افراد کے لیے قوانین بنائے گئے ہیں اور دنیا میں 80%معذور افراد بے روزگار ہیں۔ پوری دنیا میں معذور افراد کی شرح خواندگی 3%ہے اور خواتین میں 1%ہے ایک سروے کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ جنسی اور جسمانی تشدد کا شکار معذور افراد ہوتے ہیں پوری دنیا میں سب سے زیادہ معذور افراد کے حقوق کا خیال ایران میں رکھا جاتا ہے۔ پاکستان میں معذور افراد کی تعلیم و تربیت کے لیے 274تعلیمی ادارے قائم ہیں۔ پنجاب میں معذور افراد کی شرح خواندگی 5% سندھ میں 3.50% کے پی کے میں 2.50% بلوچستان میں 2% وفاق میں 2%آزاد کشمیر میں 4% اور گلگت بلتستان میں 3%ہے ۔

گلگت بلتستان میں معذور افراد کی تعلیم و تربیت کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے 1988میں سپیشل ایجوکیشن سنٹر کا قیام عمل میں لایا گیا۔ جو 2010میں کمپلیکس کا درجہ حاصل کر چکا ہے۔ اس وقت سپیشل ایجوکیشن کمپلیکس میں تقریباً ایک سو ساٹھ کے قریب معذور طلباء و طالبات تعلیم و تربیت حاصل کر رہے ہیں جبکہ مقامی حکومت نے سکردو دیامر غذر اور ہنزہ میں سپیشل افراد کی تعلیم و تربیت کے لیے نئے سنٹرز قائم کرنے کے لیے عملی اقدامات کر رہی ہے جو کہ جی بی کے معذور افراد کے لیے ایک اہم پیش رفت ہے۔ مقامی حکومت سے امید کی جاتی ہے کہ جی بی میں معذور افراد کے تمام تر مسائل کو سمجھتے ہوئے انہیں تعلیم و تربیت کے ساتھ جائز حقوق دینے کے لیے عملی اقدامات کی جانب توجہ دے گی جو کہ خطے کے لیے نیک شگون اور مفید ثابت ہوگا۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button