کالمز

اگر آپ کے ساتھ ایسا ہوا تو؟‌

تاشمین ہنزائی

"خاموش رہنا۔ تمہارے ساتھ کچھ غلط نہیں ہوا ہے, اگر ہوا بھی ہے تو خاموش رہو، ورنہ لوگ باتیں بنائیں گے۔ تمہیں برا بھلا کہا جائے گا ۔ تمہاری شادی بھی نہیں ہوگی۔ ہم کیا کریں گے،ہم لوگوں کا سامنا کیسے کریں گے۔۔۔۔”

بہت ہمت دیتے ہیں یہ لوگ کسی کو چپ رہنے کی ہدایت دے کر ۔۔۔ نہ جانے کتنی بار گھٹن  سے دل روتا ہے اپنے ساتھ غلط ہوتا دیکھ کر ۔ نہ جانے کتنی بار روح کانپ اٹھتی ہے ان حقارت بھری نظروں کو دیکھ کر ۔ نہ جانے کتنی بار بغیرکسی غلطی کے گالیاں سننے کو ملتی ہیں۔۔۔۔

حال ہی میں جسمانی زیادتی کا شکار بنانے کے بعد قتل کرنے کے  واقعات نے  ہر بندے کا دل خوف سے بھر دیا ہے  اور یہ بات سوچ کر آنکھیں  نم ہوجاتی ہیں کہ کنتی تکلیف سے گزرنا پڑا ہوگا ان معصوم بچوں اور بچیوں کو جب انکا گلہ دبایا جارہا تھا ۔۔۔۔ یا سر پتھروں سے کچلا جارہا تھا ۔۔۔۔

دل کو بہت تکلیف پہنچتی ہے ۔۔ ایک انسان اتنا بے درد  کیسے ہو سکتا ہے۔۔

پاکستان میں حالات ایسے ہیں کہ دن میں اوسطاً 11 بچوں کو جنسی ہراسیت کا شکار بنایا جاتا ہے۔ ان بچوں میں سے کچھ ان درندو کے ہاتھوں قتل بھی ہوجاتے ہیں۔ بے حسی کا عالم اتنا بڑھ جاتا ہے کہ جنسی زیادتی کی ویڈیو بنائی جاتی ہے، اور بعض اوقات یہ ویڈیوز سوشل میڈیا پر بھی پھیل جاتی ہیں ۔۔

ہمارے ہاں یعنی گلگت بلتستان میں دوسرے صوبوں کی نسبت جنسی ہراسیت (ہیریسمنٹ) کے کیسز  زیادہ درج نہیں  کئے جاتے ہیں۔ لیکن کم واقعات رپورٹ ہونے سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ایسے قبیح واقعات نہیں ہوتے۔ معاشرے میں ایسے واقعات کی بازگشت روز سنائی دیتی ہے ۔۔۔ لیک لوگ خاموش رہتے ہیں ۔۔۔۔ غیرت کے نام پر ۔۔۔۔ اور کبھی عزت کے نام پر ۔۔۔۔

ہمارے علاقے میں تو خودکشی بھی ایک بڑا مسلہ بنتا جا رہا ہے۔ ڈسٹرکٹ غذر کی مثال لی جاۓ، توایک ریسرچ کے مطابق  15فیصد خواتین طلاق کی وجہ سے،  15فیصد ڈپریشن ، 14 فیصد خواتین فیصلہ لینے کی  محرومی ،اور  10 فیصد خواتین اس لئے خودکشی کر لیتی ہیں کیونکہ  وہ گھر والوں کی خواہش کے مطابق بچہ (لڑکا ) نہیں پیدا کر سکتیں ہیں  اور ان کے ہاں  بیٹیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔

       ایچ۔ ار۔سی۔ پی کی رپورٹ کے مطابق 1996 سے 2010 تک 300 لوگوں نے خودکشی کی ہے ۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق مئی 2017 میں 20 نوجوانوں نے خودکشی کی ۔ان میں بعض کو غرت کے نام پر قتل کیا گیا، لیکن خودکشی کا نام دیا گیا ۔۔اس کے علاوہ دیگر کیسز ایسے ہیں جو درج نہیں کئے گئے ہیں۔ یہ صرف ضلع غذر کی رپورٹس ہیں۔ گلگت بلتستان کے تمام علاقوں میں خودکشیاں ہوتی ہیں، لیکن میڈیا انہیں چھپاتی ہے، کیونکہ میڈیا والوں کو بھی "علاقے کی عزت اور غیرت” کا زعم ہوتا ہے ۔۔۔۔ حالانکہ ہونا تویہ چاہیے کہ ایسے واقعات سچائی کے ساتھ رپورٹ کئے جائیں ۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔ خیر

بہت ساری خواتین ایسی بھی ہیں جو رشتہ ٹوٹ جانے کے ڈر سے تشدد اور ہراسیت برداشت کرتے ہیں، اور خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔

ہمارے علاقے میں کہا جاتا ہے کہ خواتین برابر ہیں، لیکن یہ حقیقت نہیں ہے۔ اب بھی بہت ساری خواتین ہیں جن کو فیصلہ سازی کا حق حاصل نہیں ہے۔ ہم ان خواتین اور بیٹیوں   کی مثال دیتے ہیں جنہوں نے اپنا نام روشن کیا ہے اور ترقی کی اس دنیا میں آگے بڑھ گئیں ہیں اور انکا موازنہ دیگر عورتوں اور بچیوں کے ساتھ کرتے ہیں اور سمجھ بیٹھتے ہیں کہ انکو مشکلات کا سامنا کرنا نہیں پڑتا ،آزاد ہیں ،فیصلے کر نے کا حق رکھتے ہیں. پر ایسا کیوں کرتے ہیں ہم؟  ہم دوسروں کو محروم کرتے ہیں ؟ ہم انکو چپ کیوں کراتے ہیں ؟ ہم انکو بولنا کیوں نہیں سیکھاتے تا کہ وہ آپنے انصاف کے لئے آگے  بڑھے ،اپنا حق مانگے (حق : فیصلہ لینے کا حق ، تشدد کے خلاف آواز اٹھانے کا حق ، بیٹی کو پیدا کر کے ایک اچھی زندگی دینے کا حق ،گھر سے باہر نکل کر سانس لینے کا حق )۔

کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر دیکھنے کو مل رہا ہے کی اکثر ھمارے پڑھے لکھے نوجوان، عورتوں کی آزادی کے بارے میں سوال اٹھا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کی ہماری خواتین اور بہنیں آزاد ہیں ۔ بیشک آزاد ہیں لکین 1فیصد  آزاد ہیں۔  باقی آزاد نہیں ہیں، انکے لئے مسائل درپیش ہیں جو ہم قبول نہیں کر رہے ۔ آپ  کونسی آزادی کی بات کی بات کر  رہے ہیں؟؟؟ اس آزادی کی جس میں لڑکیاں اپنا موقف بیان نہیں کر سکتیں ، وو آزادی جہاں رائے اور اظہار کی صلاحیت رکھنے والی لڑکیوں کو فیس بک پر میسجز بھیج کر ڈرایا اور دھمکایا جاتا ہے؟

 سوشل میڈیا پر حالات ایسے ہیں کہ جہاں ایک لڑکی کی تصویر ہو وہاں اپنا منہ اٹھا کہ چلے آتے ہیں ۔۔۔۔ ان میں وہ بھی شامل ہوتے ہیں جو اخلاقیات اور ‘اعلی اوصاف’ کی درس دیتے دکھائی دیتے ہیں ۔۔۔ دوہرے معیار کے ماہر ایسے بہروپیوں کو کوئی کچھ کہہ بھی نہیں سکتا ۔۔۔۔۔۔

ماشاء اللّه سے آپ کو اللّه نے  اتنی ہمت دی ہوئی ہے کہ آپکو اپنی بیوی کا خیال نہیں رہتا اور کسی کی بیٹی پہ بے حس دل آجاتا ہے اور آپکا ضمیر مر جاتا یہے ۔ بے حسی اتنی بڑھ جاتی ہے کہ آپکو اپنی بہن کی عزت کا خیال نہیں رہتا اور فلرٹ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔  اور تو اور ہمارے پڑھے لکھے نو جوان لڑکی کو بھٹکانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، ہر ممکن کوشش کرتے ہیں پوری زندگی کی تاریخ نکالنے کیلئے ۔

ہمارے قابل تعریف نمائندے نمائندے تو ببچارے ہیں بس۔۔۔ نادان اور معصوم بننے  کی کوئی کسر ہی نہیں چھوڑتے اور غلطی سے  اپنا گیارہ ہندسوں والا  نمبر دے دیتے ہیں ۔

کیا آپ نہیں تنگ کرتے دوسروں کی بیٹیوں کو ، کیا آپ نہیں تنگ  کرتے  دوسروں کی بیویوں کو ؟ سوشل میڈیا کو چھوڑیں ۔۔۔۔ کیا آپ سڑک کنارے تاڑنے کے لئے مشہور نہیں؟ سیٹیاں بجانے اور آوزیں کسنا آپ کی روش نہیں؟ آپ لڑکیوں کو آنکھ نہیں مارتے؟

دوسروں کی فرضی برائیوں پر تقریریں کرنے کی بجائے اپنے اصلی جرائم دیکھ لیجئے۔ گالم گلوچ بند کیجئے۔ ماں بہن کو کوسنا چھوڑ دیجئے۔ بری نظر سے عورتوں اور لڑکیوں کو مت دیکھیں۔ اگر آپ یہ سب کرتے ہیں اور پھر اخلاقیات کا درس اپنی جیب میں رکھیں۔

مجھے ان لوگوں سے بھی شکایت ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ نا انصافی کرتے ہیں انکو بند ددروازے کے پیچھے چھپا کے خود کھلے آسمان تلے ہیرو اور  معصوم  بنے پھر رہے ہوتے ہیں ۔ یقیناً  یہ نفس انسان کو سیدھے راستے سے  دور کر دیتی ہے اور اسی نفس کی آگ  انسان کی ضمیر کو جلا  کر خاک میں ملا  دیتی ہے۔

مجھے شکایات ان بہنوں سے ہے جو دوسری عورت کا حق مار کر ایسے وحشی جانوروں کے ساتھ تعلقات رکھتی ہیں ۔ مجھے شکایات ہے ان بہنوں سے جو آپنی عزت کو بیچ دیتی ہیں۔

کیوں مجبور ہوجاتی ہیں آپ ؟ اللّه نے پوری جنت قدموں تلے رکھا ہے۔  آپ اپنی اس طاقت کو کیوں دبا لیتے ہیں ؟؟؟

 اگر ہم اپنی  بری حرکتوں  کو نہیں روکیں گے تو ایسے کیسز اپنے  علاقے میں جلد از جلد اور زیادہ  دیکھنے کو مل جائیں گے ۔

ایک لڑکی ہونے کے ناطے میں کبھی نہیں چاہوں گی کہ کوئی میری طرف بری نظروں اور بری نیت سے دیکھے ۔

اگر آپ کے ساتھ  کچھ ایسا واقعہ ہوا ہوتا ہے جس سے آپکو تکلیف پہنچتی ہے تو ہر گز اپنے ساتھ ظلم ہونے نہ دیں اپنے آپکو انصاف دلا دیں اور بھیڑیوں کو سزا دلوایں ۔ آپ لوگوں کے ڈر سے اپنے ساتھ ظلم نہ ہونے  دیں ۔ خاموشی اختیار مت کریں ، آپکو دیکھ کر شاید کسی کو ہمت ملے اور وہ بھی تشدد سے بچ جائے ۔ خدا راہ غور کریں  ۔۔۔  ۔ ہمارے معاشرے ایسی بہت سری خواتین اور بیٹیاں ہیں جنکو مسائل در پیش ہیں ۔ انکو انصاف  دلانے میں مدد کریں خاموشی اختیار  کرنے کو نا کہیں ۔ کسی کی زندگی بچائیں نہ کی کسی کو آپنی جان لینے پر مجبور  نہ کریں۔۔۔۔۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button