کالمز

اخبار ، آئینہ اور ہم

فنون لطیفہ ،شاعری ، مصوری اور اداکاری کے ساتھ اخبار نویسی کو بھی معاشرے کا آئینہ یا سماج کا عکس قرار دیا جاتا ہے۔ 20سال پہلے ہمارے پاس انٹرنیٹ کی سہولت عام نہیں تھی ۔ پرائیوٹ ٹی وی چینل نہیں تھے۔ عالمی اخبارات تک ہماری رسائی نہیں تھی۔ پڑوسی ممالک اور دیگر علاقائی ممالک کے اخبارات اور ٹیلی وژن چینیلوں کو پاکستان کے عام گھروں میں چھوٹے بڑے نہیں دیکھتے تھے اس لئے مقابلہ اور موازنہ نہیں ہوتا تھا۔ ہمارے اخبارات اور ٹی وی پروگرام بھی خلیجی ممالک ، یورپ ، افریقہ ، امریکہ اور جنوب مشرقی ایشیا میں دیکھے نہیں جاتے تھے۔ گھر کی بات گھر میں رہتی تھی۔2018ء میں مردان یا پشاور کے اخبار یا ٹی وی چینل پر 7سالہ بچی یا 9سالہ بچے کے ساتھ زیادتی اور پھر قتل کا واقعہ میڈیا میں آجائے تو اس خبر کو پوری دنیا دیکھ لیتی ہے ۔ ہمارے معاشرے کی درندگی ، جہالت اور بد تمیزی یا تہذیب وتمدن کی کمی پوری دنیا کو نظر آتی ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے اخبارات اور ٹی وی چینلوں کو اس طرح کی خبروں کا چسکا لگا ہوا ہے ۔ ٹی وی پر ان کو

بریکنگ نیوزبنایا جاتا ہے۔ اخبارات میں ان کو تین کالمی اور چار کالمی سرخیوں کے ساتھ صفحہ اول یا صفحہ آخر پر نمایاں کر کے شائع کیا جاتا ہے۔ 20مارچ کو چند دوستوں نے 3دنوں کا اخبار اُٹھایا ۔ بھارت ، افغانستان ، ایران ، فرانس ، برطانیہ ، روس ، چین اور امریکہ کے اخبارات کے ساتھ ان کا موازنہ کیا۔ بیرونی ممالک اور پڑوسی ملکوں کے اخبارات جرائم کی خبروں کو اندرونی صفحات میں کلاسیفائیڈ اشتہارات کے بالمقابل ایک کالمی سرخیوں کے ساتھ 100 یا 200 الفاظ میں شائع کرتے ہیں ۔ نمایاں جگہ نہیں دیتے۔ زیادہ اہمیت نہیں دیتے ۔ چین، ایران ، روس اور بھارت کے اخبارات میں جرائم کی خبریں اُس وقت چھپتی ہیں جب مجرموں کو سزا سنائی جاتی ہیں۔ ہمارا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ ایران ، امریکہ ، جاپان اور دیگر ممالک کے اخبارات میں سیاستدانوں کے بے سرو پا بیانات ، گالی گلوچ ، الزام تراشی ، کھینچا تانی اور رسہ کشی کی خبریں ہرروز شائع نہیں ہوتیں۔بلکہ سال دو سال بعد کوئی بڑاواقعہ رونما ہونے کے بعد 146146 یاد رہے 145145 کے ساتھ پرانی رنجش کا ذکر فلیش بیک (Flash Back) کی صورت میں نظر آتا ہے۔ہمارے دوست سید شمس النظر شاہ فاطمی کہتے ہیں کہ اُن قوموں کے پاس ٹیکنالوجی ہے ، کارخانے ہیں،تجارت ہے، بزنس ہے۔ یونیورسٹیوں کے اندر تعلیم ہے۔ ریسرچ ہے۔ جسے اخبارات اور ٹیلی وژن چینلوں کے ذریعے قارئین اور ناظرین تک پہنچایا جاتا ہے۔ ہمارے پاس غلیظ بیانات ، گندی تقاریر ، گالی گلوچ پر مبنی سیاست ، ڈاکہ زنی ، اغوا ، زنا ، قتل اور زیادتی کی خبروں کے سوا کیا ہے ؟ ہمارے اخبارات یہ چیزیں نہ چھاپیں ان پر سرخیاں نہ لگائیں تو پھر کیا چھاپیں گے؟ کونسی سرخیاں شائع ہونگی ؟ بعض احباب کہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ اس قسم کی چٹپٹی خبروں کو پسند کرتا ہے ۔ لوگوں کی پسند کو دیکھ کر اخبارات اور ٹی وی چینل اس طرح کی خبریں ڈھونڈنکالتے ہیں۔ مگر یہ پورا سچ نہیں ہے۔ پورا سچ یہ ہے کہ ایک ماہ تک ایران ، بھارت ، افغانستان اور دیگر مہذب ملکوں کی طرح صاف ستھری سرخیوں کیساتھ اخبار شائع کئے جائیں۔ ٹیلی وژن پروگرام نشر کئے جائینگے۔ تو عوام کی عادت بھی اُسی طرح بدل جائے گی۔ عوام ٹیلی وژن اوراخبارات سے مثبت خبروں اور اچھے پروگراموں کی توقع کریں گے۔ اب عوام کے پاس متبادل کوئی نہیں۔ پاکستان کا صرف ایک اخبار ہے۔ جو منفی خبروں کو نمایاں جگہ نہیں دیتا۔ اُسی کی تقلید کی جائے تولوگوں کو تعمیری صحافت کا تجربہ ہوسکتا ہے ۔ اس طرح چار ٹیلی وژن چینل ہیں جو منفی خبروں اور نفرت یا مایوسی پھیلانے والے تجزیوں کو جگہ نہیں دیتے۔ انہی کی تقلید کی جائے تو صحافت کو بین الاقوامی معیار پر لے جایا جاسکتا ہے۔اس سلسلے میں پیمرا کا کردار بھی قابل رشک نہیں رہا۔ وزارت اطلاعات کا کردار بھی مثبت نتائج نہیں دے سکتا ۔ آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی(APNS) اور کونسل آف نیوز پیپر ایڈیٹر ز (CPNE)کا طرزِ عمل بھی قومی مفادات اور وقت کے تقاضوں کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا ۔ بے شک اخبار معاشرے کا آئینہ ہے مگر معاشرے میں زنا، قتل ، چوری اور دیگر جرائم کے علاہ بھی بہت کچھ ہے ۔ معاشرے کا 98فیصد مہذب ہے ۔ دو فیصد غیر مہذب ہے۔ دوفیصد غیر مہذب عنصر کو معاشرہ بناکر کیوں دکھایا جاتا ہے ؟ ایک سابق بیوروکریٹ کا کہنا ہے کہ ہمارے عدالتی نظام کی کمزوریوں کیوجہ سے معاشرے میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔ عدالتیں مجرموں کو سزا دینے میں ناکام ہوجاتی ہیں ۔ بڑے سے بڑا مجرم عدالتی نظام کی خرابیوں سے فائدہ اُٹھاتا ہے۔ لاہور میں زینب نامی معصوم بچی کا قاتل دو ماہ پہلے پکڑا گیا۔ اس کو 3دنوں کے اندر سزا ہونی چاہئیے تھی ۔ سر عام پھانسی دی جانی چاہیئے تھی مگر اس کا مقدمہ عدالتوں میں لٹکا ہوا ہے۔ لمبی لمبی تاریخیں دی جارہی ہیں ۔ ایک سرمایہ دار گروہ اس کو سزا سے بچانے پر پیسہ لگا رہا ہے ۔ بے شک جرائم کی خبریں اخبارات میں آنی چاہیءں مگر اس وقت آنی چاہیءں جب مجرم کو سزائے موت دی جائے۔ سزا کی خبر کے ساتھ جرم کی خبر بھی آنی چاہیئے۔ فاطمی صاحب کہتے ہیں کہ اخبار میں یہ خبر نہ آئے ، ٹیلی وژن پر شور شرابہ نہ کیا جائے تو پولیس مجرم کو کبھی گرفتار نہیں کرے گی۔ یہاں اُلٹی گنگا بہتی ہے۔ پولیس مجرم کی گرفتاری کیلئے اخبار اور ٹیلی وژن پروگرام کا انتظار کرتی ہے۔ گویا عدالت ،پولیس اوراخبارات، الیکٹرانک میڈیا ملکر معاشرے میں جرائم کو ہوا دیتے ہیں۔ مجرموں کی حوصلہ افزائی اور پُشت پناہی کرتے ہیں۔ ایسی حکومت چاہیئے جو پہلے عدالتوں کو لگام دے، پھر پولیس کا سسٹم ٹھیک کرے پھر میڈیا کو زرد صحافت کی تاریک گلیوں سے نکال کر تعمیری صحافت کی صاف ستھری شاہراہ پر لے آئے ۔ بقول خواجہ میر درد ؂

ہر چندہوں آئینہ پر اتنا ہوں نا قبول

منہ پھیر لے جس کے مجھے روبرو کریں

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button