کیا بچے اپنے والدین پر اعتبار کرتے ہیں؟
تحریر: سبط حسن
بچہ وہ نہیں سیکھتا جو اسے لفظوں میں بتایا جائے۔ بچہ وہ سیکھتا ہے جو اس کے سامنے کیا جائے یا جو اس کے ساتھ کیا جائے۔ بچہ تبھی پیار کرنا سیکھتا ہے جب اسے پیار کیا گیا ہو۔
جب بچہ پیار کرنا سیکھ جائے تو وہ دوسروں کو پیار کرنے کا اہل بن جاتا ہے۔
انسان لازمی طور پر اچھا ہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کو یہ بات معصومانہ یا سادگی پر مشتمل لگے ۔ جب ہر طرف ظلم اور زیادتیوں کا غلغلہ ہو، تباہی ، تشدد اور جبر اپنے گھناؤنے روپ میں جلوہ گر ہو ں تو ایسی بات کہناعجیب لگتا ہے۔ پھر بھی انسان کے فطری طور پر اچھا ہونے کے بیان سے انحراف مشکل لگتا ہے۔ آپ اس بات کو تجرید پر مبنی یا ماورائی قرار دے سکتے ہیں۔ اگر آپ انسانوں کی داخلی آزادی کے لیے جستجو کر رہے ہیں تو آپ کے تجربات آپ کو یہی سمجھائیں گے کہ انسا ن کے اند ر لازمی طور پر ’ اچھائی‘ موجودہے۔ کارل راجرزCarl Rogers))، ایک ماہرِ نفسیات نے اس سلسلے میں کہا ہے: ’’ میں یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ انسانوں میں پیدائشی طور پر بدی موجود ہے۔ میرا آج تک کسی ایسے انسان سے واسطہ نہیں پڑا کہ جس کو اپنی نشوونما اور اپنی دنیا میں کچھ کر گزرنے کے لیے نہایت نجی سطح پر ضروری نفسیاتی آمادگی میسر ہو اور اس نے انتقام اور تباہی کا راستہ منتخب کر لیا ہو۔اس کے بر عکس میرا تجربہ مجھے سکھاتا ہے کہ دراصل یہ ثقافت ہی ہے جو انسان کو ’بدی‘ کے راستے پر چلنے کی طرف راغب کرتی ہے۔ جب بچہ اس دنیا میں قدم رکھتا ہے تو زندگی گزارنے کے لیے طے شدہ مشکل پسندانہ رسوم و آداب اس کو نگلنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ والدین کی جانب سے بچے کی تربیت کے د وران بچے کو جس قسم کے تجربات کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ بچے کی صلاحییتوں کو ختم یامحدود کر دیتے ہیں۔ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کے باعث ہر شخص کو اپنی زندگی میں بہتری لانے کے لیے مساوی مواقع میسر نہیں آتے۔ نسل در نسل خاندانوں کی معاشی صورتحال میں کو ئی تبدیلی ممکن نہیں ہوتی۔ یہ سب عوامل اور ان کے ساتھ منسلک دیگر باتیں لوگوں کو ایک جعلی اور دشمنانہ مزاج فراہم کرتے ہیں۔ پورے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ نسلِ انسان اپنے جوہر کے اعتبار سے تعمیراتی فطرت رکھتی ہے۔ تاہم مختلف نوعیت کے تجربات اس جوہر کو زہر آلود بنا دیتے ہیں۔ ارد گرد کے لوگوں کو دیکھنے کا نظریہ غیریت اور نفرت پر مشتمل ہے۔ پوری انسانیت طرح طرح کے گروہوں میں اسی غیریت اور نفرت کی بنیاد پر منقسم ہے ۔ جو لوگ کسی طور بھی ہم سے مختلف ہیں، ان کے بارے میں تعصبات ایجادکیے جاتے ہیں اور پھر بڑے زور شور سے ان کی اشاعت کی جاتی ہے۔ ‘‘ ان میں سے کچھ تعصبات کلچرل احساسِ برتری قائم کرنے کے لیے ہیں اور ان کی سوچ سمجھ کر اشاعت کی جاتی ہے۔ ایسے تعصبات کی بدولت حقیقی زندگیوں میں سیاسی اور اقتصادی مراعات کی گنجائش پیدا کی جاتی ہے اوراس کا دائرہ مقامی یا عالمی بھی ہوسکتا ہے۔ کچھ تعصبات گزشتہ صدیوں کے امراء اور اشرافیہ سے منسوب ہیں ۔ ان کی عملی افادیت ختم ہو چکی ہے۔ ان کو محض اس لیے دہرایا جاتا ہے تاکہ اس سے جنتِ گم گشتہ کی آسودگی مل جائے۔ مثال کے طور پر رشتے داری کرتے وقت ’ معزز ‘ خاندانوں کی تلاش کی جاتی ہے۔ سید خاندان کے لوگ سید خاندان میں رشتے داری کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ دیکھا جائے تو رشتے کے نبھا نے میں اس ترجیح کی کو ئی حیثیت نہیں ہے۔عزت ، وقار اور برتری کا احساس محض باتیں ہیں اور ان کا تعلق ایک طرح کی ضعیف الاعتقادی سے ہے۔ کوئی فرد ایک بڑے میز کے اُس طرف بیٹھ کر اپنے آپ کو معزز سمجھ لیتا ہے۔ کوئی کسی ’ بڑے یا معزز ‘ فرد کے ساتھ نسبت بنا کر اپنے آپ کو بڑا سمجھنے لگتا ہے۔ کوئی اپنے آپ کو کسی ’طاقتور‘ نظام کے ساتھ منسلک کر کے اپنے آپ کو قوی سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔ ایسے ’ تعلقات‘ کی حیثیت نفسیاتی اعتبار سے ایسے ہی ہے کہ جیسے کوئی بچہ اپنی جیب میں کانچ کی بہت سی گولیوں کورکھ کے اور انھیں اپنے ہاتھوں سے محسوس کرکے خوش ہو جاتا ہے۔ ایک صورت یہ ہے کہ ایسے تعلقات کو ترقی اور دولت کمانے کے ذریعے کے طور پر استعمال کیا جائے۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو کوئی فرد اپنے وجود کو ظاہر کرنے اور یہ ثابت کرنے کے لیے کہ اس کی گمنامی کو نام دیا جائے۔ وہ اپنے آپ کو تسلیم کروانے کے لیے کلبلاتا ہے۔ ایسے لوگ جرم یا تشدد کو ذریعے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ کوئی فرد محض دوسروں پر اپنے جبر کا شکنجہ کس کے انھیں تکلیف دے کر اپنے وجود کو آشکار کر تا ہے۔ کوئی فرد محض خیالات کی دنیا کو ہی اصلی مان کر اصلی دنیا سے کنارہ کشی کر لیتا ہے۔ یہ سب کا رگزاریاں دراصل اپنی حیثیت میں کچھ نہیں ۔ البتہ یہ کسی ذہنی معذوری کی علامات ضرور ہیں ۔ ممکن ہے کہ اس کی ابتدا اس وقت ہوئی ہو جب یہ لوگ بچے تھے۔ والدین اور مجموعی طور پر اس کلچر نے جس میں یہ لوگ پیدا ہوئے، ان کو غیر محفوظ ہونے کا ایک ایسا گہرا احساس ودیعت کر دیا کہ وہ آج تک اپنے آپ کو محفوظ بنانے کے لیے پناہ گاہیں ڈھونڈرہے ہیں۔
ایک انسان میں ’ اچھی‘ زندگی گزارنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ اچھی زندگی سے یہاں مراد کامیاب زندگی نہیں کہ جس کے حصول کے لیے جائز ناجائز ہر کام کو درست سمجھ لیا جائے۔ آج کل کامیاب زندگی کا مطلب اچھا صارف ہے جو بڑی بے دردی سے چیزوں کے پیچھے بھاگتا پھرے۔ اچھی زندگی دراصل ذہنی اور مادی نشوونما کا عمل ہی ہے۔ اس عمل میں سے گزرتے ہوئے، کوئی بھی فرد اپنی صلاحییتوں کے مطابق اپنے آپ کو تلاش کر سکتا ہے۔ یہ عمل دراصل ایک ممکنہ تحریک ہے اور اس کا انتخاب کوئی بھی شخص کر سکتا ہے ۔ تاہم ایسا صرف اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب وہ شخص راستے کو منتخب کرنے میں داخلی طور پر آزاد ہو۔ ’ اچھے راستے ‘ کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص وہ بن جائے جیسا بننے کی اس میں صلاحیت موجود ہو اور ایسا کچھ کر ے جو وہ اچھی طرح کر سکتا ہو۔ یہاں ’ اچھا‘ کا مطلب کسی اخلاقی حوالے سے نیکی یا بدی پر کوئی محاکمہ دینا نہیں۔ جزا و سزا سے آزاد، دراصل یہ نفسیاتی کوائف کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ’ اچھے‘ سے یہاں مراد ہر وہ معاملہ ہے جو کسی بھی فرد کی صلاحییتوں اور ضرورتوں کے لیے مناسب ہو۔ اگر کوئی شخص اپنے اندر ’ اچھائی‘ محسوس کرے تو وہ ایک حقیقی اور سچی زندگی گزار سکتا ہے۔ ایسا شخص کبھی تشدد میں شریک کارنہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی انسان یاسماج دشمن کام کر سکتا ہے۔ اسی سچائی کی بدولت دوسروں کی آزادی کو تحفظ دیا جاسکتا ہے۔
کسی بھی انسان میں موجود انسانیت ، منفی تجربات کے نتیجے میں آلودہ ہوتی ہے۔ جن بالغوں کے ہاتھ میں بچوں کی پرورش کی ذمے داری آتی ہے وہ بچے کے اندر موجود نشوونما کی صلاحیت پر بھروسہ نہیں کرتے۔وہ یہ بات مانتے ہیں کہ بچے کے اندر پیدائشی طور پر بدی ہوتی ہے۔ قدیم معاشروں میں بچوں کو بد روحوں کا مسکن سمجھا جاتا تھا۔ کلیسا اسی تناظر میں بپتسما کر کے بچے کو ’پاک‘ کرکے اس میں موجود ابدی بدی کو ختم کرنے کا دعوٰی کرتا ہے۔ قدیم ادوار میں بچے کو چھوٹا بالغ سمجھا جاتا تھا اور اس سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ بڑوں کے برابر کام کرے۔ اسی نظریے کو ذہن میں رکھتے ہوئے بچے پر اسی طرح اذیت اور سزا کو آزمایا جاتا تھا جس طرح یہ سلوک جانوروں کے ساتھ کیا جاتا تھا۔ یہ کہ بچہ بڑوں سے مختلف ہو تا ہے اور اس کی دنیا بالغوں کی دنیا کی توسیع نہیں ہوتی ، یہ تصور گذشتہ چند دھائیوں میں ماہرینِ نفسیات کو سمجھ میں آیا۔ بچے میں اپنی ذات اور دنیا کے بارے میں شعور اس کی سمجھ کے ساتھ منسلک ہو تا ہے ۔ بچہ کیا سیکھتا ہے ،یہ سب مواقع کی فراہمی اور سکھانے والوں کی اہلیت پر منحصر ہے ۔ سکھانے والے شعوری طور پر اس بات کا احساس کریں یا نہ کریں، تاہم ان کے بچے کے تئیں برتاؤسے یہی بات جھلکتی ہے کہ انھوں نے بچے میں سے بدی نکال کر اس میں اچھا چال چلن نفوذ کرنا اپنا مقصد بنا لیا ہے۔ ا سی کو تربیت کہا جاتا ہے۔ ایسی تربیت بچے کے اندر موجود نشوونما کی صلاحییتوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے انھیں محدود کر دیتی ہے۔ نشوونما کی صلاحییتوں کی افزائش کے لیے موافق حالات مہیا کرنے کی بجائے بچے کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ تربیت کے جبر کو قبول کرے۔ یعنی یہ کہ اسے جس طرح بنانے کی کوشش کی جارہی ہے وہ اس ترکیب کو قبول کر لے۔ ایسی تربیت کرتے وقت ، تربیت کرنے والے بچے کی قدرتی صلاحییتوں کو اوّل تو مانتے ہی نہیں یا ان پر یکسر سرے سے اعتبار نہیں کرتے۔ وہ اس طرح بچے کو سکھانے کی کوئی ایسی تدبیر نہیں کرتے کہ جس طرح بچہ سیکھنا چاہتا ہے۔ بلکہ وہ اسے اس طرح سکھانے کا بندوبست کریں گے جس کو وہ اپنے خیال میں بچے کے لیے’ بہتر‘ مانتے ہوں۔ مثال کے طور بچہ کوئی سرگرمی کرتے ہوئے زیادہ شوق سے سیکھتا ہے۔ بچے کو باتیں کرکے اور اپنے خیالات کا اظہار کرکے لطف آتا ہے۔ سکولوں میں ان دونوں باتوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور بچوں کو جانوروں کی طرح ان کی بیٹھنے والی جگہوں سے ’باندھ ‘دیا جاتا ہے۔ سکول بچوں کی چہچہاہٹ سے خالی قبرستان لگتا ہے۔سکھانے والے بچے کو ایک خالی تختی سمجھتے ہیں او ر اس تختی پر اپنی من مرضی سے لکھنے کو تربیت مانتے ہیں۔ اس طرح بچے میں نشوونما کے لیے موجود فطری صلاحییتوں کی جگہ پر ایک مصنوعی ماحول تھوپ دیا جاتا ہے۔ چونکہ ایسے ماحول میں کی جانے والی نشوونماکا تعلق بچے کی حقیقی فطرت سے نہیں ہوتا، وہ ایسی نشوونما کے وسیلے سے ایک مصنوعی شخصیّت اور کردار کا حامل بن جاتا ہے۔ مثال کے طور پر تین بہنوں والے ایک گھر میں ایک لڑکے کے پیدا ہو جانے کے بعد اس لڑکے کی تربیت میں اس کے احساسِ ذات کی پرورش یہ جائے گی کہ وہ ایک مراعات یافتہ حیثیت کا مالک ہے ۔ جب اس سے کہیں بڑی بہن کسی سہیلی سے ملنے کے لیے جاتی ہے تو اسے اس کی حفاظت کے لیے اس کے ساتھ بھیجا جاتا ہے۔ اس ’اعزاز ‘ کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک مرد ہے۔ یہ احساس ان معنوں میں جعلی ہے کہ آج کی دنیا میں جب انسانی حیاتیاتی بندشوں سے آزادی ممکن ہے، کسی بھی جنسی تفریق سے قطع نظر کوئی بھی فرد اپنی صلاحیتوں کی پرورش کر سکتا ہے۔ آپ کی سماجی شناخت اس بات پر ہے کہ جو آپ پیشہ ورانہ طور پر کر سکتے ہیں نہ کہ یہ کہ آپ کی جنس کیا ہے۔ جنس کا مسئلہ اب صرف ان عورتوں کے لیے رہ گیا ہے جو اپنے آپ کو حیاتیاتی بندشوں میں قید رکھنا چاہتی ہیں یا ان کو اس سے بریّت کی گنجائش نہیں ملتی۔ ایسے میں محض لڑکا ہونا اور اس پر مراعات کی توقع رکھنا اس فرد کو ایک جعلی زندگی میں الجھانے سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہ ایک جعلی شناخت ہے اور اسی کے تناظر میں وہ گھر سے باہرارد گرد کی دنیا کو دیکھے گا جہاں ایسی مراعات کی گنجائش نہیں۔ اس طرح اس کا اپنے ساتھ اور اپنی ارد گرد کی دنیا کے ساتھ تعلق بھی مصنوعی ہی رہتا ہے۔ لڑکا ہونا اور لڑکا ہونے کی بنیاد پر اعزازی حیثیت کا متمنی ہونا ایک خارجی تحریک کا شاخسانہ ہے۔ داخلی اعتبار سے کوئی فرد جنسی تفریق سے مبرا ہوتا ہے۔ یہ سماجی دخل اندازی کے نتیجے میں نمو پاتی ہے۔ اسی تفریق کے باعث دنیا کے ساتھ جو تعلق بنتا ہے وہ ادھورا رہتا ہے ۔ ایسے تعلق کی تحریک چونکہ خارجی ہوتی ہے اس لیے وہ اپنے آپ پر اور اپنی ارد گرد کی دنیا پر اعتبار کرنا نہیں سیکھتا۔ ایسی تربیت میں ہر عمل جزااور سزا کی تحریک پر ٹھہرتا ہے، اس لیے بچہ کسی کام میں لطف محسوس کرنے سے محروم ہو جاتا ہے۔
اعتماد کے بنیادی احساس کی نموکی اساس بچے کے اپنے ماں باپ کے ساتھ ہونے والے ابتدائی تجربات پر ہوتی ہے اور ایسے تجربات بچے کی شخصیت کی مثبت یا منفی نمو کی طرف پہلا قدم ثابت ہوتے ہیں۔ اگر اعتماد کی نمو ہو جائے تو یہ بچے کے لیے ہمیشہ کے لیے داخلی قوّت کا باعث بن جاتی ہے ۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو سکے تو بد اعتمادی ہمیشہ کے لیے اسے اپنے آپ سے بیگانہ بنا دیتی ہے۔ مشہور ماہرِ نفسیات ایرکسن Erikson)) اعتماد جیسے احساس اور قوّت کو امید یا مستقبل پر یقین کے مترادف سمجھتا ہے ۔ بچے میں ہمیشہ فطری طور پر پُر امید رہنے کا رویہ موجود رہتا ہے۔ تحقیقات بتاتی ہیں کہ بچے کے اندر موجود یہی صلاحیت اسے بڑوں کے مقابلے میں کسی قسم کے حادثے یا مذموم تجربے سے نکل جانے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔ جب ان تجربات میں بچے کی فطری صلاحییتوں کی شناخت اور پذیرائی ہی نہیں ہو گی توان تجربات پر مبنی تربیت بھی مصنوعی اور کھوکھلی ہو گی۔مثال کے طور پر اگر آپ بچے کی غلطی کو سیکھنے کے عمل کا لازمی حصہ سمجھیں گے توآپ بچے کی تذلیل کرنے سے گریز کریں گے۔ اس طرح صرف سیکھنے کا عمل ہی نہ صرف آسان ہو جائے گا بلکہ بچے کااپنی کاوشوں پر اعتبار بھی بنا رہے گا۔ ایسا ہونابچے کی فطرت کے عین مطابق ہے۔ یعنی یہ کہ ایسا رویہ صرف اسی صورت میں رواں دواں رہتا ہے کہ جب تک اس کی نشوونمافطری رہتی ہے ۔ اگر گھر میں اعتماد کی صحت مند اور مضبوط بنیادیں پڑ جا ئیں تو آنے والی زندگی میں رواں دواں رہنے کے لیے آسانیاں مل جاتی ہیں۔ اگر ہماری جڑیں اعتماد پر ہوں گی تو مثبت اور موئثرنمو کی امیدکی جاسکتی ہے۔ اگر آپ بچے پر اس کی ذہنی استطاعت اور سیکھنے کے درجے کو نظر انداز کرکے یہ توقع کریں گے کہ وہ بغیر کوئی غلطی کیے سیکھتا چلا جائے گا اور کسی لغزش کے بغیر اعلٰی گریڈ حاصل کرتا جائے گا تو دراصل آپ اس کی فطرت کو سراسر نظر انداز کر رہے ہیں۔ بچے سے غیر حقیقت پسندانہ توقعات کی وجہ سے ممکن ہے کہ وہ اپنے بارے میں یہ تصور قائم کر لے کہ اسے کبھی اعلٰی ترین مقام سے نیچے نہیں آنا چاہیے۔ اگر کبھی اسے زندگی میں شکست یا ہزیمت کا سامنا ہو جائے تو وہ ٹوٹ جائے گا۔ ایسے لوگ شدید ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں اوعر ممکن ہے کہ ان میں خودکشی کرنے یا اس سے ملتے جلتے رجحانات بھی پیدا ہو جائیں۔ بریڈ شا کہتاہے: ’’ ہماری زندگی کا ہر مر حلہ آنے والے مرحلے کے لیے بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اس طرح بچپن کی زندگی ،پو ری زندگی کے لیے ایک بنیاد کی حیثیت بن جاتی ہے۔ ‘‘
ؑ اعتماد کیا ہے؟ کسی بھی کام کے لیے ہر شخص پر انحصار نہیں کیا جاسکتا ۔ انحصار کرنے سے پہلے اس بات کا یقین کرلینا ضروری ہے کہ کسی شخص میں ایسا کام کرنے کی صلاحیت ہے یا نہیں ہے۔یعنی یہ کہ انحصار کا تعلق صلاحیت پر ہے۔ بچہ صرف اسی فرد پر انحصار کرتا ہے جو اس کے انحصار کرنے کے تقاضوں پر پورا اتر سکتا ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص میں انحصار دینے کی قابلیت ہو۔ دوسروں پر انحصار یا اعتبار کرنا ایک سماجی رویہ ہے اور دیگر رویوں کی طرح بچہ ان کو بھی صلاحیت کے طور پر سیکھتا ہے۔ یہ صلاحیت فطری طور پر موجود نہیں ہوتی۔ یہ صلاحیت وہ صرف اسی صورت میں سیکھے گا جب اسے ایسے مواقع ملیں گے۔ اعتماد کا مطلب یہ ہے کہ بچہ جب کسی پر اعتماد کرتا ہے تو وہ اس فردکی موجودگی میں اپنے آپ کو مکمل طور پر محفوظ سمجھتا ہے۔ یعنی یہ کہ بچہ سمجھتا ہے کہ جس شخص پر اعتبار کیا گیا ہے وہ اسے کسی بھی صورتحال میں تنہا نہیں چھوڑے گا اور نہ اس کے اعتماد کو جھٹلائے گا ۔ دوسروں پر اعتماد بچے کو سلامتی کا ایک احساس عطا کرتا ہے۔ اس احساس کے بعداس کا اپنے آپ پر انحصار بھی بڑھ جائے گا۔ اسے اپنے رّد ہو جانے کا خوف نہیں رہے گا۔ اسے اپنی مجموعی صورتحال کا بخوبی اندازہ رہتا ہے کہ وہ کہاں کھڑا ہے۔ یہ سب اس لیے ممکن ہے کیونکہ وہ جس شخص پر اعتبار کر رہا ہے وہ مستقل مزاج ہے اور وہ ہمیشہ اس کے ساتھ کھڑا رہے گا۔ اس طرح اعتبار کی پہلی منزل یہی ہے کہ ایک دوسرے پر اعتبار کرنے کا موقع میسر آجائے۔اگر ایسا ہو جائے تو اس سے دیرپا اور اعتباری رشتوں کی شروعات ممکن ہو جاتی ہے۔ اعتبار کی ان نازک بھول بھلّیوں میں سے گزرتے ہوئے ہمارے بچپن کو ہر وقت ضررپہنچنے کا خدشہ رہتا ہے۔ اُس دور میں انحصار کرنے کا مطلب اپنے آپ کو دوسروں کے رحم وکرم پر چھوڑ دینا ہے۔ ہمارے کلچر میں بچے کی تربیت یہ مان کر کی جاتی ہے کہ وہ کچھ نہیں جانتا، اسے ہر وقت ’بڑوں‘ کی رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس لیے جب بھی کسی بڑے کا سامنا بچے سے ہوتا ہے تو وہ فوراً اپنا بڑا پن ثابت کرنا شروع کر دیتا ہے ۔ نفسیاتی اعتبار سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ بڑے ہمیشہ اپنے خالی پن یا ادھورے پن کو ثابت کرنے کی ضرورت میں مبتلا رہتے ہیں اور جب بھی ان کا سامنا کسی بچے سے ہو جائے تو انھیں اپنے خالی پن کا احساس نسبتاً کم ہو جاتا ہے کیونکہ انھوں نے ایک بچے کے مقابل اپنا بڑا پن ثابت کیا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بچوں کے سامنے اپنے عقلِ کل ہونے کا بھرم کمزور نہیں ہونے دیتے خواہ انھیں اپنی کم علمی چھپانے کے لیے جھوٹ ہی بولنا پڑ جائے۔ آج کمپیوٹر کی مدد سے گوگل یا ایسے ہی واسطوں سے ہر قسم کی معلومات آپ کے اشارے پر حاضر ہو جاتی ہے۔ ایسے میں بچوں کو بڑوں کی چنداں محتاجی نہیں رہی مگر آج بھی استاد اپنے آپ کو علم کا سر چشمہ مانتے ہیں۔
جب بچے کی بات کو سنا ہی نہیں جاتا اور کوئی اس کی رائے کو اہمیت ہی نہیں دیتا تو بچہ کیونکر اپنے بڑوں پر اعتبار کر سکتا ہے۔ حالانکہ جب بچہ کوئی رائے دیتا ہے تو وہ اپنے ماس میسر معلومات پر سوچ کر کوئی نئی توجیہہ بناتا ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ بات درست ہو۔ اصل بات یہ ہے کہ بچے نے سوچااور اپنی حیثیت کے مطابق کوئی نتیجہ نکالا۔ کم از کم اس نے ایک عمل کی شروعات تو کی۔ اگر کوئی بڑا اپنے بڑے پن کے خبط کو کچھ دیر کے لیے لگام دے دے اور بچے نے جو کچھ کہا اس پر اپنی رائے دے اور اگر اس کو اپنے کلی طور پر درست ہونے کا یقین نہیں تو یہ بھی کہہ دے کہ وہ دونوں مل کر کسی مستند حوالے سے اس بات کی تصدیق کر لیں تو بچہ اس بڑے پر نہ صرف اعتبار کرے گا بلکہ ان کے درمیان ایک پر اعتماد رشتے کی گنجائش پیدا ہو جائے گی۔
ہمارے ہاں بچیوں کے سا تھ جو سلوک کیا جاتا ہے اس سے بچیاں دنیا کو ایک نا پسندیدہ اور غیر محفوظ جگہ سمجھنا شروع کر دیتی ہیں۔ بلکہ یہ کہا جائے کہ اس معاشرے میں عورت بن کر رہنا کس قدر مشکل ہے، اس کی ابتدا عورتوں کے بچپن سے ہی شروع ہو جاتی ہے۔ گھر میں اس کی پیدائش کو نا پسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔ معاشرے میں اسے ایک جنسی آسودگی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں بچی اور عورت کی تفریق ہر گز نہیں۔ چھوٹی بچی کے جسم کو مکمل عورت کے جسم کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں صورتوں میں وہ مرد کا شکار بن سکتی ہے۔ آپ بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور پھر ان کو گلا گھونٹ کر ماردینے کے واقعات کو دیکھیں۔ جرم کرنے والا بچی کو پیار دلار کر کے اپنی طرف مائل کرتا ہے۔ وہی پیا ر اور دلار جواسے گھر سے میسر نہیں ہوتا۔ یعنی یہ کہ جن گھروں میں بچیوں کو ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے ، ان کی بچیاں ایک ظلم یا استحصال کے لیے تیا ر ہوتی ہیں جو
پیا راور دلار کے نام پر کیا جا سکتا ہے۔غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح جبر کے ماحول میں پیار اور دلار کے نام پر ایک بچی اپنے آپ کو نقصان پہنچانے کے لیے لا شعوری طورپر تیار ہوتی ہیں اسی طرح ان پر ظلم کر نے والے مرد بھی انھی گھروں میں پروان چڑھتے ہیں جن کو ان کے لڑکا ہونے کا خصوصی درجہ اور اس درجے کی بدولت مخالف جنس پر چڑھ دوڑنے کا سماجی پر مٹ مل جاتا ہے۔ یہ وہ بچے تھے ؍ہیں جن کو ایک تجرید میں رکھتے ہوئے، ایک غیر فطری ماحول میں تربیت کی گئی۔ اس تربیت نے انھیں انسانوں سے نہیں جوڑا بلکہ انھیں ایک غیر سماجی اور غیر انسانی سطح پر بے حسّ سا بنا دیا۔ ایسے لوگ ایک قصائی کا نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ وہ کسی جانور کو اس کی زندگی یا خوبصورتی کے حوالے سے نہیں دیکھتے بلکہ اس نقط نظر سے دیکھتے ہیں کہ اس میں سے کتنا گوشت نکل آئے گا۔ اسی طرح جس طرح دولت کے خبط میں مبتلا ڈاکٹر مریض کو اس کی تکلیف یا درد سے ہمدردی کی تناظر میں نہیں دیکھتے بلکہ ایک اکائی جس سے فیس لینی ہے کے زاویے سے دیکھتے ہیں۔ سکول میں استاد بچوں کو اس نقطہ نظر سے نہیں دیکھتے کہ بچے جس اعتبار کے ساتھ ان کے پاس آئے ہیں اس کو خلوص کی صورت میں لوٹا دیں۔ وہ بچوں کو ٹیوشن کا وسیلہ سمجھتے ہیں۔ جب بچے اپنی دنیا پر اعتبار کے قابل نہ بن سکیں تو وہ صرف غرض کے سطح پر جیتے ہیں۔ اس طرح پورا معاشرہ قصائیوں کا معاشرہ بن جاتا ہے۔ ہر فرد محض جیتا نہیں، وہ جیتے ہوئے بڑ ی خاموشی سے تشدد اور ظلم کر تا جاتا ہے ۔ تشدد روزمرہ کا ’ شغل ‘ بن جاتا ہے اور زندگی میں اسی طرح قابلِ قبول ہو جاتاہے جیسا کہ کوئی فرد ایک لباس اتار کر دوسرا لباس زیبِ تن کرلے۔
اگر والدین اپنے بچوں کی فطری صلاحییتوں پر اعتبار کریں تو بچے دراصل اپنے آپ پر اعتماد کرنا سیکھ جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر تجسس اور سوال اٹھانا بچے کی فطری صلاحییتوں میں شامل ہیں۔ اگر ان صلاحییتوں پر اعتبار نہ کیا جائے اور بچہ جب بھی سوال اٹھائے ، اس کی بے عزتی کر دی جائے تو بچہ سوال کرنا ہی چھوڑ دے گا۔ اس کے بعد جب بھی اس کے ذہن میں سوال پیدا ہو گا تو وہ اسے غیر ضروری اور قابلِ گرفت عمل سمجھنے لگے گا۔اس طرح جب بچے کی فطری صلاحییتوں پر اعتبار نہ کیا گیا تو بصورتِ دیگر اس کے ہونے کی نفی کر دی گئی۔ اس کی وضاحت اس طرح کی جا سکتی ہے کہ آپ ایک بچے کو جنگل میں جانوروں کے ساتھ پلنے دیں اور ایک کو فن لینڈ کے کسی سکول میں داخل کروا دیں۔ جانوروں کے ساتھ پلنے والا بچہ جانوروں کے طور طریقے سیکھ لے گا اور فن لینڈ والا بچہ ایک مہذب معاشرے کا چلن سیکھ لے گا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ بچے کو جنگل میں تو نہ بھیجیں البتہ اس کی تربیت اس طرح کریں کہ جیسے وہ ایک جانور ہو۔ ایسی صورتحال میں ادھورے انسان بنتے ہیں۔ انسان ہونے کا مطلب یہ کہ ہم میں دوسرے انسانوں کے احساسات کو اسی طرح محسوس کرنے کی صلاحیت ہو جس طرح ہم چاہتے ہیں کہ دوسرے ہمارے احساسات کو محسوس کریں۔ یہ سب سیکھنا پڑتا ہے۔ ایسا سیکھنے کی صلاحیت فطری طور پر انسان کے اندر موجود ہوتی ہے۔ اب یہ ان حالات پر منحصر ہے کہ جس میں کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے اور یہ بھی کہ اس کے والدین کس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ، کلچر کیسا تھا اور عالمی حالات کیسے تھے۔
بچے ماں کے پیٹ میں ہوں یا نوزائیدہ، سب کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے والدین پرغیر مشروط اعتماد کر سکیں۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو سکے تو ان کی حیاتیاتی اور نفسیاتی زندگی کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ اگرچہ بچے میں خطرات میں سے بچ نکلنے کی فطری قوّت اور طریقے موجود ہوتے ہیں تاہم اسے اپنی جسمانی اور نفسیاتی ضرورتوں کے پیشِ نظر ایک پیار بھرے اور خیال رکھنے والے ماحول کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے ۔ بچہ ، خواہ بہت چھوٹا ہو، یہ بتانے کی اہلیت رکھتا ہے کہ اسے بھوک لگی ہے یا اسے ماں کے جسمانی لمس کی ضرورت ہے۔ مگر وہ ان دونوں چیزوں کو اپنے طور پر حاصل کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ ان ضروریات کی فراہمی کے لیے ماں کو اس کے پاس آنا ہی ہوگا۔ بچے میں محض اتنی صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ اپنی ضروریات کا اشارہ دے۔ ان اشاروں کا جواب دینا یا نہ دینا ارد گرد کے لوگوں پر منحصر ہو تا ہے۔ بچوں کے اشارے مبہم اور بعض اوقات محض علامتی ہوتے ہیں اور ان کو سمجھنے کے لیے حساس والدین کی ضرورت ہوتی ہے۔ چھوٹے بچے رو کر اپنی ضروریات کا اشارہ دیتے ہیں۔ جب وہ بڑے ہو جائیں تو وہ زبان کے ذریعے اپنی بات دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ چھوٹے بچے جب روتے ہیں تو وہ توقع کرتے ہیں کہ ارد گرد کے لوگ اس پر کوئی ردِ عمل یا حرکت کریں ۔ اگر ایسا نہ ہو تو بچے اس عدم تائثر کی صورتحال کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ وہ سمجھ نہیں پاتے کہ لوگ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔
والدین اور بچوں کے آپسی تعلقات میں آخر ایسی کونسی بات ضروری ہے جس کی بدولت بچے اپنے آپ پر اور اپنے ماحول پر اعتبار کرنا سیکھ جائیں۔ اس سوال کے جواب کے لیے ہم ایک برطانوی سائیکاٹرسٹ جان بولبی(John Boulby) سے رجوع کرتے ہیں۔ انھیں اقوامِ متحدہ کے عالمی صحت کے ادارے نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد قائم ہونے والے یتیم خانوں کی بہبود پر تحقیق کرنے کا کام دیا تھا۔ انھیں اپنی تحقیق کے دوران یتیم بچوں میں ایک عجیب قسم کے رویے کا پتہ چلا۔ وہ یہ کہ ان یتیم خانوں میں پلنے والے بچے اپنے ارد گرد کسی بھی شخص کو اس قابل نہیں سمجھتے کہ اس پر اعتبار کیا جائے۔ اسی تحقیق کی روشنی میں بالبی نے اپنا نظریہ برائے تعلق داری(Theory of Attachment) قائم کیا۔ سالہا سال کے کلینکل تجربات اور تحقیق کی بنیاد پر بالبی اس نتیجے پر پہنچا: ’’ ہر عمر کے لوگ ایسے حالات میں خوش رہتے جہاں ایسے لوگ موجود ہوں جن پر وہ اعتماد کر سکیں اور مشکل کے وقت ان کی طرف رجوع کر سکیں۔ ایسے حالات میں وہ اپنی صلاحییتوں کا بہترین استعمال کر سکتے ہیں۔ جو لوگ اعتبا ر کے اہل ہوتے ہیں وہ ایک محفوظ گوشہ فراہم کرتے ہیں ۔‘‘ بالبی کے نزدیک تعلقداری دراصل ایک یا ایک سے زیادہ لوگوں کو ترجیحی حیثیت دینا ہے۔ اس ترجیح کی بدولت ایک خصو صی رویہ پیدا ہوتا ہے اور اس رویے کی بدولت ترجیح حاصل کرنے والے فرد سے قربت حاصل ہو جاتی ہے۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ ایسی قربت کی ضرورت صرف بچوں کو ہی ہوتی ہے۔ بلکہ ایسے رویے کو بچگانہ قرار دیا جاتا ہے۔ لگاؤ ایک قدرتی رجحان ہے اور کوئی بھی صحت مند فرد ایک دیرپا تعلق قائم کرنا چاہتا ہے۔ اسی رجحان کی بدولت وہ ارد گرد کی دنیا کو بہتر طور پر جاننے کا اہل بنتا ہے۔ ایسے رجحان کو نفسیاتی عارضہ نہیں سمجھنا چاہیے۔ جبکہ بصورتِ دیگر ایسے تعلق کے نہ ہونے کے باعث لوگوں میں ایسے عارضے کی مثالیں ضرور ملتی ہیں جن کے زیرِ اثر ان میں غیریت کے رجحان غالب آجاتے ہیں۔ یہ سب بچپن میں اعتباری رشتوں کی عدم دستیابی کے باعث ہوتا ہے۔ لگاؤ کے تجربات کی بدولت بچہ اپنے ارد گرد لوگوں اور ماحول کے ساتھ ایک اعتبار کا رشتہ قائم کرنے کا اہل ہو جاتا ہے۔ ان تجربات کی ابتدا اس کے والدین سے ہوتی ہے جو اسے سلامتی اور تحفظ کا ماحول فراہم کرتے ہیں۔ اسی تحفظ کی وجہ سے بچہ اپنی صلاحییتوں کو زیادہ سے زیادہ وسعت دے کر دریافت کا سفر شروع کرنے کا اہل بنتا ہے۔ دریافت کے اس سفر میں وہ دنیا کے کاروبار کو سمجھتاہے اور اپنی زندگی کا راستہ معین کر پاتا ہے۔اپنی زندگی کے پہلے سال میں اگر سلامتی اور تحفظ کی فضا مل جائے تو پوری زندگی کے لیے خود اعتمادی کی اساس میسر آجاتی ہے۔ اس سے بچے کی نشوونما میں بہتری آتی ہے۔ وہ دنیا سے خائف نہیں ہوتابلکہ اسے ایک چیلنج سمجھتا ہے۔ خود اعتمادی رجائیت اور بے اعتباری مایوسی پیدا کرتی ہے۔ بچہ کس قدر اپنے والدین کھچا رہتا ہے یا ان سے دوری بنا ئے رکھتا ہے ، ان کے ساتھ تحفظ اور اعتماد کے تعلق کادرجہ معین کرتا ہے۔دوسری جانب جو بچہ اپنے والدین کے ساتھ تعلق محسوس کرتا ہے وہ ، ضروری نہیں کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ چمٹا رہے۔ وہ ان کو چھوڑ کر اپنی زندگی کی دریافت کے سفر میں نکل جائے گا۔ گھر سے نکلتے وقت وہ اپنے ساتھ یہ یقین لے کر رخصت ہو گا کہ اگر اسے ضرورت پڑ گئی تو وہ بلا ججھک ان کے پاس لوٹ سکتا ہے ۔ایسے بچے اپنی دریافت کے سفر میں اپنی آسانی اور رفتار کے مطابق چلتے ہیں ۔ انھیں کسی قسم کے دباؤ یا کسی کے سامنے کچھ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
عموماً ، جن گھروں میں میاں اور بیوی کے درمیان خوشگوار تعلق نہ ہو وہاں بچے اعتماد اور احساسِ تحفظ حاصل نہیں کر پاتے۔ جب میا ں بیوی کے درمیان تعلقات میں کشیدگی ہو تو اس کا اثر بچوں پر بھی آتا ہے۔ بچوں کی زندگی کا قلعہ ان کا گھر ہوتا ہے اور اس قلعے کے ستون ان کے ماں باپ ہو تے ہیں۔ جب بچوں کے والدین میں ان بن ہو تی ہے تو دراصل بچوں کا قلعہ ، قلعہ نہیں رہتا ۔ وہ ہر وقت اپنے آپ کو عدم تحفظ کی ایک دلدل میں ہاتھ پاؤں مارتا محسوس کرتے ہیں۔
اگر ہم بچے کے پہلے اعتبار کی کہانی کے بارے میں معلوم کر لیں تو ہمیں اس کی زندگی کے آنے والے سالوں میں مایوسیوں یا خوشیوں کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ اس کا زندگی سے ملاقات کرنے کا نظریہ معلوم کر سکتے ہیں۔ پیدائش سے پہلے اور فوراً بعد بچہ مکمل طور پر اپنی ماں کے ساتھ بندھا ہو تا ہے۔ اس عرصے میں کوئی شخص اس کے اتنا قریب نہیں ہوتا۔ماں کے پیٹ میں بچے اور ماں کے درمیان کا رشتہ انتہائی قربت والا ہوتا ہے جو کسی بھی اور رشتے میں ممکن نہیں ہوتا۔ بچہ ، ماں کے جسم کا حصہ ہوتا ہے اور دھڑکن کی طرح ماں کے جسم میں بہتا ہے۔ پیدائش کے بعد ابتدائی مہینوں میں بچے کا اپنی ماں کے ساتھ ایک اٹو ٹ رشتہ ہوتا ہے۔ ماں اور بچے کے درمیان موانست کا تعلق بچے کی زندگی کے ابتدائی چھے سے آٹھ مہینوں تک برقرار رہتا ہے۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ یہ تعلق کم ہونا شروع ہو جاتا ہے اور بچے کو ایک الگ فرد ہونے کا تجربہ شروع ہو جاتا ہے ۔پیدائش کے بعدبچے کے ابتدائی مہینے دراصل اس کے ماں کے پیٹ میں موجودگی کی ہی توسیع ہوتے ہیں۔ اس کے بعد بچہ تدریجاًآہستہ آہستہ اپنی ماں سے الگ ہونا شروع ہو جاتا ہے اور پھر اس کی توجہ دوسرے لوگوں کی طرف مڑنا شروع ہو جاتی ہے۔ابتدائی مہینوں میں بچہ سب سے زیادہ لگاؤ اپنی ماں کے ساتھ محسوس کرتا ہے۔ اگر باپ بچے کے ساتھ لگاؤ کا رشتہ استوار کرتا ہے تو اس کی حیثیت بہر کیف ماں کے بعد ہی آئے گی۔ باپ کی حیثیت صرف اسی وقت نمایاں ہوتی ہے جب بچے کی نفسیاتی زندگی کا آغاز ہو تا ہے۔ اس کے بعدکنبے کے دیگر لوگوں کی باری آتی ہے۔ ان میں بہن،بھائی، دادا،دادی، نانا، نانی شامل ہیں ۔ اگر بچے کی نگہداشت کا کام بہن یا بھائی کو سونپ دیا جائے تو وہ لگاؤ کی سیڑھیوں میں بچے کی قریب والی سیڑھی پر آجاتے ہیں۔ اگر بچے کی زندگی کے ابتدائی سال میں اس کی نفسیاتی زندگی شروع ہونے سے پہلے اسے کسی ’ عجیب و غریب ‘ اجنبی آیاکے سپرد کر دیا جائے تو بچے کا اس کی حقیقی ماں کے ساتھ رشتہ کبھی بھی قدرتی نہیں رہتا۔محض حیاتیاتی تعلق کی بنیاد پربچے کے ساتھ لگاؤ کواپنا حق سمجھ لینا درست بات نہیں۔ بچے کے ساتھ لگاؤ کو کمانا پڑتا ہے۔ اسی مناسبت سے جس قدر کوئی شخص بچے کے ساتھ تعلق بنائے گا اسی قدر بچہ اس کے ساتھ لگاؤ کی شدت محسوس کرے گا۔ یہ بھی کہ اس تعلق کی شدت کا پیمانہ بچے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنا نہیں بلکہ لگاؤ میں سچائی یا بناوٹ کی کمی یا زیادتی ہے۔ اگر ماں بھی اپنے بچے کے ساتھ ہر وقت رہے مگر اس کے بچے کے ساتھ تعلق میں سرد مہری ہے تو اس کے مقابلے میں بچے سے دلی گرم جوشی رکھنے والی آیا بچے کے دل میں لگاؤ کا ایک گوشہ بنا لے گی۔ جاپانی مائیں اپنے شیر خوار بچوں کی ضروریات کا خیال تو رکھتی ہیں مگر وہ یہ سب بڑی خاموشی سے کرتی ہیں۔ اس طرح ان کے بچے اپنی زندگی میں کسی کی توجہ کے طالب بنے بغیر اپنی زندگیوں میں مست رہتے ہیں۔ اس کے بر عکس ، امریکی مائیں اپنے شیر خواروں کا خیال تو رکھتی ہیں مگر ان سے باتیں بھی کرتی رہتی ہیں۔ اس طرح ان کے بچے اپنی زندگیوں میں دوسروں کی توجہ کے طالب رہتے ہیں۔ انھی رویوں کی بدولت امریکی اور جاپانی کلچروں کی اساس کو سمجھا جاسکتا ہے۔