علما اور دانشوروں کی نظر میں امام مہدی(ع)
تحریر: ایس ایم شاہ
مہدویت کا نظریہ تمام ادیان میں پایا جاتا ہے، خواہ وہ الٰہی ادیان ہوں جیسے اسلام، مسیحیت، یہودیت یا غیر الٰہی جیسے بودیزم، صابئین وغیرہ۔ ان سب نے آخری زمانے میں ایک مصلح کے ظہور کرنے کی خبر دی ہے اور ان تمام مکاتب فکر کے پیروکار اسی پر اپنا عقیدہ بھی رکھتے ہیں۔ درحقیقت یہ تمام انسانوں کی ایک فطری خواہش ہے کہ دنیا سے ظلم و بربریت کا خاتمہ ہو، تبعیض کی دیواریں منہدم ہوں اور پوری دنیا میں عدالت کا راج ہو۔ اسی فطری آواز کی تائید تمام آسمانی کتابوں نے بھی کی ہے اور اس کی کافی تاکید ہوئی ہے کہ اللہ تعالٰی کائنات کو ظلم، شرک اور بت پرستی سے نجات دے کر پاک کرے گا اور اپنے پاکیزہ اور صالح بندوں کو زمین کا وارث قرار دے گا۔ غرض سارے انسان اس دن کے منتظر ہیں کہ جس دن منجی ظاہر ہوں گے، ظلم و ستم کی دیواروں کو وہ منہدم کریں گے اور عدل و انصاف کا ایک عالمی نظام نافذ کریں گے، لیکن انسانی معاشرے میں مختلف افکار و اعتقادات رکھنے والے افراد کے ہونے کے باعث ہر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے اپنے عقیدے سے مطابقت رکھنے والی خاص خصوصیات کے ساتھ ان کے ظہور کی خوشخبری دی ہے۔(1)
لیکن اسلام جو فطرت انسانی کے عین مطابق ایک جامع نظام حیات اور تمام الٰہی شریعتوں کے نچوڑ کا نام ہے، اس حوالے سے خاص اہتمام کیا ہے، اہل سنت میں سے 120 سے زائد قدیم و جدید برجستہ علماء نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ شیعوں کے گیارہویں امام حضرت امام حسن العسکریؑ کے ہاں "ابوالقاسم محمد بن الحسن” نامی ایک بیٹا ہوا، ان کا لقب حجت، قائم، خلف صالح، منتظر اور مہدی ہیں، ساتھ ہی ان سب نے صراحت یا اجمال کے ساتھ اس حقیقت کا بھی اعتراف کیا ہے کہ یہی اسلام کی نظر میں جو مہدی موعود ہے اس کا مصداق ہے، پیغمبر اکرمؐ نے بھی خبر دی ہے کہ مہدیؑ ظہور کرکے اس دنیا کو بحرانی حالت سے نکال کر وہ ایک عالمگیر حکومت قائم کریں گے۔(2)
ہم یہاں اس حوالے سے اہل سنت کے چار مشہور فرقوں کے علماء میں سے بعض برجستہ شخصیات کے اقوال کو ذکر کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:
شافعی علما کی نظر میں امام مہدیؑ:بعض شافعی علماء امام مہدیؑ کی خصوصیات کے حوالے سے شیعوں کے ہم عقیدہ ہیں۔
کمال الدین محمد بن طلحہ شافعی (متوفی قرن ہفتم ہجری): انھوں نے "مطالب السوال فی مناقب آل الرسول” کے آخری باب کو امام مہدیؑ سے مختص کیا ہے، ان کا اعتقاد ہے کہ امام مہدی امام حسن العسکریؑ کے فرزند ارجمند ہیں اور اب بھی قید حیات میں ہیں۔ اپنے اس مدعا کو ثابت کرنے کے لئے انھوں نے یہاں اہل سنت منابع سے متعدد روایات کو ذکر کرنے کے علاوہ مہدویت کے حوالے سے بعض شبہات کا جواب بھی دیا ہے۔
کنجی شافعی (متوفی قرن ہفتم ہجری) نے بھی اسی نظریئے کو اپنی کتاب "البیان فی اخبار صاحب الزمان ” میں بیان کیا ہے، ساتھ ہی ان کا کہنا ہے کہ میں نے اس کتاب کی جمع آوری میں شیعہ روایات کو نقل کرنے سے اجتناب کیا ہے، خواہ ان کی سند صحیح ہی کیوں نہ ہو، یہ صرف ان کے لئے مفید ہے اور غیر شیعہ روایات سے استدلال اس مسئلے کی اہمیت کو زیادہ اجاگر کرتا ہے۔ ان کا کہنا ہے: مہدیؑ کے باقی ہونے میں کوئی ممنوعیت نہیں ہے کیونکہ اولیاء خدا میں سے عیسٰیؑ، الیاسؑ اور خضر ؑ زندہ ہیں، ساتھ ہی دشمنان خدا ہونے کے باوجود شیطان اور دجال بھی زندہ ہیں، ان کا زندہ ہونا قرآن و سنت سے ثابت ہے، جب ان کے حوالے سے سب کا اجماع ہے، لہذا امام مہدیؑ کا بھی طولانی مدت تک زندہ رہنا بھی کوئی بعید نہیں ہے۔
(اسماعیل بن کثیر 774ہجری): انھوں نے اپنی کتاب "النھایہ فی الفتن و الملاحم” میں ایک باب "فصل فی ذکر المھدی الذی یکون فی آخر الزمان” کھولا ہے، اس فصل کی ابتداء میں وہ لکھتے ہیں: مہدیؑ خلفاء راشدین اور ہدایت کرنے والے اماموں میں سے ہوگا، رسول خداؐ سے ان کے بارے میں روایات منقول ہیں، ان روایات کی صراحت یہ ہے کہ حضرت آخرالزمان میں آئیں گے اور میری نظر میں ان کا ظہور عیسٰیؑ کی آمد سے پہلے ہوگا، مہدی موعود ؑ رسول خدا کی ذریت سے فاطمہ زہراؑ کی اولاد میں سے ہوں گے۔
سعدالدین تفتازانی (متوفی793ہجری): انھوں نے اپنی کتاب "شرح المقاصد” کی بحث امامت میں امام مہدیؑ کے ظہور کو موضوع بحث قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے: صحیح (السند) روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ فاطمہؑ کی نسل سے ایک پیشوا ظہور کریں گے، وہ دنیا کو ظلم و جور سے بھر جانے کے بعد عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔
جلال الدین سیوطی (متوفی911ہجری) یہ اہل سنت کے بارز اہل قلم علماء میں سے ہیں، اس نے تفسیر، حدیث اور علوم قرآنی جیسے مختلف موضوعات پر قلم فرسائی کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مہدیؑ ان بارہ خلیفوں میں سے ایک ہیں، جن کا نام جابری سمرہ کی حدیث میں آیا ہے۔ مہدی ؑ عباس بن عبدالمطلب کے بیٹوں میں سے ایک نہیں ہوسکتے، "لامھدی الا عیسی بن مریم” والی حدیث ضعیف ہے کیونکہ مہدی ؑ کے ظہور پر متواتر روایات دلالت کرتی ہیں اور وہ رسول خدا کے فرزندوں میں سے ہوں گے اور عیسٰی ؑ ان کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔
ابن حجر ہیتمی (متوفی974ہجری) نے اپنی کتاب”الصواعق المحرقہ” میں فضائل اہل بیت سے متعلق بارہویں آیت کو نقل کرنے کے بعد امام مہدیؑ سے مربوط روایات کو کافی تفصیل کے ساتھ اہل سنت منابع سے ذکر کرنے کے بعد ان کا کہنا ہے: بہترین قول یہ ہے کہ مہدیؑ کا خروج عیسٰیؑ کے ظہور سے پہلے ہوگا، البتہ بعض نے ان کے بعد کا بھی ذکر کیا ہے۔ ابوالحسن آبری کا کہنا ہے: مہدیؑ کے ظہور سے متعلق جو روایات رسول خداؐ سے نقل ہوئی ہیں وہ متواتر و مستفیض ہیں، ان کی دلالت یہ ہے کہ ان کا تعلق پیغمبر اکرمؐ کی اہل بیت سے ہوگا، وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے، عیسٰیؑ کے ساتھ خروج کریں گے اور وہ دجال کو "لد” فلسطین میں قتل کرنے کے لئے عیسٰی ؑ کی مدد کریں گے، وہ اس امت کے امام ہوں گے اور عیسٰیؑ ان کی اقتداء میں نماز پڑھیں گے۔ ابن حجر نے ابی القاسم محمد الحجہ کے حالات کو یوں ذکر کیا ہے: ان کے والد (گرامی) کی وفات کے وقت ان کی عمر پانچ سال تھی، اسی عمر میں اللہ تعالٰی نے انھیں حکمت عطا کی تھی۔
حنبلی علما کی نظر میں امام مہدیؑ:امام احمد بن حنبل (متوفی241ہجری) یہ حنبلی مذہب کے سربراہ ہیں اور ان کے سب سے قدیمی اور مفصل حدیثی کتاب کے مؤلف بھی ہیں۔ انھوں نے اس حدیثی مجموعے میں امام مہدیؑ کے حوالے سے متعدد روایات نقل کی ہیں، بعد میں ان احادیث کو الگ سے ایک کتابی صورت دی گئی ہے، "احادیث المہدی ؑ من مسند احمد بن حنبل” کے یہ عنوان سے یہ کتاب چھپی ہے۔ اس کتاب میں 136 احادیث کو مسند احمد سے استخراج کیا گیا ہے اور ان کو چند ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے، اس میں امامؑ کے ظہور کی نشانیاں، ظہور کا وقت اور اس وقت کی وضعیت کو زیر بحث لایا گیا ہے۔
ابن تیم جوزیہ حنبلی (متوفی 751ہجری): یہ اہل سنت کے مشہور اہل قلم میں سے ہیں، انھوں نے اپنی کتاب "المنار المنیف فی الصحیح و الضعیف” کی پانچویں فصل کو امام مہدیؑ سے متعلق بحث سے مختص کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے (روایات میں) تواتر پایا جاتا ہے کہ حضرت کا تعلق سے اہل بیت رسول خداؐ سے ہے، ظہور کے وقت عیسٰیؑ بھی آئیں گے اور ان کی اقتدا میں نماز پڑھیں گے۔
یحیی بن محمد حنبلی (متوفی قرن دہم): اس نے مہدویت کے کسی مدعی اور اصل مہدویت کے منکروں کے جواب میں یوں لکھا ہے: تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں، جس نے اپنے اذن سے اس مورد میں حق کی طرف ہماری ہدایت فرمائی، جس میں لوگ اختلاف میں پڑے تھے، مذکورہ عقیدہ بغیر کسی شک و شبہ کے باطل ہے، کیونکہ اس کا لازمہ پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے جو صحیح روایات آئی ہیں، ان سب کو رد کرنا ہے، ان روایات میں مہدیؑ کے آخری زمانے میں ظہور کی خبر دی گئی ہے، ساتھ ہی ان کی انفرادی خصوصیات اور ظہور کے وقت پیش آنے والے واقعات کا بھی ذکر کیا گیا ہے، مہدیؑ کے ظہور کی مہم ترین علامات میں سے ایک کہ جس کا کوئی اور ادعا بھی نہیں کرسکتا یہ ہے کہ حضرت عیسٰیؑ آسمان سے اتر آئیں گے اور امام مہدیؑ کے پہلو میں ان کی اقتدا میں نماز پڑھیں گے۔ اسی طرح دجال خروج کرے گا اور وہ مارا جائے گا، جو مہدی موعودؑ کی تکذیب کرے تو ایسے شخص کے کافر ہونے کے حوالے سے رسول خداؐ نے خبر دے رکھی ہے۔
حنفی علما کی نظر میں امام مہدیؑ:بعض حنفی علماء اور اہل قلم نے بھی مہدویت اور مہدی آخرالزمان پر اعتقاد کے حوالے سے بہترین اور باارزش آثار تحریر کئے ہیں، بعض موارد میں امام مہدی ؑ کے ظہور پر اعتقاد کے علاوہ شیعوں کی مانند ان کے زندہ ہونے پر بھی اعتقاد رکھنے کا تذکرہ کیا ہے۔ یہاں بعض علماء کا تذکرہ کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں:
ابن جوزی (متوفی650ہجری): اس نے اپنی مشہور کتاب "تذکرۃ خواص الامۃ فی خصائص الائمہ علیھم السلام” میں الگ ایک فصل امام مہدی ؑ سے مختص کیا ہے اور مختلف جہات سے اس میں بحث کی گئی ہے، اس فصل کی ابتدا میں امام کا سلسلہ نسب بیان کرنے کے بعد اہل سنت منابع سے امام مہدیؑ کے حوالے سے روایات کو ذکر کیا ہے، پھر امام مہدی ؑ کے زندہ ہونے پر شیعہ نظریئے اور دلائل کو بیان کرنے کے بعد اسے منطقی اور قابل قبول قرار دیا ہے۔
ابن طولون دمشقی (متوفی935ہجری): یہ حدیث، فقہ اور تاریخ میں صاحب نظر شمار ہوتے ہیں، انہوں نے بھی مختلف موضوعات پر قلم فرسائی کی ہے، ان کی ایک کتاب "الائمہ الاشاعہ” ہے، اس کا ایک حصہ انھوں نے "الحجۃ المھدی” سے مختص کیا ہے، یہاں انہوں نے امام مہدیؑ کے حوالے سے بحث میں امام مہدیؑ کی ولادت اور آپ کے زندہ ہونے کا تذکرہ بھی کیا ہے۔
عبدالوہاب شعرانی (متوفی973ہجری): یہ اپنی کتاب "الیواقیت و الجواھر” میں امام مہدی ؑ کے حوالے سے یوں رقمطراز ہیں: وہ (امام مہدیؑ) امام عسکریؑ کے بیٹوں میں سے ہیں، ان کی ولادت نیمہ شعبان 255 ہجری کو ہوئی اور وہ عیسٰیؑ کی آمد تک زندہ رہیں گے۔
سلیمان بن ابراہیم قندوزی (متوفی1294ہجری): انھوں نے اپنی مشہور کتاب "ینابیع المودۃ” کو اہل بیتؑ کے فضائل کے بیان سے مختص کیا ہے، اس کا زیادہ تر حصہ امام مہدیؑ سے مربوط ابحاث پر مشتمل ہے، اس کتاب میں انھوں نے ان آیات کا بھی تذکرہ کیا ہے جن کی تاویل و تفسیر امام مہدیؑ سے مختص ہیں، علاوہ ازیں ان کے حوالے سے بہت ساری روایات کو مختلف منابع سے نقل کیا ہے، ساتھ ہی وہ روایات جن میں بارہ خلیفوں کا تذکرہ آیا ہے اور ان کے بارے میں جو تفصیلات بیان ہوئی ہیں، ان کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ موصوف نے اسی کتاب کے ایک اور باب میں امام ؑ سے جو خارق العادہ امور انجام پائے ہیں، ان کا تذکرہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان افراد کا بھی ذکر کیا ہے،جنہوں نے غیبت کے زمانے میں امام مہدی ؑسے ملاقات کی ہے۔
ابوالبرکات آلوسی (متوفی1371ہجری): انھوں نے اپنی کتاب "غایۃ المواعظ” میں قیامت واقع ہونے کی نشانیوں میں امام مہدی ؑ کے ظہور کو بھی ذکر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اکثر علماء اور دانشوروں کے نزدیک صحیح قول یہ ہے کہ امام مہدیؑ کا ظہور و خروج بھی ان نشانیوں میں سے ہیں۔
مالکی علما کی نگاہ میں امام مہدیؑ:اس فرقے کے علماء نے بھی دوسرے مذاہب کے علماء کی مانند ظہور و فرج امام مہدی کو اپنے اعتقادات کا حصہ قرار دیا ہے، ساتھ ہی اس بات پر بھی تاکید کی گئی ہے کہ یہ حقیقت و واقعیت تحریروں اور آثار میں مکمل طور پر نمایاں ہیں۔
قرطبی مالکی (متوفی671ہجری): ان کا شمار مشہور اہل سنت علماء اور اہل قلم میں ہوتا ہے، ان کی بہت ساری کتابیں ہیں، ان میں سے ایک "التذکرۃ فی احوال الموتی و امور الآخرۃ” ہے اس کتاب میں انہوں نے چند ابواب کو امام مہدیؑ سے مختص کیا ہے۔ انھوں نے اہل سنت منابع سے متعدد روایات کو امام مہدیؑ کے حوالے سے ذکر کیا ہے، ان احادیث میں سے بعض کی وضاحت میں انھوں نے خود بھی امام مہدی ؑ سے مربوط کچھ مطالب ذکر کئے ہیں۔ انھوں نے سورہ توبہ کی تینتیسویں آیت جس میں اللہ تعالٰی نے دین اسلام کے غلبے کا وعدہ دیا ہے، کی تفسیر میں اس زمانے کو امام زمانؑ کے ظہور کے زمانے سے تطبیق دی ہے۔
ابن صباغ مالکی (متوفی855ہجری): یہ اپنے زمانے کے مالکی فرقے کے بزرگ علماء میں سے ہیں۔ ان کی ایک کتاب "الفصول المھمۃ فی معرفۃ احوال” میں امام مہدیؑ کی شخصیت، ان کے ظہور کی کیفیت، ان کی تشکیل حکومت کا ذکر کرنے کے بعد ایسی شخصیت کی آمد کے حوالے سے تمام اسلامی مذاہب کے پیروکاروں کے معتقد ہونے کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کتاب کی بارہویں فصل میں انھوں نے امام ؑ کی شرح حال، ان کی خصوصیات کا تذکرہ کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف مباحث من جملہ امام مہدی ؑ کے حوالے سے متعدد احادیث ذکر کی ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ بھی امام مہدیؑ کی ولادت باسعادت اور ان کے قید حیات میں ہونے کے معتقد ہیں۔
شیخ محمد الصبان (متوفی1307ہجری): انھوں نے اپنی کتاب "اسعاف الراغبین” میں ایک باب امام مہدی ؑ سے مختص کیا ہے۔ اس میں انھوں نے امام کا نسب، محل ظہور اور ظہور کی نشانیوں کا تذکرہ کیا ہے، اس حوالے سے مختلف روایات کو ذکر کرنے کے علاوہ ان مطالب کی تائید میں محی الدین عربی اور شعرانی جیسے بزرگ علماء سے مختلف مطالب ذکر کئے ہیں۔
محمد بن جعفر بن ادریس الکتانی المالکی (متوفی1345ہجری): اپنی کتاب "نظم المتناثر من الحدیث المتواتر” جس میں متواتر احادیث کو جمع کیا گیا ہے، امام مہدیؑ سے مربوط روایات کو بھی متواتر احادیث میں سے قرار دینے کے علاوہ مشہور و معروف اہل سنت دانشوروں کے حوالوں کے ساتھ اس کی تائید بھی لائے ہیں، علاوہ ازیں وہ یہ بھی اعتقاد رکھتے ہیں کہ امام مہدیؑ کی آمد اور ظہور ان احادیث کی بنیاد پر واضح اور بدیہی ہے، ساتھ ہی جو وعدے ان روایات میں دیئے گئے ہیں، وہ بھی بدیہی حتمی ہیں۔(3)
ابن ابی ثلج بغدادی (326) کا کہنا ہے: محمد بن الحسن کی ولادت کے وقت حضرت عسکری نے فرمایا: دشمن مجھے قتل کرنے کے درپے تھے، تاکہ ہماری نسل ختم کرے، لیکن انھوں نے خدا کی طاقت کا مشاہدہ کیا اور اسے (امام مہدی کو) امید انسانیت قرار دیا۔ ائمہ کی مائیں والی فصل میں ان کا کہنا ہے کہ قائم کی ماں حکیمہ ہے، جسے نرجس اور سوسن کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ اس کے بعد لکھتے ہیں، محمد بن ہمام نے کہا: حکیمہ حضرت عسکری کی پھوپھی ہیں، اسی نے ہی صاحب الزمان کی ولادت کو نقل کیا ہے، ساتھ ہی اسی نے نقل کیا ہے کہ ان کی ماں "نرجس” ہے۔
علی بن حسین مسعودی (346م) کا کہنا ہے: ابو محمد حسن بن علی…بن حسین بن علی بن ابیطالب 260 ہجری کو خلافت معتمد کے زمانے میں 29 سال کی عمر میں وفات پاگئے، یہی مہدی منتظر، امامیہ کے بارہویں امام کے والد ہیں۔ ابوبکر خوارزمی (383م) نے اپنی کتاب مفاتیح العلوم میں امامیہ کے نزدیک ائمہ کی صفات کے باب میں لکھا ہے کہ علی مرتضٰی، حسن مجتبٰی، حسین سید الشہداء…حسن العسکری، محمد مہدی القائم المنتظر، شیعوں کے نزدیک نہ یہ مرا ہے اور نہ مرے گا، یہاں تک کہ یہ زمین کو ظلم وجور سے بھر جانے کے بعد عدل و انصاف سے بھر دے گا۔(4)
ان کے علاوہ عصر حاضر کے مشہور دانشور شیخ منصور علی ناصف جامعۃ الاظہر مصر نے "التاج” نامی کتاب میں اہلسنت کے صحاح ستہ کی روایات کی جمع آوری کی ہے، اس کتاب پر مصر کے صف اول کے پانچ علماء نے تقریظ بھی لکھی ہے اور غایۃ المامول کے نام سے اس کی شرح کو بھی ساتھ ذکر کیا ہے۔ اس کتاب کی پانچویں جلد میں صحاح ستہ میں امام زمان ؑ سے مربوط معتبر روایات کو اس عنوان کے ساتھ ذکر کیا ہے: "ساتویں فصل خلیفہ مہدی رضی اللہ عنہ کے بارے میں” اس کے بعد ان روایات کی شرح اس نے یوں کی ہے: گذشتہ اور موجودہ اہل سنت علماء کے ہاں یہ بات مشہور ہے کہ آخری زمانے میں سلالہ پیغمبر سے ایک ہستی "مہدی” کے نام سے ظہور کرے گی، اسلامی ممالک پر وہ مسلط ہوں گے، مسلمانوں کو چاہئے کہ ان کی پیروی کریں۔ مہدی لوگوں کے درمیان عدالت برقرار کریں گے اور دین اسلام کی حمایت کریں گے۔ ان کے ظہور کے بعد دجال بھی ظاہر ہوگا، عیسی ابن مریم آسمان سے اتر کر اسے قتل کرے گا، یا وہ مہدی کی مدد سے اسے قتل کرے گا۔ مہدی سے مربوط احادیث کو پیغمبر اکرمؐ کے برگزیدہ اصحاب میں سے ایک گروہ نے نقل کیا ہے، اور ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ، طبرانی، ابو یعلی، بزاز، امام احمد(بن حنبل) و حاکم (نیشاپوری) رضی اللہ عنہم اجمعین جیسے بڑے بڑے محدثین نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔(5)
غرض مہدویت ایک عالمگیر نظریہ ہے، بالخصوص تمام اسلامی مکاتب فکر میں یہ اعتقاد پایا جاتا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کی نسل سے ایک باعظمت ہستی نے آکر ظلم و جور کو عدل و انصاف میں بدل کر فطرت انسانی کے عین مطابق ایک خدائی نظام نافذ کرے گا، علماء قدیم و جدید میں سے تمام بڑے علماء نے اسے اپنے اعتقاد کا حصہ قرار دیا ہے، آج کے دور میں اگر کوئی مہدویت کا انکار کرے تو گویا اس کا اسلام سے کوئی تعلق ہی نہیں، ایسا شخص امام مہدی کے منکر ہونے کے ساتھ ساتھ تمام علماء و اسلاف کو جھٹلانے والا ہوگا۔
1۔ العہدالعتیق،ج5، ص92،انجیل لوقا، باب21، ناقل حضرت مہدی در روایات شیعہ و سنی، احمد علی طاہری ورسی، ص13
2۔ دانشمندان عامہ و مہدی موعود، علی دوانی، ص2
3۔ امام مہدی علیہ السلام در مذاہب چہارگانہ اہلسنت، پایگاہ اطلاع رسانی حوزہ، 1386، شمارہ91
4۔ دانشمندان عامہ، ایضاً
5۔ ایضاً