کالمز

سیاست ،وکالت اورعدالت

تحر یر: محمد عیسیٰ حلیم

گلگت بلتستان کے وکلا برادری سمیت مختلف طبقہ فکر کے لو گوں کو حکو متوں سے کوئی نہ کوئی شکوہ شکایت یا مطالبہ ضرور رہا ہے۔ ما ضی کی طر ح حال میں بھی مختلف طبقہ فکر سمیت وکلا تنظیموں کے بعض عہد یدار عدالتوں میں مسلکی نما ئند گی کو ضروری قرار دیتے ہو ئے ججو ں کی تعیناتی عمل میں لانے پرزور دیتے رہے ہیں۔ اس حوالے سے چیف کورٹ گلگت بلتستان اور سروس ٹریبونل میں اس وقت تینو ں مسالک سے تعلق رکھنے والے ججوں کی تعیناتی خوش آئند اور لائق تحسین قرار دی جا رہی ہے۔ یہاں تینو ں مسالک سے تعلق رکھنے والے ججو ں کی نما ئیندگی سے مراد یہ ہر گز نہیں ہے کہ خدا نہ خوا ستہ وہ اپنے فیصلے مسلکی خول میں رہ کر کر تے ہیں یا کریں گے۔ در اصل ہمارا ماضی قریب جس قسم کے حالات و واقعات کی وجہ سے ریکارڈ اور تاریخ کا حصہ بنا ہے اسی ماضی نے لو گوں کے ذہنو ں میں نقوش یا اثرات چھوڑا ہے۔ ایسی سو چ اسی ماضی ہی کا نتیجہ ہے کہ اب بھی معا شرے کے بعض ذمہ دار شہری جن کا تعلق مختلف طبقہ فکر سے ہے ہر ادارے میں مسلکی نما ئندگی کو ضروری سمجھتے ہیں۔ میں اس طرح کی نمائندگی کو ضروری یا غیر ضروری قرار دینے سے قبل یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ عدلیہ یا عدالتی نظام در اصل کسی بھی خطے میں اچھے نظام حکو مت کے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ عدلیہ لو گو ں کے حقوق کی بھی محافظ ہو تی ہے۔ گلگت بلتستان گو رننس آڈر 2009کے تحت بھی چیف کورٹ اور سپریم اپلیٹ کورٹ آزاد اور خود مختا ر ادارے ہیں یقیناًمضبوط عدالتی نظام کسی بھی خطے میں سیاسی اور معاشرتی ترقی کا ضامن سمجھا جاتا ہے کیو نکہ لو گو ں کے حقوق کا تحفظ عدالتیں ہی کر سکتی ہیں۔

گلگت بلتستان میں تمام تر مسا ئل کے باوجود قا نون کی حکمرانی سمیت لو گو ں کو انصا ف کی فراہمی کے لئے یہا ں کی عدالتوں نے اہم کر دار ادا کیا ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں کا عام آدمی بھی گلگت بلتستان کی عدالتوں کو ملک کے دیگر حصوں میں موجود عدالتوں سے بہتر سمجھتا ہے مگر یہاں کی عدالتوں کی کار کر دگی کو مذید بہتر بنایا جا سکتا ہے تاکہ لو گو ں کے لئے حقیقی معنو ں میں سستا اور فوری انصاف کو یقینی بنایا جا سکے اور لو گو ں کو انصاف کے حصول کے لئے قارون کا خزانہ ،ایوب ؑ کا صبر اور نوحؑ کی عمر درکار نہ ہو۔ عدالتوں میں سپیڈی ٹرائل کے حوالے سے سابق چیف جج چیف کورٹ صا حب خان کے دور میں چیف کورٹ سمیت ماتحت عدالتوں میں سپیڈی ٹرائل کا عمل خا صہ آ گے بڑ ھا تھا اور ایک سال کی مدت میں ڈسپوز آف ہو چکے تھے۔ امید ہے نئے چیف جج چیف کو رٹ وزیر شکیل احمد اس سلسلے کو مذید بہتر بنا کر عوام کو در پیش مشکلات کو مذید کم کریں گے۔ بار اور بینچ لو گو ں کو انصاف فراہم کر نے کے لئے ایک پیچ پر ہیں تو عدالتوں سے متعلق لو گو ں کے شکوے اور شکا یتوں کو دور کرنے میں کسی قسم کی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا ۔

کسی بھی گلی ،محلہ ،شہر اور ملک میں قانون کی حکمرانی اور عدل و انصاف کی فراہمی کے بغیرخو شحال اور پر امن ما حول کا خواب دیکھنا اندھیرے میں تیر چلانے کے مترادف ہے اور عدل و انصاف کی فراہمی میں ججو ں کا رویہ سمیت وکلا اور حکمرانوں کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ جب وکلا عدالتو ں کی معاونت کرنے کی بجا ئے ظالم کو کسی طریقے سے بچانے کے لئے صلا حیتوں کا استعما ل کرنا شروع کر دیں تو پھر مظلوم کو قیا مت تک انصاف نہیں مل سکے گا اور مظلوم کی کئی نسلیں عدالتوں کا چکر لگاتے لگاتے دنیا سے رخصت ہو جا ئیں گی ۔

گزشتہ دنو ں گلگت بلتستان بار کونسل کے زیر اہتمام نئے وکلا کو سر ٹیفیکیٹس دینے کی تقریب میں نئے چیف جج چیف کورٹ وزیر شکیل احمد نے بحثیت چیف گیسٹ وکلا سے خطاب کرنے کے ساتھ نئے وکلا کو لا ئسسنسز بھی تقسیم کئے۔ اس مو قع پر چیف کورٹ کے جج ملک حق نواز اور نئے جج علی بیگ سمیت وکلا تنظیمو ں کے ذمہ داران نے بھی خطاب کیا اورجو نئیر و کلا میں لا ئسسنز بھی تقسیم کیئے۔ اس مو قع پر بار اور بنچ سے تعلق رکھنے والے ذمہ داران نے بار اور بنچ کے کر دار پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے عدالتی وقار کو بلند رکھتے ہوئے عام آدمی کو انصاف فراہم کرنے کے لئے پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے انجام دینے کا عزم کا اعا دہ کیا ۔

گلگت بلتستان میں عدالتی اور انتظامی اصلاحات کا سلسلہ پہلی بار ڈپٹی چیف ایگزیکٹیو سمیت مشیروں پر مشتمل سیٹ اپ محترمہ بینظیر بٹھو نے متعا رف کر وا یا تھا اور بعد ازاں 28مئی 1999کو سپریم کورٹ آف پاکستان کا 5رکنی بنچ نے عوام کو بنیادی حقو ق کے حوالے سے جو تا ریخی فیصلہ دے دیا تھا اس کے تحت 6ماہ کے اندر گلگت بلتستان کے عوام کو حق حکمرانی اور آذاد عدلیہ تک رسائی کا حق فراہم کر نے کا وفاقی حکومت کو جو حکم جاری ہوا پر میا ں محمد نواز شریف کی حکومت نے عملدر آمد کے لئے پیش رفت کر تے ہوئے گلگت بلتستان کونسل کو قانون ساز کونسل کا درجہ دینے اور چیف کورٹ کے فیصلوں کے خلاف کورٹ آف اپیل بنانے کا اعلان کر دیا ۔

زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بڑی تعداد کی رائے کے مطابق مستقبل میں گلگت بلتستان میں خود مختار عدالتی اداروں میں تقرریاں سیاسی اور مسلکی کوٹہ کے تحت کرنے کی بجائے خالصتا قابلیت ،صلاحیت اور میرٹ پر کی جائیں اور قابل افراد کی تلاش مسلکوں ، قومیتوں ،سیاسی جماعتوں یا علاقائیت کی بنیاد وں پر کرنے کی بجائے خالصتا میرٹ پر کرنے کا میکینزم ترتیب دیا جائے بصورت دیگر مسلکی ،سیاسی یا علاقا ئی وابستگی کی بنیاد پرکی جانی والی تقر ریوں سے متعلقہ اہل شخصیات کا قد کاٹھ متاثر ہونے کا خدشہ ہے ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button