کالمز

یہ علاقہ غیر نہیں ہے

فا ٹا کے حوالے سے دو اہم اقدامات کی خبریں اخبارات کی زینت بنی ہیں ۔قومی اسمبلی نے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کا دائرہ کار فاٹا تک وسعت دینے کا بل منظور کیا ہے۔اب سینیٹ سے بل پاس ہوگا اور صدر مملکت کے دستخط کے بعد اسے قانون کا درجہ حاصل ہوگا۔دوسرا اہم کام یہ ہے کہ پاک فوج کی اعلیٰ قیادت نے ٖفاٹا میں باقاعدہ کنٹونمنٹ بنا کر فوج کا گریزن مستقل طور پر فاٹا میں متعین کرنے کا اعلان کیا ہے۔دونوں اہم اقدامات ہیں۔اس وقت وطن عزیز کو اندرونی اور بیرونی محاذ پر کئی چیلنجوں کا سامنا ہے۔اور یہ چیلنج ملکی سلامتی کے حوالے سے ہیں۔فاٹا کے عوام نے گذشتہ 70سالوں میں وطن عزیز پاکستان کا آئین نہیں دیکھا۔ملکی قانون کی عملداری نہیں دیکھی۔200بااثر شخصیات کے ذاتی مفادات کو تحفظ دینے کیلئے انگریزوں کے بنائے ہوئے 1870کے کالے قانون فرنٹیرکرائمز ریگولیشن کے تحت مخصوص طبقے نے فاٹا کے ایک کروڑ عوام پر حکومت کی اور ملکی آبادی کے سب سے زیادہ غیور اورسب سے زیادہ بہادر عوام کو غلاموں کی طرح ایف۔سی۔آر کی زنجیروں میں بند کئے رکھا ۔جنوبی پنجاب ،سندھ یا بلوچستان کا کوئی سمگلر اگر قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے تو الزام فاٹا پر آتا ہے۔پشاور ،ڈی آئی خان یا راولپنڈی کا کوئی شہری گاڑیوں کی چوری،اغوا برائے تاوان یا منشیات کا دھندا کرتا ہے تو الزام فاٹا کے سرپرتھوپ دیا جاتا ہے۔اس کو ’’علاقہ غیر‘‘کا غلط نام دیا جاتا ہے۔علاقہ غیر اس علاقے کو کہتے ہیں جو تمہارا نہ ہو جو اپنا نہ ہو،جس کو آپ

اپنائیت(Ownership)دینے سے انکاری ہوں۔یہ کتنی ستم ظریفی ہے کہ آپ باڑہ،جمرود،کلایہ،لنڈی کوتل،خار،یکہ غنڈ،پاڑہ چنار،وانا اور میران شاہ کو علاقہ غیر کا نام دیتے ہیں۔ملکی قانون ،ملکی عدالت،سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کا دائرہ کار فاٹا تک وسیع ہوجائے تو ان کے لئے علاقہ غیر کی ترکیب استعمال نہیں ہوگی۔اب ان مقامات کو بھی پشاور،مردان،نوشہرہ،بنوں،ڈی آئی خان اور چارسدہ کی طرح اپنا شہر سمجھا جائے گا۔اب کوئی پولیس اہلکار یا اخبار نویس رپورٹ دیتے ہوئے کبھی نہیں لکھے گا کہ ملزمان نے علاقہ غیر میں پناہ لے رکھی ہے یا علاقہ غیر کی طرف فرار ہوگئے ہیں۔بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے اپریل 1948میں خیبر ایجنسی کا تاریخی دورہ کیا اپنے خطاب میں انہوں نے قبائل کو پاکستان کا ’’بازوئے شمشیر زن‘‘کا خطاب دیا۔1948کے جہاد کشمیر میں قبائل نے بابائے قوم کی پیشگوئی کو درست ثابت کیا۔مہمند،وزیر،محسود،بنگش،آفریدی اور شنواری سمیت دیگر قبائل نے کشمیر کے بڑے حصے کو آزاد کرکے اکھنور کے پل پر قبضہ کیا تھا۔سیز فائر کے بعد قبائل کو واپس بلایا گیا۔آج قبائل کے مستقبل کی بات آتی ہے تو ملک کے اندر سے اس کے خلاف آوازیں اٹھتی ہیں۔قومی اسمبلی میں بھی مٹھی بھر عناصر نے قبائل کے خلاف ایف سی آر کے حق میں آواز اٹھائی مگر ناکام ہوئے۔پڑوس میں بھی اور سمندرپار بھی ایسی طاقتیں موجود ہیں جو قبائل کی محرومیوں سے مزید فوائد حاصل کرنا چاہتی ہیں۔امریکہ،افغانستان اور بھارت کے خفیہ ادارے فاٹا کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔اگر فاٹا میں عدالتیں آگئیں،پولیس کا نظام آیا،فوجی چھاؤنیاں قائم ہوئیں،ملکی قوانین کا دائرہ کار فاٹا تک بڑھا دیا گیا تو پاکستان کے دشمنوں کی روزی روٹی بند ہوجائیگی ایف سی آر کے بل بوتے پر فاٹا کے عوام کو غلام رکھنے والے سب بے روزگار ہوجائینگے۔اگر 1978میں فاٹا کے علاقے بندوبستی علاقوں میں شامل ہوتے تو غیر ملکیوں کو فاٹا میں آکر دہشت گردوں کے لئے سرنگیں تعمیر کرنے،دہشت گردی کے اڈے قائم کرنے، عرب،چیچن،ازبک،افغان اور تاجک دہشت گردوں کو فاٹا میں ٹھکانے مہیا کرنے کی کبھی جرأ ت نہ ہوتی۔فرحت اللہ بابر،رستم شاہ مہمند اور شکیل درانی اس بات کے گواہ ہیں کہ 1978میںیورپ اور امریکہ کے سفارتی نمائندوں کیلئے اس وقت کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری یواے جی عیسانی اور سیکٹر کمانڈر بریگیڈئرمناظرنے جو بریفنگ تیار کی تھی اس میں پاک افغان سرحد کو سربمہر کرنے کی تجویز دی گئی تھی جسے عالمی طاقتوں نے مسترد کردیا۔اب حالات آہستہ آہستہ درست سمت کی طرف آرہے ہیں۔پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا کام آخری مراحل میں ہے۔قبائل علاقوں میں مستقل فوجی چھاؤنیوں کے قیام اور سول عدالتوں کی عملداری کے بعد ہم فخر سے کہ سکیں گے کہ یہ ’’علاقہ غیر‘‘نہیں ہے بلکہ اپنا وطن ہے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button