پرنس کریم کا دورہ گلگت بلتستان و چترال اور بین المسالک ہم آہنگی
ممتاز گوہر
پرنس کریم آغا خان 13 دسمبر 2017 کو اکیاسی سال کے ہو جائیں گے۔ 11 جولائی 1957 کو
تخت امامت سنبھالنے والے پرنس کریم اپنے ساٹھ سالہ دور امامت کی ڈائمنڈ جوبلی تقریبات کے سلسلے میں سات دسمبر کو پاکستان پہنچے۔اپنے دورے کے دوران وہ صدر اور وزیر اعظم پاکستان سمیت مختلف حکومتی شخصیات اوراپنے مریدوں اور جماعتی لیڈران سے ملاقاتیں کریں گے۔ ان کے مریدوں کے لئے یہ بات بھی انتہائی اہم ہے کہ پرنس کریم اپنی اکیاسویں سالگرہ پاکستان میں مریدوں کے ساتھ منائیں گے۔ ڈائمنڈ جوبلی تقریبات، امام کی پاکستان میں موجودگی اور سالگرہ تقریبات ان کی مریدوں کے لیے یقیناً بہت اہمیت کے حامل ہیں۔
میری یہ تحریر پرنس کریم کی مذہبی خدمات یا ان کی شخصیت کے حوالے سے نہیں ہے بلکہ پرنس کریم کے بالعموم دورہ پاکستان اور بلخصوص چترال اور گلگت بلتستان میں ڈائمنڈ جوبلی دربار کے حوالے سے ہے۔اس دورے کے حوالے سے کچھ ایسے خوشگوار عوامل دیکھنے کو ملے جن کو مناسب سمجھا کہ قرطاس ابیض کی زینت بنایا جائے۔
گلگت بلتستان اور چترال میں آباد دو ملین سے زائد لوگ مختلف قوموں اور مسالک سے تعلق رکھنے کے باوجود آپس میں گہرے رشتوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ماضی میں کچھ سازشوں و دیگر وجوہات کی وجہ سے ان تعلقات میں تلخیاں بھی پیدا ہوتی رہی ہیں مگر ہمیشہ یہاں پیار محبت و مسلکی رواداری کا بول بالا رہا ہے۔ یہاں کے باشعور لوگوں نے ایسے تمام ناخوشگوار واقعات کی بیخ کنی کے لیے ہمیشہ صف اول کا کردار ادا کیا ہے۔
پرنس کریم کی دورہ گلگت بلتستان و چترال کے حوالے سے ان کی مریدوں کا جوش و خروش عروج پر ہے۔ اس دورے کے حوالے سے گلگت بلتستان میں رہنے والے مسالک جس طریقے سے ایک دوسروں کے ساتھ تعاون ،پیار محبت و ایثار و رواداری کا مظاہرہ کر رہے ہیں ایسے واقعات شاذو نادر ہی کہیں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ قائد ملت اہل تشیع آغا راحت الحسینی نے پرنس کریم کے دورہ گلگت بلتستان کا خیر مقدم کرتے ہوئے دیدار کے لئے غذر اور ہنزہ جانے والوں کے گھروں کی حفاظت، مال مویشی کی پرورش اور دیدار کے لئے جانے والوں کے لئے فری ٹرانسپورٹ کے انتظام کی بھی ہدایت کی ہے۔
ضلع غذر کی اہل سنت براداری نے بھی اس موقعے پر علاقے کی روایتی بھائی چارگی اور مہمان نوازی کے نئے مثال قائم کر دیئے۔ یاسین میں دیدار کے لیے تین دن پہلے جانے والوں کے لیے امیر تو امیر مگر غریب سے غریب لوگوں نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر تعاون کیا اور اپنے گھروں کے دروازے دیدار کے لیے آنے والوں کو کھول دئیے۔ اپنے حصے کا کھانا مہمانوں کو پیش کر دیئے. دسمبر کی یخ بستہ سردیوں میں لوگوں کے لئے ہیٹنگ کا انتظام کیا۔ غذر کے باقی چاروں تحصیلوں سے یاسین جانے والوں کے مال مویشی، گھروں، عبادت گاہوں اور دیگر املاک کی ذمہ داری بھی اہل سنت برادری نے اٹھا لی۔
ضلع نگر کے عوام جو تاریکی میں ڈوبے ہوئے ہنزہ کو ہر رات دیکھتے رہتے تھے مگر پرنس کریم کی آمد پر ان سے رہا نہیں گیا اور انھوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ وہ اپنے حصہ کی بجلی ہنزہ کو دیں گے تا کہ ہنزہ کے مریدوں کو اپنے امام کی آمد کے وقت تاریکیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے اور وہ ڈائمنڈ جوبلی کی تقریبات کو مکمل جوش و جذبے کے ساتھ منا سکیں۔ خود اندھیرے میں رہ کر کسی کو روشنی دینا اور وہ بھی ایسے دنوں میں، اگر اس بات کو سمجھا جائے تو کوئی معمولی بات نہیں ہے۔
ضلع گلگت کی اہل سنت برادری نے بھی اپنے ہمسائیگی میں موجود تمام خاندانوں کی مال و دولت کی ذمہ داری اپنے کاندھوں پر لی ہے۔ گلگت میں چترال، غذر اور ہنزہ سے اسماعیلی مسالک کی بڑی تعداد مقیم ہے جو اپنے امام کی دیدار کے لئے اپنے اپنے علاقوں کا رخ کر چکے ہیں۔ گلگت کی طرح سکردو میں مقیم اسماعیلی برادری کے لوگ ہنزہ اور غذر کا رخ کر چکے ہیں اور انھیں بھی وہاں کے لوگوں نے نہ صرف مبارک بادی کلمات سے رخصت کیا بلکہ ان کے گھر بار کے تحفظ کا احساس تک ہونے نہیں دیا۔
چترال بونی اور گرم چشمہ میں امام کی دیدار کے لئے جانے والے مریدوں کے گھر بار اور مال مویشی کی حفاظت لئے وہاں کی اہل سنت برداری نے دل سے اپنی خدمات پیش کئے۔ دونوں جگہوں میں پنڈال کی تیاری میں اہل سنت براداری نے بھر پور حصہ لیا اور کم وقت میں ناممکن کم کو ممکن کر دکھایا۔ بونی اور گرم چشمہ میں رہنے والوں نے اپنے گھروں اور دلوں کے دروازے دیدار کے لئے آنے والوں کو کھول دیے۔ دسمبر کا موسم اور اپر چترال کی یخ بستہ سردی سے کون واقف نہیں پر یہاں مقامی لوگوں نے ایسے انتظامات کئے کہ سردی کے ہوتے ہوئے سردی کا احساس تک ہونے نہیں دیا ۔ مال ذبح کئے اور گھر میں جو کچھ بہتر سے بہتر تھا اپنے مہمانوں کے لئے پیش کیا۔ پرنس کریم کے آمد کے حوالے سے خیر مقدمی بینرزبھی لگایئے گئے۔
پرنس کریم آغا خان کی دیدار اور رضا کاروں کے کام کے حوالے سے محترم ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی لکھتے ہیں۔’’چترال میں اسماعیلی رضاکاروں نے دیدار گاہوں کو جانے والوں کے ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں کی سہولت کیلئے 380 کلومیٹر عام شاہراہوں کے ساتھ 600 کلومیٹر رابطے کی دیہی سڑکوں کی مرمت کا کام 6 ہفتوں میں مکمل کیا ہے یہ سڑکیں اب موٹر وے کامنظر پیش کر تی ہیں گذشتہ 22 سالوں سے انکی مرمت نہیں ہوئی تھی اس کام کے جذبے کو دیکھ کر مقامی صحافی نے مہمان کو بتایا کہ یہ کام اپنی مدد کے تحت ہو رہا ہے مہما ن دانشور تھا اْس نے جواب دیا ’’یہ اپنی مدد آپ سے آگے کی بات ہے‘‘۔
چترال ہی کے ایک اور نامور لکھاری بشیر حسین آزاد لکھتے ہیں’’چترال کے طول وعرض میں جو سڑکیں کئی سالوں سے مرمت نہیں ہوئی تھیں ان کی مرمت کی گئی۔ ہرگاؤں سے سینکڑوں رضاکار اپنے گینتی بیلچے اور ریڑھے،ٹریکٹروغیرہ سامان لیکر باہر نکلے۔پہلے گاؤں کے اندر لنک روڈ وں کی مرمت کی گئی۔پھر سرکاری سڑکوں کی مرمت بھی اس جوش اور جذبے کے ساتھ کی گئی۔چنانچہ چھہ ہفتوں کے اندرگرم چشمہ ،تورکھو،موڑکھو،مستوج ،مڈکلشٹ کی سڑکوں کوموٹروے کی طرح ہموار،کشادہ اور صاف کرکے رضاکارانہ کام کی نمایاں مثال قائم کی گئی۔ گذشتہ6ہفتوں میں اسماعیلی رضاکاروں نے روڑ کی مرمت کرکے لوگوں کے لئے سہولت پیدا کردی،یارخون اور توکہو کے راستوں میں دشوار گذار مقامات کی مرمت کرکے مثال قائم کی گئی۔‘‘
ہز ہا ینس کی آمد پر مبارک بادی پیش کرتے ہوئے گلگت بلتستان کے سب سے معتبر ادبی شخصیت، شاعر اور حلقہ ارباب ذوق گلگت کے جنرل سیکرٹری جمشید خان دکھی فرماتے ہیں۔
اونچا بڑا ہے خدمت ملت کا تیرا کام
آمد ہے تیری باعث عزت و احترام
تجھ سے نہیں ہے کسی کو بیر ہز ہائنس
اہل شمال کا تہہ دل سے تجھے سلام
گلگت بلتستان کے منجھے ہوئے صحافی اور گلگت پریس کلب کے صدر اقبال عاصی پرنس کریم کی ارض شمال آمد کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں ’’ہزہائنس پرنس کریم آغاخان کی گلگت بلتستان آمد سے علاقے بھر میں پیار ومحبت کے پھول کھل گئے ہیں۔ اہل تشیع اوراہل سنت کی اسماعیلی مکتب فکر سے مثالی یکجہتی اورہنزہ و یاسین میں پرنس کی دیدار کے لئے جانے والے اسماعیلی مرد وزن پر مشتمل مہمانوں کے لئے اپنے دلو ں اور گھروں کے دروازے کھول دینے سے علا قے میں مہمان نوازی کی دم توڑتی روایات دوبارہ ز ندہ ہوگئی ہیں۔پرنس کی مبارک آمد سے علاقے میں جوماحول دیکھنے میں آرہا ہے اللہ کرے ہمیشہ ہمیشہ قائم رہے۔‘‘
گلگت بلتستان کے ابھرتے ہوئے شاعر اور ادبی شخصیت اشتیاق یاد پرنس کریم آغا خان کی آمد کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں ۔
اھلاً و سہلاً مرحبا! اے پھول! اے باد صبا!
ہے خوشبو ں سے معطر آمد سے تیری ،یہ فضا
ممکن نہیں ہے بھولنا خدمات تیری ، اس لئے
کرتے ہیں تیرا شکریہ ، صد بار، دل سے ہم ادا
پرنس کریم کی آمد اور ڈائمنڈ جوبلی کے حوالے سے گلگت بلتستان کے قد آور شاعر اور شینا شاعری کوایک نئی جہت دینے والے ہر دلعزیز ظفر وقار تاج نے خوبصورت شینا گانا لکھا جسے گایا بھی گلگت بلتستان کے مایہ ناز گلوکار جابر خان جابر نے۔ جس کی سریلی آواز ہر دل کو موم کر دیتی ہے وہ آج کل گلگت بلتستان کے ہر دل میں راج کرتے ہیں۔ پرنس کریم کو ہدیہ تبریک پیش کرنے والے اس گانے نے آتے ہی دھوم مچا دی۔اس کے شروع کے بول میں تاج صاحب فرماتے ہیں۔
’’بوٹوٹ نصیب نے بین امامئی دیدار
بین بختاواروٹ تین امامئی دیدار
پوری دنیا تٹ نے خوشی مبارک
مبارک ڈائمنڈ جوبلی مبارک ‘‘
’’یعنی امام کی ظاہر ی دیدار ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی اور وہ بندہ تو خوش قسمت ہوتا ہے جس کو امام کی مکمل دیدار نصیب ہوتی ہے۔ پوری دنیا کو یہ خوشی اور پرنس کریم آغا خان کی ڈائمنڈ جوبلی مبارک ہو۔‘‘
گلگت بلتستان کے معروف لکھاری اور وزیر اعلی کے میڈیا کوارڈینیٹر رشید ارشد لکھتے ہیں۔
’’1960میں جب پہلی دفعہ پرنس کریم گلگت بلتستان تشریف لائے تو آپ خود وہاں کے لوگوں کی حالات زندگی دیکھ کر کافی مایوس اورپریشان ہوئے جس کے بعد آپک رہنمائی اور ہدایت کی روشنی میں ایک جامع حکمت عملی تیار کی اور1980 میں آغاخان فاونڈیشن نے گلگت بلتستان میں آغاخان رورل سپورٹ پروگرام، آغاخان ہیلتھ سروسز اور دیگر فلاحی اداروں کی بنیاد رکھی جو آج بھی اس علاقے کی ترقی اور خوشحالی میں اہم کردار ادا کررہیں ہیں۔ غرض یہ کی ہزہائنس کی خدمات نہ صرف اسماعیلی جماعت تک محدود ہے بلکہ دنیا کے دیگر حصوں میں بھی لوگوں کی فلاح ؤبہبود کے لیے سرگرمِ عمل ہیں۔‘‘
پرنس کریم کی آمد کے حوالے سے ہر شخص اور ادارے نے اپنی ممکنہ مددکی پیش کش کی ۔ عوامی ایکشن کمیٹی نے اپنا احتجاج ملتوی کیا۔ قراقرم یونیورسٹی نے اس دوران اعلان کردہ امتحانی پرچے ملتوی کر دئے۔چترال انتظامیہ نے ہفتے کے روز عام تعطیل کا اعلان کیا۔ چترال میں جماعت اسلامی اور جمیعت علمائے اسلام نے نہ صرف انتظامی و اخلاقی طور پر مدد کی بلکہ پنڈال کی تیاری اور دیگر کاموں کے لیے مالی مدد بھی کی۔
مناپن ضلع نگر کی مشہور ہوٹل اوشو تھنگ سمیت پانچ ہوٹلوں کی انتظامیہ نے دیدار کے لیے ہنزہ آنے والوں کے لیے فری رہائش اور کھانے پینے کا انتظام کیا۔ قراقرم ہائی وے نگر کے حدود میں اہل نگر کی طرف سے استقبالیہ بینرز آویزاں اور والنٹیرز کے دستے کسی بھی طرح کی مدد کے لیے چوکس رکھے۔ نگر کے علاقے سکندر آباد میں ریحان گیسٹ ہاوس کو دور دراز سے آنے والوں کے لئے خالی کر دیا گیا۔انجمن حسینیہ نگر کی جانب سے پچاس رضاکاروں سمیت دو ایمبولنسز بھی فراہم کردی گئی ہیں جو ضلعی انتظامیہ کے ساتھ ملکر ان عقیدت مندوں کی خدمت کریں گے۔
ان سب سے بڑھ کر طاؤس ، علی آباد ، بونی اور گرم چشمہ سے ملحقہ علاقوں کے عوام نے رنگ، نسل، مسلک اور رشتہ داریوں کی چار دیواری سے باہر نکل کر لوگوں کی جس طرح سے تن من دھن سے مدد کی یقیناًاسے گلگت بلتستان اور چترال کی تاریخ میں ہمیشہ سنہرے حروف میں یاد کیا جائے گا۔
اس دورے سے ایک اہم سماجی کام جس کا عام عوام،حکومتی و دیگر حکام بھی برملا اعتراف کر رہے ہیں وہ یہ کہ اسماعیلی رضاکاروں نے پورے علاقے کی صفائی ، رابطہ سڑکوں اور مین روڈز کی ضروری مرمت کا کام انتہائی مختصر عرصے میں انجام دیا ہے۔ یہ ایک مفاد عامہ کا کام ہے جس سے یقیناً وہاں کے مقامی لوگوں کے لیے نہ صرف آسانیاں پیدا ہوں گی بلکہ رضاکارانہ خدمت اور اپنی آپ مدد آپ کے تحت اس طرح کے کاموں کے سلسلے کو آگے بھی جاری رکھنے میں مدد ملے گی۔ حکومت کو اس طرح کے کام کرنے میں ایک عرصہ لگتا ہے جس کے پیچھے فنڈز کی موجودگی و فراہمی اور ایک پیچیدہ مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ گلگت بلتستان کے ایک اعلیٰ حکومتی عہدیدار نے اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح کا کام جس منظم انداز میں رضاکارانہ طور پر ان رضاکاروں نے انجام دیا ہے حکومت یا تو اس طرح کا کام کر ہی نہیں پاتی یا پھر اس کے لیے کئی سال لگ جاتے۔
غذر کے مایہ ناز صحافی اور مشہور شخصیت راجہ عادل غیاث لکھتے ہیں۔ ’’یاسین طاؤس میں پنڈال سج گیا۔ ایک لاکھ بیس ہزار سے زائد فرزندان شیعہ امامی اسماعیلی یاسین میں خیمہ زن ہوگئے۔ دیدار کے لمحات قریب آگئے۔ جوش و خروش قابل دید۔ سیکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات کیے گئے ہیں۔ پاک فوج کے تازہ دم دستوں کے علاوہ جی بی سکاوٹس اور جی بی پولیس کے سینکڑوں جوانوں نے سیکیورٹی کے انتظامات سنبھال لئے۔ اہل سنت اور اہل تشیع برادری نے اپنے بھائیوں کے گھر بار اور مال مویشیوں کی حفاظت کا بیڑہ اٹھا لیا۔ غذر انتظامیہ ، غذر پولیس نے اسماعیلی ریجنل کونسلات سے مل کر دیدار کے بہترین ا انتظامات کو حتمی شکل دیدی ہے۔ یاسین کے مقامی گھرانوں نے مہمان نوازی اور انسان دوستی کی قابل تعریف مثال قائم کر دی ہے۔ دور دراز علاقوں سے آنے والے افراد کے لئے اپنے دل اور دروازے کھول دئے۔ غذر میں بین المسالک ہم آہنگی کی قابل تعریف اور قا بل تقلید مثال قائم کردی گئی۔‘‘
گلگت بلتستان اور چترال میں پرنس کریم کی آمد اور ان کی مریدوں کی عقیدت مندی اپنی جگہ مگر اس سے جس طرح کی بین المسالک ہم آہنگی ، رواداری، پیار، اخوت، بھائی چارگی اور انصاری کا ایک جذبہ دیکھنے کو مل رہا ہے اس کی مثال تاریخ میں بہت کم ہی ملتی ہے۔ لوگ ایک دوسروں کے قریب آ رہے ہیں۔ کھل کر ایک دوسروں کی مدد کر رہے ہیں۔ پیار محبت کے کلمات کا تبادلہ ہو رہا ہے۔سوشل میڈیا میں خوش آمدید اور اسماعیلی بھائیوں کو مبارکبادی کے پیغامات دیے جا رہے ہیں. یہیں وہ اقدامات ہوتے ہیں جس سے دوسروں کے دلوں میں جگہ بنا لیا جاتا ہے۔علاقے میں امن، پیار محبت کا ماحول پیدا کیا جاتا ہے۔بس پرنس کریم آئے یا کوئی اور رہنما ء ہماری دعا ہے کہ ہمالیہ قراقرم اور ہندوکش کے دامن میں آباد یہ زندہ دل لوگ ہمیشہ اسی طرح زندہ دلی کے ساتھ شاد و آباد رہیں۔