دہشت گرد کون ہے ؟
اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستان کو غلط مقاصد کے لئے نقد کرنسی کی ترسیل اور دہشت گردوں کو فراہم کرنے والے ممالک کی واچ لسٹ ( مشکوک فہرست) میں ڈالنے کی بین الاقوامی مہم ناکام ہوگئی ہے یہ مہم فنانشل ایکٹ ٹاسک فورس( FATF)کے پلیٹ فارم سے امریکہ ، بھارت ، برطانیہ ، فرانس اور جرمنی کی طرف سے چلائی جارہی تھی چین، روس اور ترکی سمیت پاکستان کے دوست ممالک نے مہم کو ناکام بنا دیامگر ابھی پاکستان کو افغان خانہ جنگی میں امریکہ کی مدد کرنے سے پہلے والی یعنی1977ء کی پوزیشن پر آنے کے لئے بہت کچھ کرناباقی ہے پاکستان کو قوموں کی برادری میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنے کے لئے اگلے10سالوں تک چو مکھی لڑائی لڑنی ہوگی یعنی بھارت اور افغانستان کے خلاف کامیابی ، امریکہ اور یورپی ممالک کے پروپیگنڈے کے خلاف کامیابی، ملک کے اندر دشمنوں کے لئے کام کرنے والے عناصر کے خلاف کامیابی اور ملکی اداروں کو مضبوط بنا کر ذاتیات اور شخصیات کے مضر اثرات کو ختم کرنے میں کامیابی کے لئے لڑنا ہوگاپاکستان پر دہشت گردوں کی مدد کے الزامات لگانے والے ممالک1978 ء میں افغان خانہ جنگی شروع ہوتے وقت امریکہ اور یورپی ممالک کے سفارت کاروں اور دفاعی یا انٹیلی جنس حکام کی پاکستان آمدورفت سے حاصل ہونے والی معلومات کا سہارا لیتے ہیں 1990ء کی دہائی میں پاکستا ن کے اندر افغان خانہ جنگی کے موضوع پر شائع ہونے والی کتابوں کا سہارا لیتے ہیں بریگیڈیئر محمد یوسف اور صحافی ہارون الرشید کی یاد داشتیں بھی اُسی دور میں شائع ہوئی تھیں اُس دور میں امریکی اور یورپی حکام اپنے عرب دوستوں کے ہمراہ پاکستان کے جن مقامات کے دورے کرتے تھے اُن مقامات کو آج وہی لوگ دہشت گردوں کی پناہ گاہ کا نام دیتے ہیں اس پر ’’ کوئلوں کی دلالی میں منہ کالا‘‘ ہونے کا مقولہ صادق آتا ہے دہشت گردوں کے لئے نقد کرنسی کی ترسیل اور تقسیم کے حوالے سے منی لانڈرنگ پر ہونے والے قوانین کے تحت پاکستان کو مشکوک ممالک کی فہرست میں ڈالا گیاتو ایران کی طرح پاکستان پر بھی پابندیاں لگیں گی امریکہ اور اس کے اتحادی یہی چاہتے ہیں مگر پاکستان کی حکومت نے اس موقع پر لابنگ کر کے اپنا نام مشکوک فہرست میں جانے سے بچا لیااس حوالے سے سوشل میڈیا میں جو مواد آیا اس میں ایک جرمن سکالر کی تحقیق کا خلاصہ قابل ذکر ہے جرمن سکالر نے اپنا نام ظاہر کئے بغیر 8اہم تاریخی واقعات کی طرف اشارہ کرکے ثابت کیا ہے کہ مسلمان دہشت گرد نہیں ، کسی مسلمان قوم یا ملک پردہشت گرد ہونے کا الزام نہیں لگایا جاسکتا جرمن سکالر نے اپنی بات سوال کے پیرایے میں کہی ہے اوریہ 8سوالات ہیں جرمن دانشور نے سوال کیا ہے کیا 1914ء میں پہلی جنگ عظیم شروع کرنے والے مسلمان تھے ؟کیا ہولوکاسٹ کے نام پر 60لاکھ یہودیوں کا خون بہانے والے مسلمان تھے؟ کیا 1939ء میں دوسری جنگ عظیم شروع کرنے والے مسلمان تھے ؟ کیا آسٹریلیا میں 20لاکھ اصلی مکینوں کا قتل عام کرنے والے مسلمان تھے ؟کیا شمالی امریکہ میں ایک کروڑ کالے شہریوں کا خون بہانے والے مسلمان تھے؟کیا افریقہ میں 80لاکھ اصلی مکینوں کو ہلاک کرنے اور سمندر میں پھینکنے والے مسلمان تھے؟ کیا جنوبی امریکہ میں 50لاکھ اصلی مکینوں کو قتل کرنے والے مسلمان تھے؟کیا ہیروشیما اور ناگاسا کی میں دودنوں کے اندر 7لاکھ جاپانیوں کو موت کی نیند سلانے والے مسلما ن تھے؟ان میں سے کسی بھی دہشت گرد ی میں ملوث مسلمان نہیں تھے؟یورپی اور امریکی اقوام تھے پھر دہشت گرد کون ہوا؟ہمیں دور جانے کی ضرورت نہیں، جارج فریڈمین(G.Fridman) چوسوڈوسکی (Chussodvosky) اور دوسرے محققین نے 1978ء میں افغانستان کے اندر چھیڑی ہوئی جنگ کو تیسری عالمی جنگ کا نا م دیا ہے تیسری عالمی جنگ میں افغانستان ، بوسنیا ،عراق ، ایران، شام ، لیبیا، صومالیہ ، سوڈان ، فلسطین ، یمن اور شام کے اندر 20لاکھ انسانوں کا خون بہایا گیا جنگ کا فائدہ بھی انہوں نے اُٹھایامسلمانوں کو ’’ ریت کی بوری‘‘ ( Sand Bag)کے طور پراستعمال کیا گیا ستم ظریفی یہ ہے کہ دشمن کے پاس میڈیا ہے دنیا کے 98فیصد میڈیا پردشمن کا قبضہ ہے مسلمانوں کے ہاتھ میں ریڈیو ، ٹیلی وژن ، اخبارات اور سوشل میڈیا کو استعمال کرنے کی صلاحیت نہیں ہے اس لئے دشمن جھوٹ بولتا ہے بار بار بولتا ہے اورڈٹ کر بولتا ہے مسلمانوں کو بالعموم اورپاکستانیوں کو باالخصوص جارحانہ سفارت کاری اور میڈیا کے ذریعے اب ثابت کرنا ہے کہ دہشت گرد مسلمان نہیں دہشت گرد کوئی اور ہے جو امریکہ اور یورپ میں بھی ہے کشمیر ، فلسطین اور میانمر میں بھی ہے مسئلہ وہی ہے جس کی طرف پروین شاکر نے اشارہ کیا ہے
میں سچ بولو نگی مگر ہار جاؤنگی
وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کردے گا