محکم الدین ایونی
ناردرن ایریاز ( گلگت بلتستان ) اور چترال سیاحت کیلئے ایسے علاقے ہیں ، جہاں قدرت کے حسین نظارے اورقدیم و تہذیب وثقافت کے خزانے موجود ہیں ۔ لوگ ملنسار ، مہمان نواز اور امن سے محبت رکھتے ہیں اس لئے سیا ح ان علاقوں میں خود کو محفوظ تصور کرتے ہیں ۔ اور ان کی سیر و سیاحت میں انتہائی دلچسپی رکھتے ہیں ۔ پاکستان پر دہشت گردی کے عفریت کا سایہ پڑنے سے پہلے ان علاقوں کی سیر کیلئے گرمیوں کے موسم میں غیر ملکی سیاحوں کا ہجوم اُمڈ آتا تھا اور چترال سے شندور کے راستے سفری جیپ (SAFARI JEEP) میں سوار ہو کر گلگت کی طرف جاتے اور اسی طرح گلگت سے براستہ شندور سیاحت کا لطف اُٹھاتے چترال آتے تھے ، یوں فارنر ٹورسٹ کی ایک بڑی تعداد چترال آتی اور اُن کی سیاحت کی آرزو اُس وقت تکمیل کو پہنچتی جب یہ سیاح قافلوں کی شکل میں یا نفرادی طور پر کالاش وادیوں میں پہنچ کر کالاش لوگوں میں گھُل مل جاتے ، اور نہایت قدیم کالاش تہذیب و ثقافت کو زندہ شکل میں اپنے سامنے دیکھ پاتے ۔ ان غیر ملکی سیاحوں کی دیکھا دیکھی ملکی سیاحوں کی بہت بڑی تعداد بھی چترال آنے لگی اور لوگوں کی سیاحتی آمدنی میں غیر معمولی اضافہ ہوا ۔ لیکن بد قسمتی سے اُس یادگار دور کونظر لگ گئی اور 9/11 کے بعد دہشت گردی کی فضا نے اس پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ توزندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح یہ شعبہ بھی انتہائی زبون حالی کا شکار ہوا ۔ اور سیاحت کا لفظ ہی ذہنوں سے اوجھل ہو گیا ، لیکن شکر ہے کہ ہماری حکومت اور پاک فوج نے مشترکہ لائحہ عمل کے تحت ایک طویل اور صبر آزما جنگ کے بعد بالاخر دہشت گردی کو شکست دینے میں کامیابی حاصل کی ۔ اورملک میں امن واپس لوٹ آنے کے باعث سیاحت کے راستے کسی حد تک کُھل گئے ہیں ۔ اس وقت گلگت بلتستان میں سیاحت بہت آگے جا چکی ہے ۔ غیر ملکی اور ملکی سیاحوں کے قافلے جوق درجوق گلگت بلتستان اور پاک چائنا بارڈر خنجراب تک سفر کرتے ہیں ۔ جہاں ان سیاحوں کے راستے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہے ۔ سیاح ہو ٹلوں کے علاوہ لوگوں کے گھروں میں پیئنگ گیسٹ کے طور پر بھی قیام کرتے ہیں ۔ اُن کو کسی سیکیورٹی ، تلاشی و دیگر اُمور کی مشکلات نہیں سہنی پڑتیں ۔ یو ں گلگت بلتستان آنے والے سیاح کئی دنوں تک سیر و تفریح کا بھر پور لطف اُٹھاتے ہیں ۔ جس کا براہ راست فائدہ مقامی کمیونٹی کو ہوتا ہے ۔ اور سیاحتی آمدنی سے لوگوں کی زندگی میں غیر معمولی تبدیلی دیکھنے کو ملتی ہے ۔ حکومت گلگت بلتستان سیاحوں کو ہر ممکن سہولت دینے کی پالیسی پر گامزن ہے ۔ خود وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن گلگت بلتستان میں سیاحت کو ترقی دینے میں ذاتی طور پر دلچسپی لے رہاہے ۔ اور سیاحوں کو اپنے صوبے کی طرف راغب کرنے کیلئے ہر ممکن سہولت مہیا کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ سیاحت کے فروغ میں علاقے کے لوگوں اور حکومتی اہلکاروں کا رویہ انتہائی اہمیت کی حامل ہے ۔ پاکستان میں بہت ایسے علاقے ہیں جو اپنی خوبصورتی میں ثانی نہیں رکھتے ۔ لیکن اُن جگہوں کی سیرو تفریح میں سیاح دلچسپی اس لئے نہیں رکھتے ۔ کہ ان علاقوں کا ماحول سیاح دوست نہیں ہے ۔ مقامی لوگوں کے زبان و اخلاق ، رویے ٹھیک نہیں یا بہت سخت سکیورٹی کی وجہ سے سیاحت کا لطف نہیں اُٹھا سکتے ۔ اس لئے سیاح اُن علاقوں کی طرف نہیں جاتے ۔ چترال خوش قسمتی سے اُن علاقوں کی صف میں شامل نہیں ہے ۔ کیونکہ یہ نرم مزاج، محبت کرنے والے مہمان نواز اورکھیل وثقافت سے دلچسپی رکھنے والوں کی سرزمین ہے ۔ اور یہاں کے لوگ سیاحوں کو بہت پسند کرتے ہیں اور اُن کیلئے دل کے دروازے وا کرتے ہیں ، لیکن اس کے باوجود چترال میں سیرو تفریح کیلئے آنے والے سیاحوں کو کئی مسائل کا سامنا ہے ۔ اور سیاحت کی راہ رکاوٹ ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ چترال کے تمام ذمہ دار حکام کو بیٹھ کر چترال میں سیاحوں کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کے حوالے سے لائحہ عمل مرتب کریں۔ جس سے چترال کا امن برقرار رہے اور چترال میں سیاحت کو فروغ دینے میں بھی مدد مل سکے ۔ اگرچہ انفرادی طور پرچترال کے ذمہ دار ادارے سیاحت کے فروغ میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔ لیکن اس کے مثبت اثرات اس لئے ظاہر نہیں ہو رہے ۔ کہ یہ شعبہ اداروں کے باہمی تعاون اور مربوط حکمت عملی کا متقاضی ہے ۔ بدقسمتی سے چترال میں سیاحت کے فروغ کے حوالے قیام پاکستان سے اب تک ٹورزم کارپوریشن کا کردار کبھی بھی قابل تعریف نہیں رہا ہے ۔اورنہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد ٹورزم کارپوریشن خیبر پختونخوا نے کوئی کارکردگی دیکھائی ہے ۔ یہ ادارہ چترال میں فیسٹول کے دوران چند بینر زچسپان کرکے کریڈٹ اپنے نام کرنے کی حد تک کوشش کرتا ہے ۔ اُس کے علاوہ کوئی قابل ذکر کارکردگی دیکھنے میں نہیں آئی ۔ ٹورسٹ انفارمیشن انیڈ فسیلٹیشن سنٹر کے نام سے جو آفس چترال میں قائم ہے ۔ اُن کے پاس چند پمفلٹ اور کتابچوں کے علاوہ کوئی وسائل نہیں ہیں ۔ ایسے میں سیاحت کی ترقی کیسے ممکن ہو سکتی ہے ۔ چترال سے تعلق رکھنے والی ایم پی اے اور پارلیمانی سیکرٹری برائے سیاحت محترمہ بی بی فوزیہ کی کارکردگی بھی اس سلسلے میں قابل تعریف نہیں ہے ۔ اُنہوں نے چترال میں سیاحت سے متعلق مسائل کے حوالے سے کبھی کوئی اجلا س طلب نہیں کیا ۔ اور نہ انہوں نے چترال ٹورسٹ انفارمیشن سنٹر کا دورہ کرنے کی زحمت گوارا کی ہے ۔ جو کہ انتہائی قابل افسوس ہے ۔ حالانکہ اداروں کے باہمی نشست سے ہی سیاحوں کو درپیش کئی مسائل حل کئے جا سکتے ہیں ۔ ہمیں اس بات کا ادراک کرنا چاہیے ۔ کہ سیاحت چترال کی بہت بڑی انڈسٹری ہے ۔ جسے فروغ دے کر ہم علاقے کی معیشت میں بہتری لا سکتے ہیں ۔ کیونکہ چترال کے پاس خوبصورت قدرتی مناظر ،جنگلی حیات ، قدیم کلچر اور مختلف فیسٹولز کے خزانے موجود ہیں ۔ جو سیاحوں کو اپنی طرف کھینچ لاتی ہیں ۔ لیکن ہماری طرف سے سیاحوں کیلئے آسانیوں کی جگہ مشکلات پیدا کرنے کے سبب سیاح راستے سے واپس مُڑنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔