ڈی ایچ کیو ہسپتال سکردو، شفا خانہ یا ذبح خانہ ؟
ڈی ایچ کیو ہسپتال سکردو گلگت بلتستان کا دوسرا بڑا طبی مرکز ہے جو 4 اضلاع بشمول دیگر سب ڈویژنو ں کے 7 لاکھ کے قریب آبادی کے لئے بنیادی صحت کے سہولیات کا مرکز ہے اس اہم قومی طبی ادارے میں جہاں صحت کے تمام سہولیات کا فقدان ہے وہاں ڈاکٹروں کی من مانیاں اور لابی نے غریب مریضوں کا جینا دو بھر کردیا ہے سفارشی اور شناسائی کی بنیاد پر مریضوں کا علا ج اور چیک اپ کیا جاتا ہے یہاں تعینات ایم ایس خواہ چاہیے کتنا دیانتدار اور ایماندار کیوں نہ ہو ڈاکٹروں کی گروپ بندیاور لابی ہسپتال کی نظم و نسق اور نظام میں سب سے پہلے رکاوٹ بن جاتا ہے جس میں اندورن خانہ ٹانگیں کھینچنا ،وقت پر ڈیوٹی نہ دینا ،چائے کے بہانے دیر کرنا ،سفارشی مریضوں کا علاج ،منافع بخش نجی کمپنیوں کے ادویات لکھنا ،مریضوں کے ساتھ نرمی کے بجائے سختی سے پیش آنا اور احساس ذمہ داری نہ ہونا شامل ہے جو کہ نہ صرف مقدس پیشے کے ساتھ غداری ہے بلکہ سینکڑوں انسانی قیمتی جانوں سے کھیلنے کے مترادف ہے جو کہ اس وقت ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال سکردو میں ہورہا ہے موجودہ صورتحال میں ہسپتال کے تمام تر ناکامی کا ملبہ صرف ایم ایس ڈاکٹر اشرف کے کندھے پر ڈالا جارہا ہے اور چھوٹے سٹاف سے لے کر دیگر ڈاکٹروں کی من مانیوں اور لابیوں کو پست پُشت ڈالا جارہا ہے جو کہ یقیناًسراسرذیادتی کے سوا کچھ نہیں ہے ہسپتال میں صحت کے تمام بنیادی سہولیات فراہم کرنا حکومت وقت اور محکمہ صحت کا بنیادی فرض ہے ساتھ ہی بلتستان سے تعلق تمام اراکین اسمبلی اور ممبران کی بے حسی اور خاموشی عوام کے صحت سے کھیلنے کا بولتا ثبوت ہے جہاں تک حکومت نے ہسپتال میں تمام سہولیات فراہم کرنے کے بلند بانگ دعوے کئے ہیں وہ سب سرد خانے کی نذ ر ہوچکی ہے ہسپتال کی عمارت اُونچی ہوگئی ہے مگر ایمرجنسی میں کلونا تک دستیاب نہیں ہے کچرے کا ڈھیر کراچی کا منظر پیش کررہی ہے تمام اقسام کے ادویات غریب اور نادار مریضوں کی پہنچ سے دور ہے القصہ مختصر ہسپتال کے تمام نظام کا اوپر سے نیچے آوے کا آوہ بگڑا ہوا ہے اس تمام صورتحال میں تمام تر ذمہ داری گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت ،سیکرٹری ہیلتھ ،ڈائریکٹر ہیلتھ ، بلتستان سے تعلق تمام اراکین اسمبلی پر عائد ہوتی ہے جو خواب خرگوش کی نیند کا مزہ لے رہے ہیں روزانہ کی بنیاد پر بلتستان بھر کے دور دراز پہاڑی علاقوں اور وادیوں سے غریب نادار اور لاچار مریضوں کے ساتھ ڈی ایچ کیو ہسپتال سکردو میں جو سلوک پیش آرہی ہے وہ ناقابل بیان ہے جس میں صرف ایم ایس پر سارا ملبہ ڈالنے سے تبدیلی ممکن نہیں ۔بتایا جاتا ہے کہ اس وقت مخصوص لابی موجودہ ایم ایس کے سخت مخالف ہے یہ کوئی نئی بات نہیں یہاں جو بھی ایم ایس آتا ہے ڈاکٹروں اور ہسپتا ل میں موجود دیگر لابی ٹانگیں کھینچنے میں پیش پیش ہوتے ہیں جو ہسپتال کے نظام اور مریضوں کے راہ میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے موجودہ وقت میں ہسپتال میں اگر ادویات کی قلت ،وقت پر آپریشن نہ ہونا ،ٹائم ٹیبل اور دیگر مسائل کا سامنا ہے تو ذمہ داری پوری ہسپتال انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے اس سلسلے میں ایم ایس ڈی ایچ کیو سکردو ڈاکٹر اشرف کو بھی اپنی ترجیحات کو دو ٹوک سامنے رکھ کر جانفشانی سے کام کرنے کی اشد ضرورت ہے موجودہ صورتحال میں عوام کا ہسپتال اور ڈاکٹروں سے اعتماد ختم ہوتا جارہا ہے حالیہ دنوں میں ایک نمونیا کیس کو ہارٹ کا کیس جبکہ خسرہ سے متاثرہ بچوں کو ایکسپائری ٹیکے لگانے کی مریضوں کی طرف سے شکایا ت موصول ہوئی ہے ہسپتال کے ڈرگ بینگ مالک سے طویل عرصہ گزرنے کے بعد بھی کرایہ وصول نہ ہونا بھی بد انتظامی کا بین ثبوت ہے دوسری طرف چائلڈ وارڈ ،میڈیکل وارڈ میں ایک بیڈ پر چار چار مریضوں کو بٹھائے ہوئے ہیں ہسپتال کے دیواروں پر لگائے گئے ٹائلز بھی اُکھڑ رہے ہیں جبکہ زیر تعمیر عمارت پر بھی عوامی خدشات اور تحفظات سامنے آرہے ہیں معتبر زرائع سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ لیبر روم سنٹر میں آپریشن کے لئے مریضوں سے بھاری آلات اور ادویات خریدا جاتا ہے اور بعد میں بازار میں فروخت کیا جاتا ہے جبکہ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ایمرجنسی وارڈ اور دیگر وارڈز میں نائٹ شپ میں سینئر سٹاف ڈیوٹی دینے کے بجائے جونیئرز کو پیسے دے کر ذمہ داری دینے کا انکشاف بھی ہوا ہے جو کہ مریضوں کی جان سے کھیلنے کا انوکھا عمل ہے ہسپتال کے بیچوں بیچ ساتھ ہی سڑک کے ساتھ اُونچی دیوار کھڑی کرکے خاردار تاریں لگانے کے بجائے دکانیں بنانے سے نہ صرف سیکورٹی رسک ختم ہوجاتی ساتھ ہی زرائع آمد ن بھی حاصل ہوجاتا تھا ہسپتال میں اس وقت تمام علاقوں اور اضلاع سے آنے والے مریضوں اور سکردو شہر کے باسی بھی ادویات بازار سے خریدنے پر مجبور ہے ٹیسٹ کا نظام درست نہ ہونے سے لوگوں کا ہسپتال کے بجائے پرائیوٹ سیکٹر جانے پر مجبور ہے شام کے اوقات میں سکردو شہر کے گردو نواح میں واقع پرائیوٹس کلینکس کے باہر ہسپتال سے زیادہ مریضوں کا میلہ لگا رہتا ہے ڈاکٹر ز ہسپتال میں آنے والے مریضو ں کو ہسپتال میں سہولیات نہ ہونے پر اپنی ذاتی کلینکس کا ایڈریس اور پرچی تھما دیتے ہیں یوں شگرکے آخری گاؤں باشہ ،گانچھے سلترو،کھرمنگ اُلڈینگ ،گلتری ،کتی شو نالا سے آنے والا ایک غریب مریض ڈاکٹروں کی قربانی کا بکرا بن جاتا ہے وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نے خود کہا تھا کہ سکردو ہسپتال کے لئے مخصوص بجٹ اور سکیمیں مختص کی گئی ہے مگر سینکڑوں غریب مریض مناسب صحت کے سہولیات میسر نہ ہونے سے موت کو گلے لگا چکے ہیں رکن کونسل وزیر اخلاق حسین ،ممبر اسمبلی ریحانہ عبادی نے اے ڈی پی سے کچھ رقم رکھے تھے تاہم یہ رقوم بھی ہسپتال کے گھمبیر مسائل کے لئے ناکافی ہے حکومت نے اگر بھاری بجٹ مختص رکھی ہے تو ہسپتال میں ہونے والے اثر رسوخ کی بنیاد پر علاج و معالجہ ،ڈاکٹروں کی ٹولیو ں میں لابیوں کو ختم کرنا ہوگا اس کے بغیر عوام اس اہم قومی مرکز کو شفاخانہ نہیں بلکہ ذبح خانہ ہی تصور کریں گے جو کہ حکومت اور ہسپتال انتظامیہ کی ناکامی کا زریعہ بنے گا ڈی ایچ کیو ہسپتال کے مسائل پر اگر لکھتا جائے تو شاید قلم میں سیاہی ختم ہوگا مگر مسائل باقی رہے گااس سلسلے میں صوبائی حکومت ،ضلعی انتظامیہ ،سیکرٹری صحت ،ڈائریکٹر محکمہ صحت بلتستان کو فوری طور پر ہسپتال کے تمام مسائل کے لئے غوروخوص کرنا ہوگا صرف اور صرف تمام تر ناکامی اور بدانتظامی مسائل کا ملبہ ایم ایس پر ڈالنے سے ہسپتال کا نظام نہیں بدلا جاسکتا بلکہ ہسپتال میں دیگر ڈاکٹروں اور سٹاف کی مطلق العنان بننے کی روش کو بدلنا ہوگا۔