کالمز

واخان اور پاکستان

عنوان سے ایسا لگتا ہے گویا واخان کسی ملک کا نام ہے مگر ایسی بات نہیں واخان اگر چہ ملک نہیں تا ہم اپنے محل و قوع کے لحاظ سے کسی ملک سے کم بھی نہیں خشکی میں واخان کو وہی اہمیت حاصل ہے جو سمندر میں نہر پانا مہ ،نہر سوئیز کوحاصل ہے 1873ء سے اب تک ڈیڑھ سال گذر گئے واخان ہر 20سال بعد خبروں کا موضو ع بن جا تا ہے اخبا روں میں اس کی سر خیا ں نظر آجاتی ہیں اس ماہ پھر واخان کو اخباری سرخیوں میں جگہ ملی ہے خبریں یہ ہیں کہ واخان کی پٹی میں چین کا فوجی اڈہ بنانے کے لئے افغان حکا م اور چینی قیاد ت کے درمیان گفت و شنید جا ری ہے افغا ن وزارت دفاع نے اس کی تصدیق کی ہے چینی وزارت خارجہ کے حکا م نے بھی اس پرمثبت ر دعمل دکھایا ہے۔چینی دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ دسمبر 2017ء سے افغان حکام کے ساتھ اس معاملے پر مذاکرات ہو رہے ہیں مذاکرات کا پہلا دور دسمبر 2017ء میں بیجنگ میں ہوا تھا اس کے نتیجے میں چینی فوج اور افغان فوج کے دستوں نے اپنے اپنے پرچموں کے ساتھ واخان کی پٹی میں پٹرولنگPetrolling کی پامیر کے کرقیز عمائدین نے بھی پڑوس میں چینی فوج کی نقل و حرکت کی تصدیق کی ہے واخان کی پٹی چین کے لئے بہت اہمیت رکھتی ہے سر دست چینی حکام واخان کی پٹی کو کنڑول کرکے چینی صوبہ سنکیانگ میں داعش اور طالبان کے زیر اثر کام کرنے والے ایسٹ ترکستان کے مسلم جنگجوؤں کا راستہ روکنا چاہتے ہیں۔مستقبل میں واخان پر کنڑول حاصل ہونے کی صورت میں چین کو پاکستان ،تاجکستان اور افغانستان کے راستوں تک محفوظ رسائی مل جائیگی اس کی اہمیت پاکستان کے لئے یہ ہے کہ پاکستان کو بھی تاجکستان تک جانے کے لئے محفوظ راستہ مل جائے گا اللہ کرے کہ افغان حکومت اور چینی قیادت کے درمیان ہونے والے مذاکرات نتیجہ خیز ہوں واخان کی پٹی کو انگریزوں نے افغانستان کی دُم بھی کہا ہے افغانستان کی’’ زبان‘‘ کا نام بھی دیا ہے وجہ یہ ہے کہ افغانستان کے نقشے میں تاجکستان اور پاکستان کی سرحدوں میں گھرا ہواا باریک علاقہ اور تنگ پٹی واخان کہلاتا ہے یہ پٹی شمال مشرق میں افغانستان کے نقشے سے شرقََا غر بََا باہر نکلی ہوئی نظر آتی ہے اس لئے اس کو’’ دم‘‘ یا’’ زبان‘‘ سے تشبیہ دی گئی ہے اس پٹی کی لمبائی مشرق سے مغرب تک 310کلومیٹر اور چوڑائی شما لاََ جنوبََا15کلومیٹر ہے مشرق کی طرف کوہ بابا تنگی کے دامن میں چوڑائی سکڑ کے 10کلومیٹر رہ جاتی ہے البتہ مشرق میں چلکند اور بوزائے گمبزکے درمیاں سرحدِ واخان کا علاقہ وسیع ہے اس کی چوڑائی75کلومیٹر ہے اور یہی علاقہ ہے جو سوختہ ،رباط اور سوماتا ش کے راستے چینی صوبہ سنکیانگ سے مل جاتا ہے جو مسلم اکثریتی علاقہ ہے ۔سرحدِ واخان کا یہ حصہ پامیر میں افغان کرغیز علاقے کے ساتھ متصل واقع ہے ۔واخان کا دریا آبِ پنجہ کہلاتا ہے جو واخجیر گلیشیر سے نکلتا ہے اور روشن کے مقام پر دریائے آمو سے جاملتا ہے یہ دونوں دریامشرق سے مغرب کی طرف بہتے ہیں ۔1873ء میں زاراوس کے حملے کا خطرہ ہوا تو افغان امیر نے واخان کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا 1893میں برطانوی حکومت زار اوس اور افغان حکومت کے درمیان ایک معاہدہ ہوا اس معاہدے کے تحت واخان کو غیر جانبدار علاقہ بفر زون( Buffer zone)قرار دیا گیا 1979 ء میں سویت یونین نے واخان کو اپنی عملداری میں شامل کرکے ایک بریگیڈ فوج اس علاقے میں متعین کی300کلومیٹر سڑک تعمیر کی اور واخان کو مرغاب ملٹری ڈسٹرکٹ کے ساتھ ضم کر دیا فہمیدہ اشرف ،ڈی شاہ خان اور کرنل عبدالرزاق عباسی نے اپنے تحقیقی مقالوں میں اس حقیقت سے پردہ اٹھایا واخان کی پٹی میں ٹیلی فون ،انٹرنیٹ ،بجلی، سٹرک اور دیگر جدید سہولیات کا جال اس دور میں بچھایا گیا سویت فوجوں کے انخلاء کے بعد یہ علاقہ افغان جنگجوؤں کی عملداری میں آیا احمد شاہ مسعود نے اس کا کنٹرول حاصل کیا ۔قوماندان نجم الدین کے خوف سے واخان کی آبادی نے پاکستان میں پناہ لے لی گلگت اور چترال میں ان کو جگہ دی گئی ،نائن الیون کے بعد کرزئی کی حکومت آئی تو شاہ منصور نادری نے واخان کی آبادی کوواپس بلاکر گھروں میں دوبارہ آباد کیا واخان کی پٹی سے دو درے بروغیل اور دروازہ خیبر پختونخوا کے ضلعے چترال کی طرف آتے ہیں6درے گلیشیر کی وجہ سے بند ہو چکے ہیں ایک درہ ضلع ہنزہ کو جا تا ہے ایک درہ قرمبر کے راستے اشکومن ضلع غذر کو جا تا ہے یہ دونون گلگت بلتستان کے اضلاع ہیں واخی آبادی چترال ،خیبرپختونخوا اشکومن اور گوجال ہنزہ میں بھی آباد ہے اگر افغان حکا م اور چینی قیادت کے مذاکرات کامیا ب ہوگے ،چینی فوج کو واخان کی پٹی میں فوج اڈہ مل گیاتو یہ پاکستان ،تاجکستان اور افغانستان کے لے روشن مستقبل کی طرف اہم قدم ہوگا خصوصا چائنا پاکستان اکنا مک کوریڈور اور پاکستان تاجکستان شاہراہ کیلئے نیک فال ہوگا

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button