سپنوں کاسکول
پہلے زمانے میں جس تصور کو خواب کہا جاتا تھا آج کے نئے دور میں اسی خواب کو ’’وژن‘‘ کہا جاتا ہے اور جس دور میں کسی خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے جو تگ و دو ہوتی تھی اس کو آج کی اصطلاح میں’’ مشن‘‘ کہا جاتا ہے اور جو فرد ’’وژن‘‘ سے عاری وہ’’ مشن ‘‘سے بھی نابلد ہوتا ہے اور شاید اس کی زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہوتا ۔ایسی ہی مثال ایک قوم کی بھی ہے ۔۔اگر ایک قوم کے پاس وژن ہو تب وہ منزل کا تعین کرتی ہے اور وہاں تک پہنچنے کی جد وجہد کی وجہ سے زندہ رہتی ہے ۔۔اس کی جدہ پیمائی ایک مضبوط ارادے کی بنیاد پہ ہوتی ہے ۔۔دنیا کی بہت ساری اقوام ہیں جنہوں نے جب خواب دیکھا تو اس کی تعبیر کی کوشش میں زندہ رہے ۔۔دور حاضر کے مشہور خوابوں میں۔۔ لوتھر کا خواب ۔گوش اویرے کا خواب ۔۔موزوتونگ کا خواب ۔۔اقبال کا خواب ۔۔اور کتنے خواب جو بیغیر تعبیر کے نہیں رہے ۔۔بحیثیت قوم ہم اب بھی خوابوں کی سرزمین میں بس رہے ہیں ۔۔الفاظ کی حد تک ہم وہ خواب بھی دہرا رہے ہیں اور خواب دیکھنے والے کی بھی تعریف کر رہے ہیں لیکن اس کے خواب کی تعبیر کی کوشش میں ایک قدم بھی آگے نہیں بڑہے ۔اس لئے کہ ہم اب بھی کہہ رہے ہیں کہ ترقی یافتہ پاکستا ن ہمارا خواب ہے ۔۔تعلیم یافتہ پاکستان ہمارا خواب ہے ۔۔پر امن اور خوشحال پاکستا ن ہمارا خواب ہے ۔۔ہمارے خوابوں کی فہرست لمبی ہے یہاں جس خواب کا ذکر ہو رہا ہے وہ ایک ایسے تعلیمی ادارے کے بارے میں ہے جو واقعی خوابوں اور اُمنگوں کا ترجمان ادارہ ہے ۔۔ایک ٹرینگ ہے جو پی ڈی سی کی طرف سے پیشہ ورانہ مہارت مہیا کرنے کے لئے دی جاتی ہے ۔۔یہ آغا خان یونیورسٹی کا زیلی ادارہ ہے جو مختلف ممالک میں کام کرتا ہے اور خاص کر پسماندہ علاقوں میں کام کرتا ہے ۔۔چترال میں یہ پچھلے چند سالوں سے کام کر رہا ہے ۔۔یہ سکولوں خاص کر پرائمیری سکولوں میں سہولیات اور بہتر تعلیمی ماحول مہیا کرنے کے لئے کام کر رہا ہے اس ادارے نے گورنمنٹ کے ساتھ اشتراک سے کئی سکوں میں کام کیا اساتذہ کی پیشہ ورانہ تربیت کی ۔ تو اس کے بہت بہترین نتائج سامنے آئے ہیں ۔ہم ستائیس اساتذہ سرکاری سکولوں سے سولہ اپریل سے پی ڈی سی سنٹر میں ٹرینگ پہ ہیں پہلا دن جب واقعی ایک خواب اکھیوں میں سجائے اٹھا تو پھوار گر رہی تھی ۔دن کی خوبصورتی کا اندازہ ضرور ہوا ۔ٹیکسی لے کے بڑی مشکل سے اے کے ار ایس پی کے دفتر پہنچا ذولفقار سے ملاقات ہوئی تو کھڑے کھڑے ہاتھ میں پکڑی بسکٹ پیش کی پی ڈی سی سنٹر کا پوچھا تو ہنس کے کہا کہ میں جاتے جاتے ساتھ ہونگا لیکن پھر وہ نظروں سے ایسے غائب ہوگیا کہ اس کو ڈھونڈتی ڈھونڈتی اس کے دفتر کی ایک مہذب بہن تھک سی گئی ۔۔ایک بھائی کی مدد سے ہم گرتے پڑتے پی ڈی سی آفس پہنچ ہی گئے ۔ڈاکٹر ریاض کا ہمارابیتابی سے استقبال سراپا سوال تھا کیونکہ ہم ہی کلموہی تھے کہ دیرسے پہنچے تھے ۔۔ہمارے پہنچتے ہی سیشن شروع ہوئی ۔۔ جناب ڈاکٹر ریاض حسین ۔۔ جناب عبدالولی خان یفتالی ۔۔محترم خان زادہ ۔۔دو اے ڈی اوز محکمہ تعلیم کے جس کی قابلیت اور تجربہ بے مثال ہے جب سے ان کی شاگردی میں آگیا تو مجھے اپنے طالب علم ہونے پہ فخر ہوا اور اس خوش قسمت قوم کے لئے خواب دیکھنے لگا کہ اگر اس کے نونہالوں کی تربیت ان جیسے باصلاحیتوں کے ہاتھوں ہو جائے تو اس کو عظیم قوم بننے میں دیر نہیں لگے گی ۔۔یہ سب ہمارے فیسیلیٹیٹرز تھے ۔۔ٹریننگ کے اغراض و مقاصد بیان کئے گئے ۔۔ہم سب کا تعارف ہوا ۔۔پھر ہمیں ایک خواب دیکھانا تھا ۔۔ہمیں ایک خواب دیکھنے پہ مجبور کرنا تھا ۔۔پھر جب میم نے خواب دیکھنے پہ مجبور کیا تو اقبال بھی بہت یاد آئے اور قائداعظم بھی ۔۔پھر ایک انڈین فلم کا ایک مختصر سا مکالمہ یاد آیا ۔۔کہ ہیرو ہیروین سے کہتا ہے ۔۔۔’’ایسا کیوں لگتا ہے کہ میں نے تمہیں کہیں دیکھا ہے ‘‘۔۔۔ہیروین قہقہہ لگا کر ناز سے کہتی ہے کہ’’ سپنوں میں دیکھا ہوگا ‘‘ ۔ہیرو افسردہ ہوتا ہے اور شکستہ دل کے ساتھ دھیمی انداز میں کہتا ہے ۔’’ہاں میں سپنے بہت دیکھا کرتا ہوں ‘‘ہم بھی سپنے بہت دیکھا کرتے ہیں ۔۔ہم نے خوابوں کی سر زمین کا سپنا دیکھا ۔۔اس کا نام پاک سر زمین رکھا۔۔ مگر اس خواب کی تعبیر میں فیل ہیں۔۔ ہم نے ایک مہذب اور تعلیم یافتہ قوم کا خواب دیکھا۔۔ خواب کو شرمندہ تعبیر نہیں کر سکے ہیں ۔۔ اپنی میم کے کہنے پہ خواب دیکھا اور شکر ہے کہ ایک اُمید بھی باندھی کہ یہ دونوں میمیں محکمہ تعلیم کے بڑے ز مہ دار آفیسرز ہیں ان کو سرکاری سکولوں کے اندر تعلیمی ماحول اور سرگرمیوں کا وسیع تجربہ ہے۔۔ ان کے پاس علم ہے۔۔ مہارت ہے ۔۔کام کرنے کا جذبہ ہے ۔۔ان تھک محنت کا شوق ہے ۔۔لیڈر شب کی صلاحیت ہے ۔۔دونوں اپنی زات میں انجمن ہیں ۔۔ایک حوالہ ہیں ۔۔ایک احساس ، ایک آس ،ایک کرن ، ایک حوصلہ ،ایک عزم ،علم و عمل کی ایک سند ،شرافت کے تاج محل ،اپنے کام سے مخلص ۔۔اس لئے ان کے ہوتے ہوئے تبدیلی روشنی لگتی ہے جس کا آنا لازمی ہے ۔اور اندھیروں کا چھٹنا ناگزیر ۔۔وہ تبدیلی کے خواہاں اور روایات کے خلاف ہیں اس لئے کہ دور کے تقاضے تبدیلی مانگتے ہیں روایات نہیں ۔۔اُنھوں نے اعلی تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کی اور اچھے اداروں کے ساتھ کام کیا ان کی تعلیم اور تجربے نے ان کو موتی بنایا ہے اور قابل تقلید بھی ۔۔حکومت تعلیم عام کرنا چاہتی ہے لیکن اس کے لئے عملی کام اور ان جیسے افراد اور اداروں سے کام لینے کی ضرورت ہے ۔۔پرائمیری سکول ہماری بنیادیں ہیں ہم جب اپنی بنیادوں کو درست اور مضبوط نہیں کرینگے آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔خواب خواب ہوتا ہے خواہ وہ انڈین فلم کے ہیرو کا ہو یا اقبال کا ہو اسکی تعبیر ضروری ہے ۔۔میم نے ہم سے خواب دیکھنے کو کہا بیداری میں خواب دیکھنے کا اپنا مزہ ہے سارے مناظر بقایمی ہوش و حواص نظروں کے سامنے ہوتے ہیں ۔۔ہمارے تعلیمی اداروں میں جو ماحول ہے اس کو علمی اور عملی بنانے کی ضرورت ہے ۔۔غفلت کو خدمت میں ۔۔نفرت کو محبت میں ۔۔سستی کو چستی میں ۔۔انفرادیت کو اجتماعیت میں ۔۔انسووں کو مسکراہٹ میں ۔۔خلیج کو قریب میں ۔۔دکھ کو سکھ میں ۔۔بیزاری کو شوق میں ۔۔غرض کو خوداری میں بدلنے کی ضرورت ہے ۔۔ضرورت ہمیں پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ میں ناگزیر ہوں ۔۔انشا اللہ یہ ٹریننگ اور اس جیسی کوششیں اس مثبت تبدیلی کی طرف قدم ہی نہیں جدہ پیمائی ہونگیں ۔۔۔ اقبال کا ترانہ بانگ درا ہے گویا
ہوتا ہے جدہ پیما پھر کارواں ہمارا
ہمارا ٹریننگ سنٹر ایک عطر گاہ ہے ۔۔ٹرینرز خوشبو ہیں ۔۔۔ہم کہ خجستہ پا ۔۔۔۔۔۔اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو