کیا آئینی حقوق کا باب بند ہوگیا ۔۔۔؟
تحریر: عافیت اللہ غلام ؔ
پی پی پی گلگت بلتستان کے صوبائی صدر امجد حسین ایڈوکیٹ صاحب کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کا معاملہ گھرکے بیدی نے ہی لٹکا دی ہے۔ وزیر اعلیٰ صاحب نے اہل گلگت بلتستان کے سینے میں مونگ دلی ہے انہیں فوری مستعفی ہوکر عوام سے کیا گیا سنگین دھوکہ دہی کا کفارہ ادا کرنا چاہیے ۔قبل ازیں گلگت بلتستان کے وزیر تعمیرات عامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے یہ انکشاف کرکے پوری قوم کو مایوس کردیا ہے کہ گلگت بلتستان کو آئینی حقوق ملنے کی تمام اُمیدیں دم توڑ گئی ہیں اور آئینی حقوق کا باب بند ہوگیاہے۔ اگر ہمیں پہلے ہی اس بات کا علم ہوتا تو ہم آئینی اصلاحاتی کمیٹی کا مطالبہ نہ کرتے ۔ اس کمیٹی نے ڈھائی سال ضائع کردیے ہیں جس کی کارکردگی بالکل صفر رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ ہمیں قومی اسمبلی اور سینٹ میں مبصر کے طور پر نمائندگی ملے گی ، ہمیں اس نمائندگی کی کوئی ضرور ت نہیں ہے اور ایسی بات گلگت بلتستان عوام کے ساتھ سنگین مذاق ہے اور ہم اس مذاق کو ہر گز برداشت نہیں کریں گے۔
ہم یہاں ڈاکٹر محمد اقبال صاحب سے پوچھتے ہیں کہ اُنہوں نے اپنی ہی پارٹی کے مرکزی حکومت کی جانب سے بنائی گئی اصلاحاتی کمیٹی پر شکایات کے انبار تو لگادیے ہیں مگر اس کمیٹی کی طرف سے جو سنگین مذاق اپنایا گیاہے رد عمل کے طور پر اُنہوں نے احتجاج کا کیا ایسے طریقے کو اپنانے کی کوشش کی جس سے مرکزی حکومت اور اصلاحاتی کمیٹی کو دباؤ میں لایا جاسکے ۔ گلگت بلتستان قانو ن ساز اسمبلی کے گزشتہ الیکشن سے قبل جب اس وقت کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے لالک جان شہید اسٹیڈیم جوٹیال میں یہ اعلان کیا کہ گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کے لیے سرتاج عزیز صاحب کی سربراہی میں جائزہ کمیٹی بنائی گئی ہے اور اس کمیٹی کے سفارشات کے مطابق گلگت بلتستان کو قومی دھارے میں شامل کیا جائے گا تو جی بی بھر کے عوام نے نواز شریف کے اس اعلان کو سراہا اور ان سے اُمیدیں وابستہ رکھیں مگر اس جائزہ کمیٹی سفارشات کا کچھ پتہ نہ چل سکا کہا گیا کہ جائزہ کمیٹی نے اپنی سفارشات مرتب کرکے اس وقت کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو بھیج دی ہیں ۔ میاں محمد نوازشریف صاحب عدالت عظمیٰ کی جانب سے نا اہل قرار دیے جانے کے باعث گھر چلے گئے بعد ازاں وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمٰن کی طرف سے یہ بیان سامنے آگیا کہ میاں محمد نواز شریف مذکورہ سفارشات پر دستخط کرنے والے تھے کہ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ آیا اور انہیں دستخط کئے بغیر گھر جانا پڑا جس کے بعد نئے سرے سے ایک اور اصلاحاتی کمیٹی بنانے کی خبریں گردش کرنے لگی اورساتھ کشمیری قائدین کے متنازعہ بیانات بھی سامنے آنے لگے ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ میاں محمد نواز شریف صاحب عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا انتظار کیے بغیر مرتب کردہ سفارشات پر دستخط کردیتے مگر اُنہوں نے ایسا نہیں کیا شاید ان پر بھی کشمیری قائدین کا دباؤ تھا کہ ایسا نہ کریںْ ۔ یہاں یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کی راہ میں کشمیری قائدین سب سے بڑی رکاوٹ ہیں حالانکہ تاریخی اور جغرافیائی حقائق کو دیکھا جائے تو گلگت بلتستان کا کشمیر سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے 1842 ء سے قبل یہ علاقے دردستان کے نام سے جانے جاتے تھے اور خطہ دردستان میں گلگت ، دیامر ، غذر ، چترال ، کوہستان ، ملازئی ، ہنزہ نگر اور سوات کے شمالی علاقے شامل ہیں ۔ اس سے بھی قدیم تاریخ بلورستان کا مطالعہ کیا جائے تو پورا بلتستان کارگل اور لداخ بھی اس میں شامل ہوتے ہیں ۔1842 ء میں پنجاب کے سکھوں نے گلگت پر قبضہ کیا پھر 1847 ء میں کشمیر کے ڈوگروں نے یہ خطہ برٹش حکومت کو 60 سال کے پٹے پر فروخت کردیا ۔ 14 اگست 1947 ء کو برصغیر
کے تقسیم کے نتیجے میں جب مملکت پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو کشمیری ڈوگروں نے دوبارہ اس خطے پر قدم جمانے کے لیے گھنسارا سنگھ کو گورنر بنا کر بھیجا تو یہاں کے عوام نے بھی اپنی مدد آپ کے تحت علم بغاوت بلند کیا اور آزادی کی جنگ لڑ کر اس خطے کو آزاد کرایا اور 16 نومبر1947 کو غیر مشروط طور پر پاکستان کے ساتھ الحاق کردیا۔ اس دن سے آج تک پورے گلگت بلتستان کے عوام خود کو پاکستانی سمجھتے ہیں اور آئین پاکستان میں شامل ہوکر قومی دھارے کا حصہ بننا چاہتے ہیں مگر بعض سازشی طاقتیں اس خطہ کو کشمیر کا حصہ قرار دیکر متنازعہ بنانے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں ۔ گلگت بلتستان کے عوام اورتمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کو مل کر ایسی تمام سازشوں کو ناکام بنانا ہوگا بصورت دیگر ہمیں قیامت تک آئینی حقوق نہیں ملیں گے۔