حلقہ بندیوں میں ردّو بدل
2018ء کے انتخابات کے لئے حلقہ بندیوں کو تبدیل کرنے کا بل قومی اسمبلی میں ایک گھنٹے کے اندر پاس ہوا سینیٹ میں یہ بل دو مہینے تک تعطل کا شکار رہا آخر مک مکا کرکے سینیٹ نے بھی حلقہ بندیوں میں ردّو بدل کا قانون منظور کیا پارلمینٹ کی منظوری کے بعد الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں میں ردّوبدل کیلئے ہر صوبے اور ہر ضلع کے ووٹروں کی تعداد کے حساب سے خیبر پختونخواکے اضلاع صوابی، چارسدہ،ہری پور اور چترال کی 4سیٹوں کو کم کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کیا تو شور شرابہ شروع ہوا ہے کوئی کہتا ہے کہ میں بائیکاٹ کروں گاکوئی کہتا ہے میں دھرنا دوں گا عوامی دباؤ کے ذریعے احتجاج کروں گا قومی اسمبلی نے اس سے پہلے آئینی ترمیم کے ذریعے ختم نبوت کے مسلّمہ قانون کو ختم کرنے کا قانون منظور کیا تو اس کے خلاف آواز اُٹھائی گئی آواز اُٹھانے والوں نے اصل مسئلے کو سامنے رکھا یہ قانون کس نے ڈرافٹ کیا کس نے پیش کیا کس نے منظور کیا ان کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے 22دنوں کے پر تشدد ہنگاموں اور کسی بھی لغت سے ماوراگالیوں کے بعد حکومت نے ترمیم واپس لے لی اور وزیر قانون کے چہرے پر کالک مل دیا اس کو گھر بھیج دیا حلقہ بندیوں میں ردّوبدل کا قانون بھی ختم نبوت کے قانون کی طرح پاس کیاگیا ہے اگر درست طریقے سے مسئلے کو اٹھایا گیا تو نہ صرف صوبائی اسمبلی کے پرانے حلقے بحال ہونگے بلکہ صوبائی اسمبلی کی سیٹوں میں کم از کم 8سیٹوں کا اضافہ بھی متوقع ہے مسئلے کی جڑ یااصل مسئلہ یہ ہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اراکین کسی بل یا قانون کا مسودہ نہیں پڑھتے وہ اپنے پارٹی قائد کے اوٹ پٹانگ یاس الٹے سیدھے بیان کو پڑھ کسی بل کی حمایت یا مخالفت کرتے ہیں ان کے لیڈر کو قانون کی الف ب نہیں آتی وہ بھی قانون یا بل کو پڑھ کر بیان نہیں دیتا اندھیرے میں تیر چلاتا ہے رنجیت سنگھ کی طرح ’’منجور‘‘ یا ’’نا منجور‘‘ کہتا ہے ختم نبوت کے قانون کو ختم کرنے کا بل کسی نے نہیں پڑھاتھا یہاں تک کہ زاہد حامد نے بھی نہیں پڑھا تھا، بیرسٹر ظفر اللہ خان اورراجہ ظفر الحق نے بھی نہیں پڑھا تھا احسن اقبال نے حلفیہ بیان دیا کہ اس نے یہ بل نہیں پڑھا تھا حلقہ بندیوں میں ردّو بدل کا بل اور مردم شماری کا بل بھی نہیں پڑھا مردم شماری کے فارم میں اگر دو مزید خانے (boxes) رکھے جاتے تو مسئلہ حل ہوجاتا گھر کے افراد کا خانہ (box) موجود تھا کنبے کے کتنے لوگ پاکستان کے اندر شہروں میں مزدوری یا نوکری یاکاروبار کرتے ہیں؟ کنبے کے کتنے لوگ ملک سے باہر روزگار کی تلاش میں گئے ہیں؟اس طرح کسی کنبے کی اصل آبادی ڈومیسائل اور نادرا کارڈ کے حساب سے آجاتی شہروں کی طرف نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد الگ خانہ (Box) میں آتی بیرون ملک آبادی کی تعداد الگ خانہ(box) میں آجاتی اگر قومی اسمبلی اور سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹیوں میں سے کسی کمیٹی کا رکن ہی مسودہ قانون کو پڑھ لیتا تو مسئلہ حل ہوجاتا مردم شماری بین الاقوامی معیار کے مطابق ہوتی ظاہر ہے سینسس (census)ڈویژن کی اہلیت اور قابلیت مشکوک ہے ان کا تجربہ بھی مشکوک ہے مردم شماری کا کام پلڈاٹ یا کسی دوسرے معتبر ادارے کو دے دیا جاتا سرکاری محکموں میں نادرا (NADRA) اس قابل تھا کہ مردم شماری کا کام خوش اسلوبی سے انجام دیتا مردم شماری سے حلقہ بندی تک قوانین میں خامیوں کا سارا قصور ہمارے اراکین پارلمینٹ کا ہے مجھے کسی اور سے گلہ نہیں صاحبزادہ طارق اللہ اور سینیٹر سراج الحق کا تعلق ایک منظم جماعت سے ہے جس کے پاس وکلاء ہیں تھنگ ٹینک ہے انفرادی حیثیت میں سید خورشید شاہ، ڈاکٹر نفیسہ شاہ، فرحت اللہ بابر، بیرسٹر اعتزاز احسن سے شکوہ ہے یہ لوگ بل کو پڑھ لیتے اور غلط قانون کے سامنے دلائل کے ساتھ ڈٹ جاتے سوشل میڈیا پر جو نوجوان فعال کردار ادا کررہے ہیں انہوں نے نومبر کے مہینے میں یہ مسئلہ اٹھایا تھا تحریک انصاف کے اندرونی حلقوں میں اس مسئلے پر بحث ہوتی تھی مگر پی ٹی آئی نے مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کی ’’حماقتوں ‘‘ پر ’’مزید حماقتوں ‘‘ کا بوجھ ڈالنے کے لئے خاموشی کو ترجیح دی اس طرح گریڈ 17 کے سلیکشن آفیسر کا بنایا ہوا قانون کسی ردّوبدل کے ؔ بغیر پارلمینٹ سے تیسری بار منظور ہوا کہتے ہیں کہ گھوڑا سوار کو پہچانتا ہے سوارکمزور ہو تو بدک جاتا ہے اس طرح بیورو کریسی پہلے ایک ماہ کے اندرحکمران کی نالائقی اور ناتجربہ کاری کا پورا جائزہ لیتی ہے اس کے بعد اپنی من مانی کرکے حکمرانوں کے لئے بدنامی مول لیتی ہے اور مسائل کے انبارلگا دیتی ہے اب صوابی ، چارسدہ ، ہری پور اور چترال کے لوگ اگر اپنی چھینی گئی سیٹوں کو واپس لینا چاہتے ہیں تو عدلیہ کے ذریعے انسانی حقوق کا مسئلہ اٹھاکر قانون کو مسترد کروادیں یا پاکستان پیپلز پارٹی ،مسلم لیگ (ن) اور دیگر پارلیمانی پارٹیوں پر دباؤ ڈال کر پارلمینٹ کے ذریعے ناجائز اور ناروا یعنی امتیازی قانون کو واپس لیکر سابقہ حلقہ بندیوں کو بحال کرائیں یہ دوراستے ہیں تیسرا کوئی راستہ نہیں ہے