ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
قندوز، ڈمہ ڈولہ ، آرمی پبلک سکول پشاور ، مناواں پولیس ٹریننگ سکول لاہور اور سلالہ کے شہداء کی طرح دیگر 1485 مقامات پر گذشتہ 40سالوں کے دوران ہمارے شہداء نے جس طرح اپنے خون کا نذرانہ دیا ہے اس کی مثال تاریخ میں اس صورت میں کبھی بھی نہیں ملے گی کہ مرنیوالا بھی مسلمان اور مارنے والا بھی مسلمان ہی ہو۔ واشنگٹن ، تل ابیب اور نئی دہلی کا اس پر کامل اتفاق ہے کہ مسلمانوں کے اوپر حملوں کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہنا چاہیئے۔ 5 دنوں کے اخبارات ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی خبروں کا جائزہ لیا جائے تو نہایت ڈراؤنی تصویر سامنے آتی ہے امریکی حکومت کہتی ہے کہ اگرچہ صدر ٹرمپ نے شام سے امریکی فوجوں کو واپس بلانے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے تاہم امریکہ اس کام میں جلد بازی ہر گز نہیں کرے گا۔انقرہ میں روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے ساتھ سہ فریقی مذاکرات کے بعد ترک صدر رجب طیب اردگان اور ایرانی صدر روحانی نے اصولی طور پر بیان دیا ہے کہ ہم شام کی آزادی اور خود مختاری کا دفاع کرنے کا عزم پر قائم رہیں گے۔ واشنگٹن کے اہم سرکاری دورے سے واپسی پر سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بن عبد العزیز نے ریاض میں پہلے جوا خانے کا افتتاح کیا اور پہلے سینما گھر کے افتتاح کے لئے 18 اپریل کی تاریخ مقرر کی ۔اپنے پالیسی بیان میں سعودی عرب کے مستقبل کے حکمران نے کہا کہ اسرائیل کا دشمن ہمارا بھی دشمن ہے ۔ گویا فلسطینی حریت پسندوں کو دشمن قرار دیا گیا۔ اور اُن کے تمام ہمدردوں کو دشمن قرار دیا گیا۔ ان میں ایران، پاکستان ، شام ، یمن ، ترکی اور وہ تمام ممالک آگئے جو فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں ۔ روس اور چین کا شمار بھی فلسطینی مسلمانوں کی حمایت کرنے والوں میں ہوتا ہے مرزا غالب نے کہا
حیران ہوں کہ رؤں دل کو یا پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
قندوز کے واقعے کی جو تفصیلات سامنے آگئی ہیں ان میں یہ بات ثبوتوں کے ساتھ لکھی گئی ہے کہ قندوز کے مدرسے پر حملہ کرنے والا جہاز افغان فوج کے زیر استعمال تھا اور اس کا پائلٹ بھی افغانی تھا۔ بمباری کا حکم دینے والے بھی افغانی تھے۔ نیز نقشے میں جو مقام دیا گیا تھا وہ مدرسہ ہی تھا ۔ اور اجتماع کی جو رپورٹ دی گئی تھی وہ بھی دستار بندی کے حوالے سے تھی۔ یعنی حملہ غلط اطلاعات کی بناء پر نہیں ہوا۔ غلط فہمی کے نتیجے میں نہیں ہوا۔ جان بوجھ کر پورے اطمینان قلب کے ساتھ افغانی مسلمانوں نے اللہ کا نام لیکر حفاظ اور علماء پر بمباری کر کے مسجد اور مدرسہ کو خون میں نہلا دیا اس میں امریکہ کا قصور بس اتنا ہے کہ اُس نے افغانیوں پر اعتماد کیا۔ عالم اسلام پر حسب معمول خاموشی چھائی ہے۔ پاکستان میں حسب معمول خاموشی ہے۔ سوشل میڈیا میں یہ بات زیر بحث نہیں کہ افغان فوج نے مدرسے پر حملہ کر کے بے گناہ حفاظ کو کیوں شہید کیا؟ بلکہ زیر بحث بات یہ ہے کہ واقعے کی مذمت میں کون آگے ہے ؟ کو ن پیچھے ہے اور کون لاپتہ ہے؟ گویا سانپ گذر گیا ہم لکیر پیٹنے کا شُغل فرمارہے ہیں ۔ اور پورے خلوص کے ساتھ لکیر پیٹ رہے ہیں ۔ سوشل میڈیا پر ایک سادہ لوح مسلمان نے سوال اُٹھایا ہے کہ علمائے کرام نے 1978 ء میں سویت یونین کے خلاف جہاد کو فرض قرار دیا تھا۔ قندوز مدرسے پر تازہ ترین حملے کے بعد امریکی حکومت ، امریکی فوج اور افغانستان کی امریکی انتظامیہ کے خلاف جہاد کو فرض کیوں قرار نہیں دیا جاتا ؟ میرے سادہ لوح مسلمان بھائی کو اس بات کی خبر نہیں کہ جہاد فرض ہے۔ جہاد فرض رہے گا۔ تاہم فتویٰ دینے کے لئے کسی محرک کا سامنے آنا ضروری ہے۔ 1978 ء میں نارکو ڈالر آیا۔ دولت کے انبار دکھائے گئے ۔ وسائل ، گاڑیاں ، بینک بیلنس لاکر ہمارے قدموں میں ڈال دیئے گئے ۔ یہ امریکہ، برطانیہ ، جرمنی ، فرانس اور سعودی عرب کی سخاوت تھی ۔ ان کی فیاضی تھی جس کی وجہ سے ہر دو ماہ بعد او آئی سی کے اجلاس ہوتے تھے ۔ جن میں سویت یونین کی مذمت کرکے مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دی جاتی تھی۔ امریکہ اور سعودی عرب کی جنگی پالیسی کو سراہا جاتا تھا۔ شام پر امریکی حملوں کے خلاف او آئی سی کا ایک بھی اجلاس نہیں ہوا۔ کیونکہ او آئی سی کا کنٹرول امریکہ اور سعودی عرب کے پاس ہے ۔ شام کی خود مختاری ، یمن کی آزاد پالیسی ، ایران اور پاکستان کی ترقی ، فلسطینیوں کی حمایت ، افغانستان میں امن کا قیام ۔ مسلمان ملکوں سے قابض امریکی فوجوں کا انخلا جیسے موضوعات او آئی سی کے ایجنڈے مین جگہ نہیں پاسکتے ۔ غلام قومیں غلام ہوتی ہیں۔ وہ روس اور چین کی طرح آزاد پالیسی نہیں بناسکتیں ۔ روس اور چین سے ہمیں ایک ہی گلہ ہے یہ آزاد ممالک ہمارے صبر کا امتحان کیوں لیتی ہیں ؟ ڈالروں کی بارش بر ساکر امریکہ کے خلاف جہاد کا فتویٰ حاصل کیوں نہیں کرتے ؟ ہمیں جرمِ ضعیفی کی سزا کیوں دیتے ہیں؟ بقول علامہ اقبال ؒ
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات