میں لفظوں کی ہیرا پھیری اور لفاظی کرنے کے فن سے نا اشنا ہوں ۔ثقیل الفاظ کا استعمال اس لئے اچھا نہیں سمجھتا کہ اس کو سمجھنے کے لئے لغت کی تلاش رہتی ہے اس لئے اپنا مدعا سیدھے سیدھے لفظوں میں بیان کرتا ہوں اور اکثر دوست کبھی کبھی اس پہ اپنا تبصرہ بھی جھاڑ دیتے ہیں اس لئے اگر کوئی کمی بیشی ہو تو پیشگی معذرت سیدھی سی بات یہ ہے کہ جس معاشرے میں صرف اللہ کو مانا جائے اور اللہ کی نہ مانی جائے۔جس معاشرے میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا نظریہ چلتا ہو۔ اور جس معاشرے میں ایف آئی آر درج کرنے میں کئی ہفتے لگ جاتے ہوں۔جس معاشرے میں قانون بے بس ہو۔جس معاشرے میں پولیس کیس کو کمزور بنا کر عدالتوں میں پیش کرتی ہو اور ملزم بڑے فخر سے وکٹری کا نشان بنا کر جیل سے نہیں ہسپتالوں سے ہشاس بشاش ضمانت پر رہا ہو جائیں تو اس معاشرے میں زینب پر ہونے والی درندگی اور سفاکی کو روکنا کس کے بس میں ہو سکتا ہے۔ پاکستانی قوم کا حافظہ بڑا ہی کمزور ہے یہ ایک دم سب کچھ بھول جاتی ہے وقتی طور پر واویلا کرنے کے بعد جھاگ کی طرح بیٹھ جاتی ہے اور پھر کچھ عرصے بعد ان ہی لوگوں یا افراد کو کندھوں پر اٹھا کر ایوانوں میں پہنچا دیتی ہے۔اگر کسی کو یاد نہیں تو میں یاد دلاتا ہوں کراچی کا مشہور شاہ زیب قتل کا انجام کیا ہوا پڑھ لیجئے گا۔ایک شاہ زیب قتل کیس نہیں کئی ایسے کیس پاکستانی عدالتوں کے ہیں جن کو مثال بنا کر پیش کیا جاسکتا ہے۔ آج پھر ایسا ہی ایک شرمناک اور دردناک اور سفاکی والا کیس جسے زینب کیس کہا جا سکتا ہے یا کہا جائیگا وقوع پذیر ہوا ہے۔اس کیس میں درندگی اور سفاکی کرنے والوں کو بھی نامعلوم ملزمان قرار دیا گیا ہے۔سوشل میڈیا میں زینب کے حق میں اور انصاف کے لئے آواز اٹھائی جا رہی ہے اور ہم اسی عدالت سے انصاف مانگ رہے ہیں جن کے انصاف کے کارنامے ہمارے سامنے ہیں ۔کہا یہ جاتا ہے کہ عدالتیں مجرموں کو اس لئے بری کرتی ہیں کہ ثبوت نا کافی ہوتا ہے اب کوئی مجھے یہ بتائے کہ اگر زینب کیس کے ملزمان گرفتار ہو بھی جائیں تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اس کے ساتھ ٹھوس ثبوت بھی دئے جائینگے۔ہمارے اس سسٹم میں انصاف کی توقع رکھنا ہی بے کار اور عبث ہے اس سسٹم میں انصاف نہیں ظلم و بربریت ہی ہمارے مقدر میں ہے جیسا کہ آئے روز ہم دیکھتے ہیں غریب کی بیٹیاں اٹھائی بھی جاتی ہیں اور انہیں سر عام ننگا کیا جاتا ہے۔اور غریب کو ڈرا دھمکا کر خاموش کرایا جاتا ہے۔انصاف اس معاشرے میں مل سکتا ہے۔ جہاں یہ نہیں دیکھا جاتا ہے کہ جرم کرنے والا کس کا بیٹا ہے۔ انصاف اس معاشرے میں مل سکتا ہے جہاں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ اس کا عہدہ کیا ہے ۔انصاف اس معاشرے میں مل سکتا ہے جہاں جب مجرم کو سزا ہو تو یہ نہیں کہا جاتا کہ یہ مسلم تھا یہ ہندو تھا یا یہ فلاں فرقے کا تھا ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ جہاں ہمارے قانون میں سقم اور کمزوریاں ہیں وہاں ہم عوام بھی ایسے واقعات کے ذمہ دار ہیں وہ کیسے پر تفصیل کی جائے تو بہت سے پہلو ہیں جن کا احاطہ اس کالم میں ممکن نہیں ۔جب بھی ایسے واقعات رونما ہوجاتے ہیں تو ہمیں انسانیت بڑی یاد آجاتی ہے اور انسانیت کا نام لیکر اسلام پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے انصاف صرف انسانیت کے نام سے موم بتیاں جلانے والے اور انسانیت کے نام پر اسلام پر کیچڑ اچھالنے والے مہیا نہیں کر سکتے ۔ انصاف اس معاشرے میں مل سکتا ہے جہاں اللہ کو صرف مانا نہیں بلکہ اللہ کی مانی جائے اور اللہ کا قانون حد قصاص اور اسلامی تعزیرات نافذ ہوں ۔ اسلام اور انسانیت دو الگ چیزیں نہیں اسلام ہی انسانیت لے کر آیا ہے اور ہمارے پیارے آقا دو جہاں ہی انسانیت کے لئے معبوث کئے گئے تھے اور اسلام اور انسانیت کا تقاضا یہی ہے کہ انصاف کے حصول میں سالوں اور صدیا ں نہیں بلکہ فوری فیصلہ۔ سر قلم، پھانسی، ہم تو وہ لوگ ہیں جب کوئی ایسی سزا دے بھی دے تو اسے نہ جانے ڈکٹیٹر اور نہ جانے کیا کیا القابات سے نوازتے ہیں ۔اب میں جو مثال پیش کرنے لگا ہوں اس کو پڑھنے کے بعد مجھے پکا یقین ہے کہ آپ یہی کہئنگے کہ میں تو ڈکٹیٹر کی حمایت کر رہا ہوں آپ جو بھی کہئیں مثال تو میں پیش کرونگا ضیالحق کے دور کہ جی ہاں 1981 کا دور ہے لاہور میں ایک بچہ اغوا ہوا اور کچھ دنوں بعد اس کی لاش باغبان پورہ تھانہ کی حدود ریلوے کے تالاب میں ملی قاتل گرفتار ہوئے ان کا فیصلہ فوری طور پر فوجی عدالت سے ہوا اور مجرموں کو ٹکٹکی پر لٹکانے کا حکم ہوا حکم میں یہ بات شامل تھی کہ مجرموں کو شام تک لٹکائے رکھا جائے پورے لاہور نے اس پھانسی کو دیکھا چاروں اغواکار اور قاتل پورا دن پھانسی پر جھولتے رہے اسکے بعد دس سال کوئی بچہ اغوا اور قتل نہیں ہوا۔ کیوں آپ کیا سمجھتے ہیں کیا مجرموں کے ساتھ ایسا نہیں ہونا چاہئے ۔ضرور ایسا ہی ہونا چاہئے اور جب تک ایسا نہیں ہوگا وقفے وقفے سے زینب جیسی بیٹیاں درندوں اور سفاکوں کا نشانہ بنتی رہئنگی
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button