واپڈا کی ہٹ دہرمی دیامر یوتھ مومنٹ سرا پا احتجاج
تحریر۔اسلم چلاسی
محکمہ واپڈا کی دیامر میں امد سے قبل دیامر کے ماحول میں کسی قسم کا انتشار نہیں تھا ۔لوگ آپس میں بڑے اتفاق و اتحاد کے ساتھ ایک دوسروں کے دکھ درد میں برابر کے شریک رہتے اور معاملات و مسائل کو مقامی روایات کے مطابق بڑی خوش اصلو بی سے حل کرتے تھے لیکن محکمہ واپڈا کے امد کے ساتھ ہی علاقے میں انتشار کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا گھر گھر میں لڑایاں پیدا ہوئی علاقے قبیلے قومیں آپس میں دست گریباں ہوئی ۔کوئی گاؤں محلہ علاقہ یا قبیلہ ایسا نہیں ہے جو مختلف قسم کے مقدمات لیکر کوٹ کچہری کی چکر میں نہ پڑے ہوں کچھ قبیلوں اور علاقوں کے درمیان ایسے بھی مقدمات ہیں جو انقریب خون خرابیں کا سبب بن سکتی ہیں اور یہ تمام خرافات اچانک اس وقت سامنے آئے جس وقت دیامر ڈیم کی تعمیر کیلے واپڈا نے زمین خریدنے کیلے باقاعدہ آغاز کیا اس وقت سے پورے ضلع کا ماحول انتہائی تلخ ہوا تب سے اب تک بیشتر قبیلوں میں سردجنگ کا ماحول اپنے آخری حدوں میں ہے اور کسی بھی وقت یہ سرد جنگی خانہ جنگی میں تبدیل ہوسکتی ہے تو دوسری طرف واپڈا کے جانب سے متاثرین کی فلاح و بہبود کیلے کیے گئے تمام وعدے دھرے کے دھرے رہ گئے اب تک محکمہ واپڈا نے ایک فیصد بھی عوامی نوعیت کے کسی بھی پروجیکٹ پر کام شروع نہیں کیا ابتدائی طور پر ڈی ایح کیو ہسپتال چلاس کو مکمل طور پر محکمہ واپڈا کو ہیڈ اور کرنا تھا اور اس ہسپتال کو ملک کے جدید ترین ہسپتالوں کے برابر لاکر عوام کو صحت کے شعبے میں فائدہ دینا تھا اور سا تھ ہی پبلک سکول چلاس سمیت کئی دیگر تعلیمی اداروں کو گود لیکر معیاری تعلیم عام کرنا تھا اس کے ساتھ بے شمار اور بھی دعوے تھے مگر یہ ابتدائی اعتماد سازی کیے وہ کارنامے ہیں جو اب تک محکمہ واپڈا کے اعمال نامے میں سوالیہ نشان بن کر جھوٹ اور فریب کی نشاندہی کرتے ہوئے ہمارے سامنے ہیں متاثرین کی آبادکاری ملازمتوں میں کوٹہ طلبہ کو سکالر شب اور دیگر کئی معاملات جوں کے توں پڑے ہوئے ہیں جن پر محکمہ واپڈا نے مجرمانہ سرد مہری اختیار کی ہوئی ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ محکمہ واپڈا کے نزدیک متاثرین کوئی اہمیت نہیں رکھتے بلکہ دیامر ڈیم پروجیکٹ اہمیت کا حامل ہے اور محکمہ واپڈا کی اس رویہ کو متاثرین کے اندر سخت بے چینی سے محسوس کیا جارہا ہے یہی وجہ ہے کہ دیامر یوتھ مومنٹ محکمہ واپڈا کی اس ناروا سلوک کی وجہ سے سرا پا احتجاج ہے اور اس حوالے سے آج دیامر کا ضلعی ہیڈ کواٹر چلاس میں دیامر یوتھ مومنٹ کی طرف سے پہلا احتجاجی مظاہرہ ہوا جس میں سیکڑوں کے تعداد میں لوگوں نے شرکت کی اور محکمہ واپڈا کے خلاف سخت نعرہ بازی بھی کی اس موقع پر مقررین نے خطاب کرتے ہوئے محکمہ واپڈا کے رویہ کے خلاف سخت غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے غیر مقامی بھرتیوں کو فوراً منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا اور گریڈ ایک سے لیکر گریڈ پندرہ تک مقامی متاثرین کو ترجیحی بنیادوں پر ملازمت دینے کے ساتھ ساتھ وہ تمام سکیمیں جو محکمہ واپڈا نے ایک خظیر رقم ضائع کر کے غیر معیاری مٹریل کے استعمال سے عوام کیلے باعث ازیت بنا دیا تھا کو از سرے نو دوبارہ تعمیر کر کے قابل استعمال بنانے کا مطا لبہ کیا ۔ دیکھا جائے تو اس حوالے سے عوامی چے مگویاں کا فی عرثے سے جاری تھی جو اب کھل کر سامنے آگئی ہیں عوامی سطح پر اس غیر معیاری مٹریل کے استعمال کو صوبائی حکومت کی کارستانیاں گردانا جا رہا ہے حالانکہ محکمہ واپڈا صوبائی حکومت کے انڈر میں نہیں آتا یہ برائے راست وفاق سے منسلک ادارہ ہے مگر یہ جن پروجیکٹ پر کام ہوا ہے اور غیر معیاری مٹریل استعمال کیا گیا ہے ان پروجیکٹ پر کام کرنے سے قبل صوبائی گورنمٹ سے مشاورت کیا گیا تھا اس کے بعد فنڈز بچا ئے گئے یا پھر خرد برد ہوا یہ کہنا قبل از وقت ہوگا مگر ایک بات یقینی ہے کہ اس میں جو کام ہوا ہے انتہائی نا قص ہوا ہے اور سراسر قومی خزانے کو نقصان دینے کی مترادف ہے جس کی عوامی سطح پر بروقت نشاندہی بھی کی گئی مگر زمہ داران کی طرف سے کوئی نوٹس نہیں لیا گیا اور بیشتر سکیموں کو مکمل کر کے عوام کو مزید ازیت دی گئی اب واپڈا کی جن سکیموں پر کام ہوا ہے ان کا جائزہ لیا جائے تو معملوم ہوتا ہے کہ انتہائی درجہ کا مذاق قومی خزانے کے ساتھ کیا گیا ہے اور عوامی نوعیت کے سکیموں پر وقت گزاری کر کے عوام کو اکسانے کی کوشش کی گئی ہے جس پر دیامر یوتھ مومنٹ عوامی تر جمانی کرتے ہوئے سامنے آگئی ہے اور ۲۲ فر وری تک ڈیڈ لائن دیتے ہوئے محکمہ واپڈا کو ان تمام سکیموں کو دوبارہ درست کرنے کا موقع دیا ہے مقررہ وقت تک محکمہ واپڈا یوتھ مومنٹ کے مطا لبات کو پورا نہیں کرتا ہے تو واپڈا آفس کے سامنے ایک احتجاجی دہر نہ غیر معینہ متدت کیلے ہو گا ۔میرے خیال میں تب مطالبات کے بڑی فہرست سامنے آئے گی اور آہستہ آہستہ دھرنہ تحریک میں تبدیل ہو جا ئے گا چو نکہ انتظامی سطح پر کچھ غلطیاں ایسی سر زد ہوئی ہیں کہ لوگ زرا سا موقع کی تلاش میں ہیں اور کسی بھی وقت عوامی سیلاب سامنے آ سکتا ہے چونکہ ایک طرف واپڈا کا رویہ ہے تو دوسری طرف ریٹس کا مسلہ ہے تو کہیں انتظا میہ کا مسمار مہم جو چند دن قبل دیکھنے کو ملا چند سو کھنڈرات کو مسمار کرنے کا کیا فائدہ ہوا اگر ان کھنڈرات کا معاوضہ ادا کرتے تو کونسی قیامت برپا ہوجاتی ؟اب عوام کی طرف سے انیس ہزار ایکڑ زمین جو کہ مفت لیا گیا ہے اس کے معاوضے کا مطالبہ بھی سامنے آ سکتا ہے اب ان تمام مسائل کا حل محکمہ واپڈا کے پاس ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ محکمہ واپڈا متاثرین کو کس طرح مطمئن کرتا ہے ؟