ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ
اخبارات کے ادارتی صفحات ، رنگین صفحات اور میگزین صفحات میں لکھنے والے سب کے سب صحافی نہیں ہوتے۔ ان میں صحافی بہت کم لوگ ہوتے ہیں۔سوشل میڈیا ، فیس بک اور ٹویٹر وغیرہ میں لکھنے والے بھی سب کے سب صحافی نہیں ہوتے۔ آن لائن اخبارات میں لکھنے والے بھی باجماعت صحافی نہیں ہوتے۔مگر عوام الناس اور قارئین کی اکثریت ان سب کو صحافی سمجھتی ہے۔صحافت کے اصولوں پر ان کی تحریروں کو جانچتی ہے اور گلہ ، شکوہ یا شکایت کرتی ہے کہ فلان نے صحافتی اصولوں کا خیال نہیں رکھا۔ غیر جانبدار ی نہیں دکھائی۔اپنی ذاتی رائے دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کی۔یہی تقاضا ریڈیو اور ٹیلی وژن کے پروگرام پیش کرنے میں سہولت کار کا کردار ادا کرنے والوں سے کیا جاتا ہے کہ صحافتی اصولوں کے مطابق غیر جانبدار رہو۔اپنی رائے کو کچل دو۔ کیمرے کی آنکھ سے ہر تصویر دکھاؤ۔فوٹو شاپ کی سیر نہ کراؤ۔بہت سے وغیرہ وغیرہ یہاں بھی ہیں۔ان تو قعات اور شکایات کی وجہ یہ ہے کہ قارئین ، ناظرین اور سامعین ہر کسی کو صحافی سمجھ کر اس کی رائے کو صحافت کے ترازو میں تولتے ہیں حالانکہ صورت حال اس کے برعکس ہوتی ہے۔ صحافی کی پہچان اور تعریف یہ ہے کہ وہ اخبار ، ٹیلی وژن یا میڈیا ہاؤس کا باقاعدہ ملازم ہوتا ہے۔ویج بورڈ ایوارڈ کے تحت تسلیم شدہ ہوتا ہے یا اضلاع اور شہروں ، قصبوں میں اخبار کا نمائندہ یا بیورو چیف ہوتا ہے۔ اس کو پریس کلب اور صحافیوں کی انجمن میں رکنیت ملتی ہے۔ صحافیوں کو حاصل مراعات میں اس کو حصہ ملتا ہے۔وہ اخبار کے ڈیسک پر کام کرتا ہے۔ فوٹو گرافی اور کارٹون نگاری کو بھی صحافت کا جزو قرار دیا گیا ہے۔مگر کالم نگاری صحافت کا حصہ نہیں ہے۔ اگر ارشاد احمد حقانی مرحوم یا حامد میر اور سلیم صافی کی طرح کسی میڈیا ہاؤ س کا باقاعدہ ملازمت پیشہ صحافی کالم بھی لکھتا رہے تو اس کا کالم صحافی کا کالم ہوگا۔ سابق سفارت کار ، ریٹائرڈ جرنیل یا بیورو کریٹ ، حاضر سروس یا ریٹائرڈ اساتذہ ، پروفیسر ، ڈاکٹر اور علمائے دین اگر اخبارات میں کالم لکھتے ہیں یا مضامین ، فیچر وغیرہ چھپواتے ہیں وہ صحافی نہیں ہوتے۔ آن لائن اخبارات ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کا بھی ایسا ہی حال ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ میڈیا گروپ کو مختلف پیشوں سے وابستہ تجربہ کار لوگوں کی رائے درکار ہوتی ہے۔ وہ ان کی ذاتی رائے ہوتی ہے۔ اخبار کی رائے نہیں ہوتی۔ اس لئے اخبارات میں اعلان لاتعلقی یعنی بھی شائع کیا جاتا ہے کہ ان کی آراء سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ میڈیا میں دو طرح کا مواد آتا ہے۔ ایک کا تعلق خبر سے ہوتا ہے دوسرے کا تبصرہ اور تجزیہ سے تعلق ہوتا ہے۔ خبر لازمی طور پر صحافی کی طرف سے آتا ہے۔ تبصرہ نگار اور تجزیہ نگار کا صحافی ہونا ضروری نہیں۔ فیس بک پر اپنی تحریر ڈالنے والے کا صحافی ہونا بالکل ضروری نہیں یہ وہ میڈیم ہے جو شتر بے مہار کہلانے کا حقدار ہے۔ شاعر نے عُمر کے بارے میں جو کچھ کہا وہ سوشل میڈیا پر بھی صادق آتا ہے۔
دو میں ہے رخشِ عُمر کہاں دیکھیئے جاکر تھمے
نہ ہاتھ باک پر نہ پاہے رکاب میں
فیس بک کے قارئین کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ہر لکھنے والے سے صحافیانہ آداب ، غیر جانبدار اور غیر وابستگی کی توقع رکھتے ہیں۔ حالانکہ لکھنے والا نہ صحافی ہے نہ وہ صحافیانہ پابندیوں کا اسیر ہوسکتا ہے۔ تبصرہ نگار اور تجزیہ نگار کی دلچسپی اور جانبداری اس کو تبصرہ اور تجزیہ کرنے پر مجبور کرتی ہے۔وہ پیشہ ورانہ فرض منصبی کے تحت نہیں لکھتا۔ اگر اپنی رائے نہیں دینی تھی تو کالم نگار نے نیویارک ، ٹوکیو، برسلز،لندن یا دوبئی سے کالم لکھ کر اخبار کو کیوں بھیجا ؟اگر اپنی آزادانہ رائے دینے پر پابندی لگی تو ایک تجزیہ کار یا تبصرہ نگار بنوں ، گلگت ، ایبٹ آباد ، چترال یا ڈ ی آئی خان سے لمبا چوڑا مضمون لکھ کر اخبار کو بھلا کیوں بھیجے گا؟غیر جانبدار ی خبر میں ہوتی ہے۔ تبصرہ یا تجزیہ غیر جانبداری تقاضا نہیں کرتا۔ تبصرہ نگار اور تجزیہ نگار اپنا زاویہ نگاہ اور اپنامطمح نظر سامنے لاتا ہے۔ یہ لکھنے کی ترغیب ہے اور یہی اس کا منصب و مقام ہے ۔ صحافی خود بھی خبر نگاری اور رپورٹنگ میں غیر جانبدار ہوتا ہے۔تبصرہ اور تجزیہ کرنے میں اپنی رائے دے دیتا ہے پھر وقت آنے پر اُس کی رائے درست یا غلط ہوتی ہے۔یہ بات واضح ہونی چاہیئے کہ ڈاکٹر ہمایوں ہماؔ ، عنایت اللہ فیضیؔ ، ناصر علی سیدؔ اور اباسین یوسفزئی صحافی نہیں۔اُن پر صحافیانہ پابندیوں کا اطلاق نہیں ہوتا۔ یہ بات بھی واضح ہونی چاہیئے کہ سوشل میڈیا کے بلاگرز کا صحافی ہونا ضروری نہیں۔ ایک آدھ صحافی بھی ان میں ہوسکتا ہے۔ تاہم سوشل میڈیا کے بلاگرز پر صحافت اور غیر جانبداری کے اصولوں کا اطلاق نہیں ہوتا۔ جس طرح زید حامد، اوریا مقبول جان اور ڈاکٹر پرویز ہودبائے پر اخبار نویس والی پابندی نہیں لگائی جاسکتی۔ اسی طرح سوشل میڈیا کے بلاگرز پر بھی صحافیانہ طرز عمل کا گمان نہیں کیا جاسکتا۔صحافی رپورٹ منظر عام پر لاتا ہے۔ یہ لوگ اپنی رائے کے مطابق اُس رپورٹ کا تجزیہ کرتے ہیں۔ صحافی رپورٹ کرتا ہے کہ عدالت نے وزیر اعظم کو نا اہل قرار دیا۔ اس خبر کو چھپانا جانبداری اور بد نیتی ہے۔ تجزیہ نگار اس طرح کے نتائج پر اپنی رائے دیتا ہے اور رائے دینے والے کا اپنا زاویہ نظر ، اپنا تجزیہ یا مطمح نظر ہوتا ہے۔ آپ اُس پر اخبار نویسی کے اصولوں کا اصولوں کا اطلاق نہیں کرسکتے۔ اخبار میں لکھنے والے سب صحافی نہیں ہوتے یہ بات واضح ہونی چاہیئے۔