کالمز

معذور افراد، ہمارے قول وفعل میں تضاد کیوں؟

ایس ایس ناصری

کہا جاتا ہے کہ زندگی ایک امتحان ہے اور آئے روز کسی نہ کسی امتحان سے گزرنا پڑتاہے۔ کبھی بھوک اور افلاس سےمقابلہ تو کبھی کرپشن اور اقرباء پروری کے خلاف آواز بلند، کبھی بیمار تو کبھی تندرستی ہر وقت مختلف زاویوں سے انسانوں کےامتحاں جاری رہتا ہے۔ اور انسان اسطرح کےامتحانوں میں کامیابی کیلےتگ و دو میں رہتا ہے لیکن بعض اوقات کامیابی ملتی ہے اور کبھی ناکامی مقدر بن جاتی ہے۔ پھر بھی یہ اشرف المخلوقات آزمائش کا سامنا کرتے ہوئے اپنی زندگی گزاردیتے ہیں۔ مزکورہ امتحانوں میں سے سب سے زیادہ آسان امتحاں ان کیلے ہیں جن کے پاس مال و دولت ہو۔ یہاں اس بات سے قارئیں کے ذہنوں میں سوال پیدا ہوں گے کہ جن کے پاس مال ودولت، بینک بیلنس اور اقتدار ہو ان کیلے امتحان آسان کیسے ؟اور امتحان سے مال و دولت، اقتدار اور حاکمیت سے کیا واسطہ؟ مگر ان چیزوں سے امتحان کا بلواسطہ یا بلاواسطہ ضرور واسطہ ہے۔اگر دیکھاجائےتو اس دنیاء میں متوسط اور غریب طبقے کیلے کوئی جگہ نہیں۔ یہاں امیر ہر امتحانوں میں اعلیٰ نمبروں کے ساتھ کامیاب ہوتے ہیں اور غریب پر امتحان قہر بن کر آجاتے ہیں۔ کیونکہ اگر مال و دولت اور اقتدار ہو تو بہت سارے امتحانوں میں جن میں بیماری کےامتحان ،بھوک اور افلاس کے امتحان وغیرہ میں انہی مال و دولت کو استعمال کرتے ہوئے کامیابی حاصل کر سکتی ہیں۔ بیماری کے دوران انہی مال دولت کو خرچتےہوئے صحت حاصل کرسکتے ہیں، کسی مفلسی اور ضرورت مندوں کو خدمت کرتے ہوئے اللٰہ، رسول اور انکے آل کی قربت حاصل کرسکتے ہیں۔ انسانیت کی خدمت کو اپنا شعار بناسکتے ہیں لیکن جن کے پاس کچھ بھی نہ ہو ان کیلے امتحان ہی ایک امتحان بن جاتےہیں۔

ان سب سے بڑا امتحان انسان کی زندگی میں معذوری ہے جسے معاشرے میں اسپیشل پرسن یا ڈس ایبل پرسن کہا جاتا ہے۔ اگر اسطرح کے امتحان میں خداوند لم یزل کا شکر ادا کرتے ہوئے وقت گزارے اور اپنے ذہن پر اس بیماری کو سوار کئیے بناء اپنی زندگی آگے بڑھائے تو یقیناً سب سے بڑی کامیابی ہے ۔اور اس آزمائش کا اندازہ وہ شخص ہی کرسکتا ہے جو اس میں مبتلا ہوتے ہیں۔

ڈبلیو ایچ او نے کچھ عرصہ قبل ایک رپورٹ جاری کی تھی جس کے مطابق ترقی پزیر ممالک کے کل آبادی کا تقریباً دس فیصد سے زائد حصہ معذور افراد پرمشتمل ہے۔وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان میں3.5 ملین افراد معذوری کا شکار ہیں۔ان میں سے 8.6فیصد نابینا، 7.43فیصد گونگےاور بہرے، 18.93فیصد لنگڑاہٹ، 7.60فیصد پاگل پن، 43.37فیصد دیگر اقسام کی معذوری کا شکار ہیں، 8.23فیصد افراد ایسے ہیں جنہیں ایک سے زائد معذوری کا سامنا ہیں۔ وطن عزیز کے چاروں صوبوں، فاٹا، کشمیراور گلگت بلتستان میں سےسب سے زیادہ معذوری کے لحاظ سے صوبہ پنجاب آگےہے۔جہاں بیس لاکھ سے زائد افراد اس امتحان میں مبتلاء ہیں ۔

اسی طرح ملک کے عین شمال میں واقع خطہ گلگت بلتستان میں خصوصی افراد کی تعداد 2014میں ایک نجی ادارہ اور قراقرم ڈس ایبلٹی فورم گلگت بلتستان کی جانب سے کی گئی مشترکہ سروے کے مطابق اسپیشل افراد کی تعداد کل آبادی کا 6.5فیصد ہے جبکہ گلگت بلتستان اسپیشل ایجو کیشن کے زرائع کے مطابق اس وقت گلگت بلتستان میں اسپیشل افراد کی تعداد 7.6بتایا جاتا ہے۔اور یہ افراد کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔اور ہر وقت مختلف امتحانوں سے گزر رہے ہیں لیکن آج تک انہیں ان امتحانوں میں کامیابی نہیں ملی۔

ہماری سوسائٹی میں ان افراد کی کسمپرسی کی وجہ ریاستی اداروں میں اور سرکاری سطح پر انکی شنوائی نہ ہونا اور سہولیات کانہ ہونا ہے۔ہمارے صاحباں اقتدار اپنی تقاریروں اور بیانات کے زریعے بلند بانگ دعوئے تو کرتے ہیں ان افراد کو معاشعرے کا اہم جز اور فرد تصورکرتے ہیں لیکن عملی میدان میں ان کے ساتھ جو رویہ اپناتے ہیں وہ نا گفتہ بہ ہے ۔سمیناروں،کانفرسوں اور اسمبلیوں میں ان کے حق میں الفاظوں کے چناؤ اور جملوں کے انتخاب کر کے انہیں زبانی حقوق دینے والوں کی عملی میدان میں کارکردگی دیکھے تو صفر نظر آتے ہیں۔

ہمارے ہاں سرکاری ملازمتوں میں معذور افرادکیلے دو فیصد کوٹہ مختص ہے لیکن اس پر عمل در آمد نہیں ہو رہا۔علاوہ ازیں کسی بھی سرکاری عمارت یا عوامی مقامات پر ان افراد کی رسائی کیلے کوئی سہولیات نہیں ہے۔حالانکہ مغربی دنیاء میں اگر ہم ان افراد کیلے مختص کردہ سہولیات دیکھیں تو دھنگ رہ جاتے ہے۔مغربی ممالک میں تمام سرکاری اور نجی عمارتوں اور مقامات پر ان افراد کی رسائی کو مد نظر رکھ کر ریمپس بنائے جاتے ہیں تاکہ آسانی سے یہ افراد ان عمارتوں تک پہنچ سکے۔ایک قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ مغربی ممالک میں ان افراد کو تعلیم سے بہرہ مند کرانے کیلے تمام تر تعلیمی اداروں میں ماہر اور تجربہ کار اساتذہ ہے جو انکی تربیت کے ساتھ انہیں تعلیم بھی دیتے ہیں لیکن وطن عزیز میں ان افراد کیلے الگ ادارے قائم ہے جن کی تعدادبہت کم ہے جس کی وجہ سے زیادہ تر اسپیشل افراد زیور تعلیم سے محروم رہتے ہیں۔

خصوصاً اگر گلگت بلتستان کا مطالعہ کرے تو یہاں اس خطے کے مرکز گلگت میں سابق دور حکومت میں ایک اسپیشل کمپلیکس قیام عمل میں لایا گیا ہے جہان کچھ افراد اس ادارے سے مستفید ہورہے ہیں لیکن گلگت بلتستان کے زیادہ تر آبادی دیہاتوں اور بالائی علاقوں پر مشتمل ہے جس کی وجہ سے ان علاقوں سے خصوصی افراد گلگت یا ملک کے دیگر شہروں تک نہیں جاسکتے جس کی وجہ سے ان میں موجود ٹیلنٹ نہ صرف ضا ئع ہورہے ہیں بلکہ وہ بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔

لیکن گلگت بلتستان کے زیادہ تر آبادی دیہاتوں اور بالائی علاقوں پر مشتمل ہے جس کی وجہ سے ان علاقوں سے خصوصی افراد گلگت یا ملک کے دیگر شہروں تک نہیں جاسکتے جس کی وجہ سے ان میں موجود ٹیلنٹ نہ صرف زائع ہورہے ہیں بلکہ وہ بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔ گلگت بلتستان بیوروکریسی کے سیاہ وسفید کے مالک اس خطے کے سپیشل افراد کو علم کے میدان میں دوسرے افراد کے مقابلے میں لانے کی بات کررہے ہیں ان کایہ عزم قابل فخر ہے اور علاقے کے خصوصی افراد سے محبت کا ثبوت ہے اگرچہ ان باتوں پر صحیح معنوں میں عمل کرتے ہوئے اس خطے کی جغرافیائی حالت کے پیش ونظر گلگت بلتستان کے تمام علاقوں میں ان افراد کیلے تعلیمی ادارے قائم کرے یا موجودہ تعلیمی اداروں میں تربیت یافتہ اساتذہ تعینات کریں تو یقیناََ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہونے کے ساتھ ان افراد کیلے سہولیات میسر آئیگی وگررنہ یہ بھی سیاسی بیان کیطرح اور صرف اعلان ہی ہوگا جوماضی سےآج تک چلتا ہوا آیا ہے۔

یہاں یہ بات قابل توجہ طلب ہے کہ اس معاشرے کی اہم افراد کیلے تمام تر سہولیات دینے اور ان کیلے مختص کوٹہ پر انہیں ہی تعینات کیلے اہم اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے اور خصوصاً عمارتوں کی تعمیر کے وقت ان کیلےآسانی سےرسائی کو ملحوظ نظر رکھ کر ان کے لیے ریمپس ،لفٹ یا سیڑیوں کی تعمیر کو یقینی بنائے تو معاشرے کا یہ اہم حصہ بآسانی بغیر کسی دقت اورکسی پر ًمحتاج کے بناء اپنے منزل تک پہنچ پائیں گے اور وہ اپنی معزوری کی احساس کمتری سے نکل سکیں گے۔اور اپنے آپ کو معاشرہ کا اہم جز تسلیم کرنے پر فخر بھی ہوگا ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button