مولوی، محض گفتار کے غازی
تحریر: فدا حسین
معاشرے کی الجھی ہوئی گھتیاں سلجھا کر فرقہ وارنہ ہم آہنگی پیدا کرنا مولوی صاحبان ہی کے فرائض منصبی میں شامل ہے، مگر بدقسمتی سے اکثر یہ مولوی صاحبان نہ صرف محض گفتار کے غازی بن جاتے ہیں بلکہ کر داراور گفتار میں تضاد ہونے کی وجہ سے اسلام کی جگ ہنسائی کا سبب بنتے ہیں ۔ آج کے مضمون میں ہم اس معاملے پر ا س امید کے ساتھ نظر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ صاحبان اپنی ان باتوں پر نظرثانی کریں گے تاکہ اسلام کی جگ ہنسائی کے بجائے معاشرے میں فرقہ وارنہ ہم آہنگی کی راہ ہموار ہو کر دنیا اسلام کے مثبت سے چہرے سے روشناس ہو سکے۔
مولوی صاحبان نماز باجماعت کی ادائیگی کے آداب پڑھاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ کندھے سے کاندھا ملا کر کھڑا ہو نے سے آپس میں پیار و محبت پیدا ہو جاتا ہے توہم جیسے گستاخ لوگوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پیار و محبت کی باتیں تو کُجا، محترم خود مختلف نقطہ نظر رکھنے والے کا احترام کرنے کی بجائے ان کو گمراہ تصور کرتے ہیں۔ ایسے میں پیار و محبت کیسے پیدا ہوگا؟ اور، ان میں سے اکثر لوگ جمعتہ المبارک کے خطے میں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہنے اور تفرقہ سے باز رہنے کی ہدایت والی آیت مبارکہ کو محض اپنے فرقے کی حقانیت اور دوسرے فرقوں کے گمراہ ہونے کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں کوئی شخص ان کی تقریر کو چیلینج کرنے کی جرات بھی نہیں کر سکتا کیونکہ وہ ایسے لوگوں کو مذہب اور فرقے سے خارج کرنے میں دیر نہیں لگاتے ۔
راقم نے اپنی عمر میں کسی مولوی صاحب کو قرآن مجیدمیں سورة الاانعام کی آیت ولا تسبوا الذِین یدعون مِن دونِ اللہِ فیسبوا اللہ عدوا بِغیرِ عِلم ( 108 ) (اللہ کو چھوڑ دوسرں کی پوجا کرنے والوں کو برا بھلا مت کہو( گالیاں مت دو)کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ اپنی جہالت کی وجہ سے دشمنی پر اتر کراللہ کو برا بھلا (گالی) کہہ دے) کی روشنی میں امن کے آفاقی پیغام پر تقریر کرتے ہوئے نہیں سنابلکہ وہ(اکثر مولوی) تو خود ہی مدعی اور خود ہی منصف بنتے ہوئے اپنے فرقے کو حق و ہدایت یافتہ اور دیگر فرقوں کو گمراہ ہونے کا فیصلہ بھی سنا دیتے ہیں۔حالانکہ امن عالم اسلام کا بنیادی مدعا ہے جس کی طرف حضرت ابراہم کے شہر مکہ کو پہلے امن کا گہورا بنانے پھر اس کے مکینوں کو رزق عطا کرنے کی دعا میں واضح اشارہ موجود ہے۔ اسلام کے اس آفاقی پیغام کو بھارت کی ایک ہندو شاعر ہ لتا حیا سمجھ گئی تو کہہ دیا ہو گا کہ
کاش اپنے ملک میں بھی ایسی فضا بنے
مندر جلے تو رنج مسلمان کو بھی ہو،
پاما ل ہو نہ جائے مسجد کی آبرو
یہ فکر مندر وں کے نگہاں کو بھی ہو
دوسری طرف ان مولوی صاحبان کو موقع ملے تودیگر مسلک والوں کی مسجد وں کو ہی مسجد ضرار قرار دیتے ہو ئے مہندم کروادیں۔
جب یہ صا حبان دنیا میں مسلمانوں پر ظلم کرنے والے تمام غیر مسلمو ں کو نیست ونابود کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہوئے اتنے جذبہ ایمانی سے سرشار نظر آتے ہیں کہ ادھر ان کی دعا ختم ہونے سے پہلے اللہ پاک ابابیل کا لشکر بھیج کر ان تمام دشمنان اسلام کا قلع قمع شروع کردے گا۔حالانکہ ان کندہ گان کادعا یافتہ گان کے فرقے سے کم ہی تعلق ہوتا ہے۔
کشمیر میںظلم کا شکار مسلمانوں کا تعلق کسی اور فرقے سے ہے روہنگیاکے مسلمانوں کا فرقہ کچھ اور ہے شام میں کافروں کی بمباری کے زد میں آنے والے مسلمانوں اور مولوی صاحب کے فرقے کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہوتا فلسطین میں اسرائیلی ظلم کا شکار مسلمان بھی مولوی صاحب کا ہم مسلک نہیں ہے اور حزب اللہ میں شامل مسلمانوں کا مسلک بھی ان مولوی صاحبا ن کے مسلک سے یقینا مختلف ہو گا۔مزید ستم بالاے ستم یہ کہ اگر اس کے اپنے ہی فرقے سے تعلق رکھنے والوں میں سے بھی کسی نے ان کے نقطہ سے اختلاف کیا تو وہ اس فرقے کے خلاف سازشی اور دوسرے فرقے کا ایجنٹ قرار دینے میں دیر نہیں لگاتے۔ اس طرح ایک طرف تو اپنے کو برحق اور جنتی باقی تمام فرقوں کو گمراہ ہونے کا دعویٰ اور دوسری طرف ان” گمراہ” لوگوں کے دشمنوں کے خلاف اللہ تعالیٰ سے ابابیل کی فوج بھیج کر نیست و نابود کرنے کیلئے "یقین کے ساتھ "دعا ئیں ہو تو سوال تو ضرور اٹھتا ہے پر کیا کریں؟
آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ ان صاحبان میں سے اکثر ایسے بھی ہیں جو خود تو بینکوں میں اپنی رقوم منافع کے لئے رکھیں گے مگر خود سود کے خلاف تقریر بھی فرمائیں گے۔ مگر مجال ہے کہ سنیوں کے مولانا مودودی اور شیعوں کے آیت اللہ باقر الصدر کے سواء کوئی بھی اسلامی معیشت کا مکمل نقشہ پیش کرنے کیلئے کام کرئے ۔
اگر کوئی ان سے پوچھے کہ محترم آپ خود ایسا کیوںکرتے ہیں تو ایسی تشریح فرمائیں گے کہ آپ کو ان کی سود خوری بھی حلال نظر آئے گا اب تو صدر ِپاکستان ممنون حسین نے ان سے سود کے بارے میں گنجائش پیدا کرنے کی فرمائش کی ہے، اس کے بعد کچھ بعید نہیں کہ اس حق میں فتویٰ صادر ہوا ہو(راقم کی نظر سے ایسا کوئی فتویٰ نہیں گزرا)۔
مولوی صاحبان کے بارئے عمومی رائے یہ ہے کہ انہیں اسلامی معیشت کے بارئے میں کام کرنے ضرورت نہیں کیونکہ انہیں تو اپنے فرقے کو حق اور دوسرے کو گمراہ قرار دینے کے اتنے پیسے مل جاتے ہیں کہ انہیں بنک میں پیسے رکھنے کی ہی ضرورت نہیں پیش آئے گی کیونکہ عوام ان کیلئے چلتے پھرتے اے ٹی ایم مشین کا درجہ رکھتے ہیں ۔
اپنے عزیو اقاریب کو سب پہلے خیال رکھنے کی ترغیبات مولوی صاحبان کو کم ہی یا د آتے ہیں مگر مختلف علاقوں میں مساجد کی تعمیر کے لئے پیسوں کی ضرورت ہوتو ایسی آیتیں اور حدیثیں ڈھونڈ کے لائیں گے کہ عوام چشم زدن میں اپنے آپ کو حوروں کے ساتھ جنت کی سیر کرتا ہوا تصور کر کے اپنا سب کچھ لوٹا دیں گے مگر اس وقت یہ صاحبان یہ ہرگز نہیں بولیں گے کہ آپ مسجد کی تعمیر کے لئے جو عطیہ دے رہے ہیں اس کا حلال طریقے سے کمایا ہو ا ہونا ضروری ہے اگر آپ سرکاری نوکری کرتے ہیں تو ڈیوٹی پوری کئے بغیر دیا ہوا آپ کا عطیہ اللہ تعالیٰ کے ہاں شرف قبولیت نہ پائے گا مبادا انہیں چندہ کم مل جاے ۔اس لئے آخر میں گزارش ہے کہ اپنے اس دہرئے معیار کو ختم کرتے ہوئے محض گفتار کے غازی سے کردار کے غازی بن کر اسلام کیلئے سوچنا شروع کردیں ورنہ "تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں "کا مصدق بننے میں دیر نہیں لگے گی۔