اپنانمبر معلوم کریں
شا ہ صاحب آپ نے اخبار میں ایک قوالی چھیڑی ہے۔اسی حوالے سے کچھ گزارشات پیش خدمت ہیں۔ قابل احترام سید مہدی شاہ صاحب۔۔آپ کے نام کے ساتھ لفظ سید آتا ہے۔۔۔۔یہ ایسا محترم و مکرم لفظ ہے کہ کسی مسلمان کے لئے ممکن نہیں کہ کسی مقام پر اس مقدس لفظ۔سید۔کی حرمت و تقدس سے غافل ہو۔۔۔۔اور ہر مومن و مسلمان بھی یہ چاہتا ہے کہ جس کے نسب کے ساتھ سید منسلک ہو وہ بھی اس کے تقدس کا خیال رکھے۔۔۔۔
مہدی شاہ صآحب۔آپ سیدہونے کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان کے سابق وزیر اعلی بھی رہ چکے ہیں۔گلگت بلتستان کے صف آول کے رہنما بھی ہیں۔الغرض ہر حوالے سے ہمارے لئے قابل احترام ہیں۔جسے اللہ نے عزت سے نوازا ہے اس کی عزت کرنا واجب ہے۔۔۔
۔شاھ صاحب آپ نے مدرسے اور کالج کی بحث شروع کر دی ہے حالانکہ سیئد ھونے کے ناطے آپ کے لئے مناسب نہ تھا کہ آپ اللہ کی کتاب قرآن حکیم اور رسول کی حدیث کے عالم کے لئے اس طرح کے الفاظ استعمال کریں ،سیدتو بہت اعلی مقام ہے کسی عام مسلمان کے شایان شان نہیں۔۔۔۔میں ورط حیرت میں ڈوبا ھوں کہ آپ کی سوچ کا گھوڑا اس قدر بے لگام ہو چکا ہے کہ آپ کائنات کی مقدس ترین کتاب کے حآفظ کو ایسے الفاظ سے یاد کر رہے ہیں کہ جس کا مسلمان تو کیا کوئی بھی انسان تصور تک نہیں کرسکتا۔۔۔۔شاھ صاحب مجھے اعتبار نہیں آتا کہ آپ اس حد تک جا سکتے ہیں کہ مدرسے کو تحقیر کی نظر سے اور کالج کو ارفع نظر سے دیکھنے لگے۔۔۔۔
علم علم ہے ہر علم کی اپنی اہمیت ہے اس سے انکار ممکن نہیں لیکن بحیثیت مسلمان دین کے علم اور دنیا کے علم میں ہم بہت فرق محسوس کرتے ہیں۔۔۔۔عالم دین کسی بھی مسلک کا ہو۔۔۔حا فظ قرآن کسی بھی فرقے کا ہو۔۔۔اس کے علم کی وجہ سے آپ مقام دیں یا نہ دیں اسے مقام اللہ نے عنایت کیا ہے کوئی اگر اس مقام کا احترام نہیں کرتا تو اس کی زات پر حرف ضرور آتا ہے۔۔۔۔۔
شاھ صاحب آپ نے مدرسے کی تحقیر کرنے۔کے بعد۔۔۔ایک نمبر اور دو نمبر کی بات کی ہے۔۔۔۔۔اس موقعہ پر کیا کہوں مجھے آپ کا نسب اس بات سے روک رہا ہے کہ میں کوئی ایسی بات کہہ دوں کہ لفظ سید کے تقدس پر حرف آئے۔۔۔۔اتنا ضرور کہوں گا کہ گلگت بلتستان کے ہر فرد کو اس بات کا ادراک ہے کہ وزیر اعلی گلگت بلتستان حفیظ الرحمن کس نمبر پر فائز ہیں اور عوام نے آپ کو کیا نمبر دیا ہے۔نمبروں کے اس کھیل کا آغاز کریں گے تو ماضی کی تمام کھڑکیاں کھل سکتی ہے اس میں عوام دیکھیں گے کہ آپ کا کیا نمبر ہے اور حفیظ الرحمن کا کیا نمبر ہے۔۔۔۔شاھ صاحب دل بہت کرتا ہے کہ۔سارے آنکڑے کھول کر بیان کروں لیکن کیا ہے۔کہ۔۔آپ کا نسب اور مقدس لفظ۔۔سید مجھے روک رہاہے۔۔۔۔۔نمبروں کی کہانی گلگت بلتستان کے عوام کو زبانی ےآد ہے۔۔۔۔آپ کے نمبر وں کا کیا کہنا۔۔۔۔۔۔۔اس گھتی کو میرے خیال میں فی الحال کھولنا مناسب نہیں۔۔۔۔۔۔آگے آپ نے بات کی کہ میں نے لوگوں کو نوکریاں دیں۔۔۔۔آپ سچ کہہ رہے ہیں آپ نے نوکریوں کی فروخت کا عالمی ریکارڑ قائم کر دیا تھا آپ نے پورے پانچ برس۔کاچو فیاض اور علی مدد شیر کو مصروف رکھا جنہوں نے نوکریوں کی فروخت کی مارکیٹنگ کا فریضہ خوبسھنبالا۔۔بلکہ آپ کا اور آپ کے فرنٹ مینوں کا نام گینز بک آف ورلڈ کا حصہ بننا چاہئیے۔دوسری پاس کو بھی چودہ سکیل میں کا ٹیچر لگا دیا۔۔۔آپ کا نوکریؤں کی کامیاب بولی والا کارنامہ قوم صدیوں ےآد رکھے گی۔۔۔۔۔شاھ صاحب نے آپ نے سچ کہا آپ نے۔پانچ برس آرام سے گزار دیئے۔ہاں البتہ نوکریوں کی فروخت میں بہت محنت کی۔۔۔اسی لئے نہ آپ کو گلگت میں امن قائم کرنے کا موقعہ ملا تو نہ پورے گلگت بلتستان میں کوئی منصوبہ تو درکنار ایک کلوٹ بھی تعمیر نہیں کر سکے۔۔سکردو روڈ تو آپ کے دور میں موٹر وے کی طرح تھا اس لئے اس پر توجہ دینے کی ضرورت نہ رہی۔۔۔حفیظ الرحمن کو نہ معلوم کیا ہوا کہ سکردو روڑ پر کام شروع کر دیا۔بلتستان یونیورسٹی بنا دیا۔بلتستان میں تاریخ کے بڑے منصوبے شروع کروائے۔۔۔گلگت بلتستان کی تاریخ کے سب سے بڑے منصوبوں پر کام شروع کروا دیا۔گلگت میں امن قائم کر دیا۔سیاحت کو عروج پر پہنچا دیا۔۔تعلیمی شعبے میں انقلابی تبدیلیاں لائیں۔۔صحت کے شعبے کی خامیوں کو دور کر دیا۔۔۔۔ایک سو چھبیس ارب کے پی ایس ڈی پی کے منصبوں پر کام کا آغاز کر دیا۔۔۔جی بی کے تمام اضلاع میں ویسٹ منیجمنٹ کمپنی کا آغاز کر دیا۔۔۔میرٹ کو یقینی۔بنایا۔۔۔الغرض وزیر اعلی حفیظ الرحمن کو ایک پل چین نہیں روز کسی نہ کسی ترقیاتی منصوبے پر کام کا آغاز کرا دیتے ہیں۔نہیں معلوم انہیں کیا ہوا ہے کہ دن رات کام کام اور بس کام کرتے ہیں۔انہیں کون سمجھائے شاھ صاحب آپ کی طرح پورے پانچ برس عیاشی اور مستی میں گزار سکتے تھے۔اور کچھ نہیں تو آپ۔کی طرح نوکریوں کی۔منڈی لگاتے تو بھی ٹائم گزر سکتا تھا لیکن مسئلہ یہ ہے شاھ صاحب بقول آپ کے حفیظ الرحمن کالج سے نہیں پڑھے اگر کالج سے پڑھتے تو آپ کی طرح موج مستی کرتے۔عیش عشرت کرتے۔عوام کے حال سے بے خبر ھو کر آقتدار کی رنگینیوں میں گم ہوتے۔۔۔یہ مدرسے کی تعلیم کا خمیازہ بھگت رہے ہیں کہ خوف خدا انہیں ایک پل چین سے رہنے نہیں دیتا ہر وقت ایک ہی دھن سوار رہتی ہے کہ کل روز قیامت اللہ کو جواب دہ ہونا ہے اس لئے عوام کی خدمت نہیں کریں گے تو پکڑ ھوگی۔۔حفیظ الرحمن کہتے ہیں کہ ایک ایک پل۔کا حسآب دینا ہے اللہ کو۔اللہ نے مجھے عوام کا خادم بنایا ہے تو خدمت ہی کرنی ہے۔شاھ صاحب آپ سچ کہتے ہیں یہ مدرسے کی تعلیم کا نتیجہ ہے کہ حفیظ الرحمن آپ کی طرح نوکریوں کی فروخت اور ڈٹ کر عیاشی نہیں کر سکتے۔ہر وقت آن کے دل و دماغ پر عوام کی خدمت کا بھوت سوار ہے۔شاھ صاحب آپ کی طرح کالج سے سند یافتہ ہوتے تو حفیظ الرحمن بھی آقتدار کو عیاشی کا سامان بنا دیتے اور عوام حفیظ الرحمن کو بھی آپ والا نمبر دیتے۔ویسے شاھ صاحب آپ کو آپنا نمبر معلوم ہوگا۔معلوم نہیں تو بھیس بدل کر شہر کا ایک چکر لگائیں تو آپ کو آپ کا نمبر بھی معلوم ہوگا۔۔شاھ صاحب میرے خیال میں نمبروں والی کہانی کو یہی ختم کر دیتے ہیں۔۔سمجھ تو آپ گئے ھوں گے۔امید ہے کہ میری کسی بات کو دل پر نہیں لیں گے۔جس طرح آپ نے آخبار میں ایک بے سری قوالی گائی ہے میں نے بھی جواب میں عزیز میاں کی طرح تھوڑی طویل قوالی گائی۔۔۔آپ کو پسند آئی ھوگی۔۔۔۔باقی آپ ہمارے محترم ہیں۔بحیثیت سیئد تو آپ کا احترام لازم ہے لیکن بحیثیت سابق وزیر اعلی بھی آپ قابل احترام ہیں۔۔۔۔اب ایک نمبر اور دو نمبر کا فیصلہ عوام پر چھوڑتے ہیں۔۔بلکہ عوام نمبر بہت پہلے دے بھی چکے ہیں شاھ صاحب آپ خود عوامی حلقوں سے آپنا نمبر معلوم کریں۔۔۔۔وسلام۔۔۔