بشیر لالہ … ایک ہمہ جہت شخصیت
محمد جاوید حیات
بعض لوگ کرشماتی شخصیت کے مالک ہوتے ہیں ۔اللہ تعالی نے ان کی زات میں ایسی کشش رکھی ہوئی ہوتی ہے کہ وہ دلوں کو فتح کر لیتے ہیں ۔۔وہ اپنی زات میں ایک انجمن ہوتے ہیں ۔۔ان کے چہرے پر سدا مسکراہٹ پھیلی ہوئی ہوتی ہے ۔۔یہی انسانیت کے لئے سوغات ہے ۔۔بشیر حسین آزاد چترال میں ایک کاروباری شخصیت کے چشم و چراغ ہیں حاجی عبدالمتین مرحوم پشاور سے چترال آئے اور اس دور میں آئے کہ چترال میں صرف پیدل چلنے کے راستے تھے یہ چند ایسے تاجر تھے جنہوں نے اپنی جان جوکھوں میں ڈال کے اس پسماندہ علاقے میں تجارت شروع کی ۔۔۔یہ پسماندہ چترال کی ایک طرح سے خدمت تھی ۔۔بشیر حسین آزاد نے ایک متمول خاندان میں آنکھ کھولا ۔۔اعلی تعلیم حاصل کی اور کاروبار کے ساتھ ہاتھ میں قلم تھام لیا ۔۔چترال میں ایک بے باک صحافت کے نمائندے کے طور پر اُبھرا اور حق و صداقت کی تلوار کے طور پر آپ کا قلم حرکت کرنے لگا ۔۔آپ نے معاشرے کے ایک متحر ک جوان کی حیثیت سے اپنا لوہا منوایا ۔۔بازار کے مسائل ۔۔دکانداروں کے مسائل۔۔گاؤں کے مسائل کو اُجاگر کرنے اور کسی بھی فارم پر ان کے حل کی جدو جہد میں لالہ ہمیشہ صف اول پہ رہے ۔۔چترال ایکسپریس کے زریعے منٹوں میں ہر اُڑتی خبر تصدیق کے ساتھ لوگوں تک پہنچاتے ہیں ۔۔ایک بانکے لکھاری کے طور پر ڈیلی آئین ،چترال ایکسپریس اور دوسرے آن لائین اخباروں میں کالم لکھتے ہیں ۔۔چترال پرس کلب کے فعال رکن ہیں چترال کے دور دراز علاقوں میں ایونٹس کے لئے اپنی گاڑی اپنی کنونس پہ پہنچتے ہیں ۔۔چترال پاؤر کمیٹی کے پرس سیکرٹری ہیں ۔۔۔۔شہر اور پسماندہ علاقوں کے مسائل اُجاگر کرتے رہتے ہیں ۔۔لالہ ایک سنجیدہ ،متین اور باکردار صحافی ہیں ۔۔کاروبار میں بازار میں ،صحافت میں اور معاشرے میں ان کی اپنی ایک پہچان ہے ۔۔۔حال ہی میں تجار یونین کے انتخابات میں حصہ لینے کے لئے لالہ کا پینل ’’تاجردوست‘‘ میدان میں اُترا ۔۔اس مہم اور الیکشن کی سرگرمیوں میں لالہ اوراس کے کابینے کا جو کردار رہا اس نے مجھے قلم اُٹھانے پہ مجبور کیا ۔۔اس مہم میں یہ ثابت کیا گیا کہ صداقت سے بھی سیاست کی ڈوری کھینچی جا سکتی ہے ۔۔سیاست میں سچ بولا بھی جا سکتا ہے ۔۔دھوکہ دہی کی گنجائش نہیں بھی ہو سکتی ہے ۔۔ہار کو جیت تصور کیا جا سکتا ہے ۔۔مقابلے کے فرد کو گلے لگایا جاسکتا ہے ۔۔لالہ نے چترال میں ایک مہذب سیاست کا مظاہرہ کرکے روایتی سیاستدانوں کو تہذیب کا درس دیا ۔۔نتیجہ قبول کرنا بڑے دل گردے کا کام ہے خاص کر اس دور میں کہ ہم میں کردار کمزور ہوتا جارہا ہے ۔۔لالہ کا عزم اس طرح جوان ہے ۔۔خدمت کا جذبہ اسی طرح زندہ ہے ۔۔خلوص اسی طرح موجیں مارتا سمندر ہے ۔۔لالہ زندہ دلی کی ایک کھلی کائنات ہیں ۔۔مخیر ہونے کے ساتھ ساتھ مجبوروں کے درد کا ساتھی ہے۔۔ان کے ہاں سے کو ئی ہاتھ خالی نہیں جاتا ۔۔رگوں میں روایتی پٹھان کا گرم خون دوڑ رہا ہے اورساتھ چترال کی روایتی تہذیب میں پل بڑھ کر موتی بن گیا ہے ۔۔اس لئے جس کام کے لئے عزم کرتا ہے غیرت سے کرتا ہے اور وفا ،خلوص اور شرافت کا ایسا مظاہرہ کرتا ہے کہ لوگ دھنگ رہ جاتے ہیں ۔۔لالہ ایک احساس کا نام ہے ۔۔ایک خوشگوار احساس جو ہر ایک کے حصے میں نہیں آتا ۔۔دولت کی ایک خامی یہ ہے کہ غرور لاتی ہے ۔۔لا پراہی اور مستی میں انسان جھولتا رہتا ہے لیکن یہ سب کچھ ہوتے ہوئے لالہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہونے پہ یقین رکھتا ہے ۔۔ہر انسان کے ارد گرد ایک ہالا ہوتا ہے اس میں اس کے رشتہ دار دوست احباب ہو تے ہیں جس سے وہ پہچانا جاتا ہے ۔۔لالہ اپنے ہالا میں ایک چمکتا تارہ ہے ۔۔چہرے میں مسکراہٹ ایک دعوت محبت ہے ۔۔اس کا مسکان اس کا کردار ہے ۔۔سچے کھرے مسلمان اکھیوں میں آنسو بھر کے کہتے ہیں کہ ہر مشکل میں دورد شریف کا ورد کرتا ہوں ۔۔فخر موجوداتﷺ کے صدقے اللہ ہر مشکل دور کر دیتا ہے ۔۔چترال میں صحافت کے میدان میں لالہ کا آن لائین ایکسپرس نمایان ہے ۔۔انسانیت کے چھپے خادم گلشن انسانیت کے پھول ہوتے ہیں ان کی خوشبو سے کائنات معطر رہتی ہے ۔۔لالہ نے اس انتخابی مہم میں مہذب سیاست کی مثال قائم کی ۔۔جو قابل تقلید ہے ۔۔