چترال(گل حماد فاروقی) پشاور سے چترال ٹرانسپورٹ سروس رات کی بجائے دن کے وقت کی جائے عوامی مطالبہ ۔ پشاور سے چترال مسافر گاڑیاں اکثر رات کے وقت آتے ہیں اس کی بنیادی وجہ مسافروں کو لوٹنا ہے کیونکہ وہ مسافروں کا سامان گاڑی کی چھت پر رکھ کر اس کا علیحدہ پیسے لیتے ہیں اور رات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پولیس سے بھی بچ جاتے ہیں۔ مگر لواری ٹاپ کے راستے رات کے وقت سفر کرنا انتہائی حطرناک ہے۔ گاڑی چلاتے وقت ڈرائیور کو صبح آذان کے وقت نیند آتی ہے اور ان پر نیند کا غلبہ ہونے کی وجہ سے گاڑی حادثے کا شکار ہوتے ہیں جن میں کئی قیمتی جانیں بھی ضائع ہوئیں۔
پچھلے سال وادی تریچ سے تعلق رکھنے والے ایک عال دین اور اس کے اہل حانہ سمیت پانچ افراد ایک ہی حاندان کے جبکہ اس حادثے میں کل تیرہ افراد جاں بحق ہوئے تھے۔
رات کے وقت جب گاڑیاں آتے ہیں تو اخبارات بھی نہیں لاتے کیونکہ اخبارات تو صبح چھپتے ہیں جس کی وجہ سے چترال کے اخبار فروش یعنی ہاکرز مالی نقصان کے شکار ہیں۔
حبیب حسین جو چترال بازار میں اخبارات بیچتا ہے ان کا کہنا ہے یہ گاڑی والے رات کو آتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا اخبار بھی نہیں لاتا اور یہ اخبارات دو دن بعد چترال پہنچتے ہیں جس کی وجہ سے اکثر لوگ پرانے اخبارات کو نہیں لیتے۔ اور یوں وہ اور ان کا اہل حانہ فاقہ کشی کا شکار ہوتے ہیں۔
76 سالہ با با گل محمد بھی پچھلے کئی عشروں سے اخبار بیچتا ہے ان کا کہنا ہے پہلے یہ گاڑیاں جب دن کے وقت آتے تھے تو وہ صبح اخبارات بھی ساتھ لاتے تھے مگر اب یہ گاڑیاں دن کی بجائے رات کو آتے ہیں اور اخبارات بھی نہیں لاتے جس کی وجہ سے ان کے پاس دو دن بعد اخبار پہنچتا ہے اور لوگ اسے یہ کہتے ہوئے نہیں خریدتے کہ یہ پرانا ہے۔
سفیر اللہ ایک سماجی کارکن ہے ان کا کہنا ہے کہ جب اخبار دو دون بعد پہنچتا ہے تو وہ باسی ہوتا ہے اور باسی چیز کو کوئی نہیں خریدتا۔
صادق اللہ بھی ایک ہاکر ہے اور وہ بھی اخبارات بیچ کر اپنے اہل حانہ کیلئے رزق حلال کماتا ہے مگر ان کا کہنا ہے کہ اب چونکہ گاڑیاں رات کو آتے ہیں اس وقت اخبار چھپا نہیں ہوتا اور یہ ان کو دو دن بعد ملتا ہے جس کی وجہ سے ان کا اہل حانہ بھی فاقہ کشی کا شکار ہورہے ہیں کیونکہ ان کا کوئی اور ذریعہ آمدن نہیں ہے۔
محمد افضل کڑوپ رشت بازار میں کئی عرصے سے اخبارات بیچتا ہے مگر آج کل وہ اخبارات پڑھنے کی بجائے لوگوں کو ردی کے طور پر بیچتا ہے ان کا کہنا ہے گاڑی والے رات کو آتے ہیں تو ان کے پاس دو یا تین دن بعد اخبار پہنچتا ہے جسے کوئی بھی خریدنے کو تیار نہیں ہوتا اور اخبار کے ایجنسی والے بھی ان پرانے اخباروں کو واپس نہیں لیتے تو وہ مجبوراً ان کو ردی کے طور پر نانبائی کو بیچتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا ایک نمائندہ وفد چترال کے ڈپٹی کمشنر سے مل کر ان کو بھی درخواست کی تھی کہ ان گاڑیوں کو دن کے وقت سفر کی اجازت دی جائے یا کم از کم ایک گاڑی صبح کے وقت لواری سرنگ سے چھوڑا جائے جو اخبارات لاتا ہے۔