کالمز

ٹیکس معاملہ: غلط فہمی جو دور ہوگئی

تحریر :فیض اللہ فراق

مشکوک مزاج کے حامل افراد کے سماج میں غلط فہمیاں اپنی جڑیں مضبوط رکھتی ہیں۔ یہی غلط فہمیاں معاملات کو بگاڑنے، انانیت کوفروغ دینے اور ہٹ دھرمی کے رویے کو مزید مہمیز دینے میں معاون ہوتیں ہیں۔ ایک چھوٹے گھر سے لے کر عام زندگی تک او عوام سے لے کر ایوان اقتدار تک جب غلط فہمی جیسی موذی مرض لاحق ہو تو گھراورملک کی دردو دیوار بیمارزدہ تصور کی عملی تصویر بن جاتے ہیں۔

گلگت بلتستان سطح پر گزشتہ کچھ دنوں سے جاری عوامی تحریک،ہڑتالیں،دھرنے اورلانگ مارچ تک کے سفرکے پس منظرمیں صرف غلط فہمیاں کار فرماتھیں، جس کی وجہ سے بارہا حکومت اور ایکشن کمیٹی کے مابین ہونے والے مذاکرات میں ڈیڈ لاک پیداہوا اور خوش کن پہلو یہ رہاکہ بالا آخر غلط فہمیوں کے خاتمے کے بعد دونوں فریقین کے مابین مذاکرات کامیاب ہوئے جبکہ غلط فہمیوں کا در بند ہوا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مسائل اور معاملات کو سلجھانے میں مذاکرات سے بڑا حل دنیا میں نہیں ہے۔ مسائل کوہمیشہ سے بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے حل کیاجاتا ہے۔ بلتستان سے لے کرگلگت تک انجمن تاجران اور ایکشن کمیٹی نے تمام اضلاع میں دھرنوں اور ہڑتالوں کے ذریعے محصولات ایڈاپٹیشن ایکٹ 2012کی خاتمے کیلئے آواز بلند کیا جبکہ دوسری جانب وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کے حکم پر صوبائی حکومت کی جانب سے اپوزیشن اراکین پر مشتمل مذکورہ معاملے کو حل کرنے کیلئے ایک پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی۔ ادھر پارلیمانی کمیٹی نے اپنے کام کا آغاز تک نہیں کیا تھاادھر دوبارہ ہڑتالیں اور دھرنوں کا آغازہوا۔

افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ انجمن تاجران نے 15قسم کے مختلف ٹیکسز کے نام سے ایک جھوٹا پمفلٹ جاری کیا جس سے حکومت کے خلاف عوامی غم و غصے میں مزید اضافہ ہوا۔ حالانکہ مذکورہ پمفلٹ میں نشان زدہ 15اقسام کے ٹیکسز نہ تو آج تک گلگت بلتستان پرلاگو ہیں اور نہ یہ نافذ کرنے کا سوچاگیا ہے۔ وزیراعلیٰ اور ان کی کابینہ پہلے سے ہی اس بات پر قائل تھی کہ ٹیکسز کے نفاذ کا دائرہ کار محدود کیا جائیگا اور گلگت بلتستان میں مستقبل میں ہونے والی میگا سرمایہ کاری اور یہاں سی پیک کی تعمیر کے سلسلے میں آنیوالی بڑی بڑی کمپنیوں پر محصولات کا نظام نافذ ہوگا جس سے گلگت بلتستان کا عام شہری متاثر نہ ہو۔

وزیر زراعت حاجی جانباز خان اورسپیکر قانون ساز اسمبلی فدا محمد ناشاد نے وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کی سربراہی میں ہونے والے پارلیمانی مشاورتی اجلاس میں ٹیکسز کی سخت مخالفت کی تھی اور وزیراعلیٰ کو مشورہ دیا تھا کہ گلگت بلتستان کی حیثیت کے تعین تک گلگت بلتستان میں کسی بھی قسم کا ٹیکس نہ لگایا جائے۔ حاجی جانبازنے اس معاملے پر کافی سخت موقف اپنایاتھا۔ مشاورتی اجلاس کے اختتام پر وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے صوبے میں میگاسرمایہ کاری اور بیرونی کمپنیوں کی حد تک ایڈاپٹیشن ایکٹ2012کو بحال جبکہ گلگت بلتستان کی عوام کو مذکورہ ایکٹ سے مستثنیٰ قراردلوانے کیلئے ایکٹ میں ضروری ترمیم کی سفارش کی تھی جواس وقت انجمن تاجران اور ایکشن کمیٹی کی سمجھ میں نہیں آئی۔

نومبر کے مہینے میں ہونے والے اس مشاورتی پارلیمانی اجلاس کے بعد ایکٹ میں ترمیم کیلئے باقاعدہ ایک کمیٹی بھی بنائی گئی تھی جس میں اپوزیشن اراکین کوبھی شامل کیا گیاتھا۔ صوبائی حکومت اس حوالے سے بہت سنجیدہ اور متحرک تھی کہ اچانک دسمبر کے مہینے میں دوبارہ ہڑتالیں شروع ہوئیں۔ بنیادی طورپریہ سب کچھ غلط فہمی کا نتیجہ تھا۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ انجمن تاجران اورایکشن کمیٹی نے حکومتی اراکین پر بھروسہ نہیں کیا۔ یہی اعتماد کا فقدان ایک بحران کا سبب بنا اور یہیں سے غلط فہمیوں کا سلسلہ چل پڑا۔

صرف بلتستان سے عوامی جم غفیر کے لانگ مارچ کے بعد گلگت بلتستان میں حکومت اور ایکشن کمیٹی کے مذاکرات کامیاب ہوئے۔ 5نکاتی معاہدے پردستخط ہوا لیکن اس میں کوئی نئی بات شامل نہ ہوسکی۔ وزیراعلیٰ اور اس کی کابینہ نومبر کے مہینے میں جن نکات پرمتفق اور سنجیدہ تھی انہی کو دوبارہ دہرا یاگیا۔ نئے دستخط شدہ مسودے کے مطابق نکتہ اول میں حکومت اپوزیشن ،ایکشن کمیٹی اورانجمن تاجران پر مشتمل مشترکہ کمیٹی بنانے کا فیصلہ ہوا جبکہ اس بات پر حکومت نومبر کے مہینے میں بھی قائل تھی۔ نکتہ دوم کے مطابق یہ مشترکہ کمیٹی ایکٹ 2012کے خاتمے کیلئے اسلام آباد جائے گی حالانکہ اس نکتے پر حکومت پہلے سے متفق تھی۔ نئے تحریری مشترکہ مسودے میں سفارشات پیش کی گئی کہ انکم ٹیکس ایڈاپٹیشن ایکٹ 2012اور اس کے نتیجے میں نافذ ہونے والے انکم ،بنک ٹرانزیکشن اور ود ہولڈنگ محصولات قطعی طورپر ختم کیا جائے گا البتہ جی بی کونسل کو قانون سازی کی ضرورت پیش آنے کی صورت میں جی بی اسمبلی کو اعتماد میں لیا جائے گا۔ اس بات پر صوبائی حکومت پہلے سے تیارتھی کہ ایڈاپٹیشن ایکٹ 2012کو محدود کر کے گلگت بلتستان کو اس ایکٹ سے مستثنیٰ قراردیا جائے اور اسی ضمن میں مذکورہ ایکٹ اوراس کے نتیجے میں پیدا دیگر قسم کے محصولات کو قطعی ختم کرنے کا مترادف تھا۔ گلگت بلتستان منرل پالیسی کوحکومت پہلے عوام دوست بنانے پر غور کررہی تھی جبکہ نومبر کے مہینے میں صوبائی حکومت نے ایکشن کمیٹی کو یقین دلایا تھا کہ گلگت بلتستان سے بالاواسطہ محصولات جو وفاقی خزانے میں جمع ہورہے ہیں ان کوہر حال میں ایک فارمولے کے تحت واپس دلایا جائے گا اور اس نکتے کو نئے مسودے میں دوبارہ دہرایاگیا ہے۔

عوامی ایکشن کمیٹی کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ عوامی مقبول مطالبہ خطے کا آئینی حقوق یا گلگت بلتستان کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے حوالے سے مذکورہ کمیٹی نے ذکرتک نہیں کیا اور محصولات کی نفاذ پر پیدا ہونے والی غلط فہمی کو دور کرنے کے بعد بکھرے ہجوم کی طرح منتشر ہوئی۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button