گلگت بلتستان کی پکار: میں بھی پاکستانی ہو مجھے بھی میرا حق چاہے
تحریر: شاہ نصیر رش
خطہ آرض مملکت خداداد پاکستان کے شمال میں حسن و جمال اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے گلگت بلتستان کا جنت نظیر خطہ واقع ہے ,گلگت بلتستان تہذیب و ثقافت کے لحاذ سے اپنا ہی ایک پہچان رکھتا ہے ,کہی ندی نالے تو کہی پہاڑی علاقہ جو دروں اور گھاٹیوں کے سبب پزیرائی کے قابل بنا۔
ساتویں صدی سے لے کے انیسویں صدی کے درمیان مختلف خاندانوں نے گلگت بلتستان میں اپنا سکہ جمائے ہوئے تھے ان میں گلگت کے تراخان، نگر کے مغلوٹ، ہنزہ کے عیاشو، پونیال کے بروشے، یاسین کے خوش وقت ، سکردو کے مقپون ، شگر کے انچن اور خپلو کے یبگو زیادہ مشہور تھے جبکہ چلاس داریل تانگیر میں جرگہ سسٹم تھا۔
1890 میں ڈوگروں نے اس علاقے پے اپنا قبضہ جمایا ۔حکمت برطانیہ نے 1935 کو میر اف ہنزہ کے غداری کے شک میں یہاں پے کرنل ڈیورنڈ کو پولیٹیکل ایجنٹ مقرر کیا۔بعد میں جب تقسیم ہند ہوا تو یہی علاقہ مہاراجہ کے حوالہ کر دیا گیا۔ پاکستان کی آزادی کے بعد 1948 کو گلگت بلتستان کے لوگوں نے علم بغات کو بلند کر کے بریگیڈر گھنسارا سنگھ کو کرفتار کرکے سترہ دن تک راجہ شاہ رئس خان کے زیر سربراہی میں ایک آزاد ریاست کہ شکل میں رکھ کے وطن عزیز پاکستان کے ساتھ الحاق کر دئے۔ ایک طرف سے یہ حصہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان متنازعہ نوعیت کا سبب بنے لگا ۔
چنانچہ یکم جنوری 1948 کو تنازعہ مسلہ کشمیر لیکر اقوام متحدہ (چیپٹر 6آرٹیکل 34) پہنچا جس کے لپیٹ میں گلگت بلتستان بھی آگیا۔اور ساتھ ہی ساتھ گلگت بلتستان کے عدالتی اور انتظامی حوالے سے تبدیلیاں آتے گئے یہی سے داستان عشق شروع ہوا ہے اس راہ روی کے پہلے نام ہے جناب سردار عالم خان جس نے 13 دسمبر 1948 کو پولیٹیکل ایجنٹ کے طور پے علاقے کا نظم ونسق سنبھال لیا۔ اور تمام انتظامی و عدالتی اختیارات اس فرد واحد کو حاصل تھا۔ کہانی کا رخ 28 اپریل 1949 میں آکے تبدیل ہونے لگا جب گلگت بلتستان کے فیصلہ کشمیر کے سردار ابراہم خان اور چوہدری غلام عباس حکومت پاکستان کے نمائیندہ مشتاق گورمانی کے ساتھ معاہدہ کراچی کے نام سے کیا۔
معاہدہ کراچی کے بعد 1960 می صدر ایوب خان نے گلگت بیسیک ڈیموکریٹیک نام سے ایک نظام متعارف کرویا جو کہ 1971 تک رہا 1971 میں محترم جناب زوالفقار علی بھٹو نے ایف سی آر یعنی خیبر پختون خواہ انتظام کو ختم کر کے بادشاہ سلامت پولیٹیکل ایجنٹ کو برقرار رکھا 1975 کو ایک بار پھر بھٹو صاحب نے ناردرن ایڈوائزر کونسل قائم کیا جس میں اٹھ ممبر GB کے اور اٹھ وفاق سے اور کونسل کے چیف وزیر امور کشمیر و شمالی علاقہ جات کو بنایا۔ یہ تسلسل جاری رہا 1981 کے بعد اس تسلسل پہلے کی نسبت میں کافی بہتری دیکھنے کو ملے ۔1981 کو ضیا الحق صاحب نے ناردرن ایریاز میں سیٹزن شیپ ایکٹ لگایا۔ کچھ عرصہ بعد 1994 میں بنظیر بھٹو نے گورنینس آرڈر دیا ساتھ ہی ساتھ 1999 میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ رکنی بنچ نے فیصلہ صادر کیا گلگت بلتستان کے لوگوں کو بھی پاکستان کے شہری تسلیم کیا جائے۔
سپریم کورڈ کے پانچ رکنی بنچ کے فیصلہ پے کوئی عملدرامد نہ ہو پایا چنانچہ 2000 میں مشرف نے ڈپٹی چیف ایگزیکٹیو اور سپیکر کا عہدہ متعارف کروایا اور ساتھ کونسل کو بھی آٹے میں نمک کے برابر اختیارات نصیب ہوئے۔ 2007 میں ایک بار پھر سے مشرف نے کچھ ترمیم کیا قانون ساز کونسل کا نام قانون ساز اسمبلی رکھا گیا ساتھ ہی چیف ایگزیکٹو کا عہدہ بھی قیام عمل میں لایا
قارئین کرام گلگت بلتستان سیلف گورننس آرڈیننس کی بات کرئے تو 2009 کو گلگت بلتستان کی تاریخ میں ایک لولا لنگھڑا سا نظام پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے نوازا گیا جس میں برائے نام ایک اسمبلی اور کونسل تو قیام عمل میں لایا لیکن یہ بھی پچھلے 70 سالوں کی طرح ایک لولی پاپ تھا فرق بس اتنا کہ اس بار لولی پاپ رنگ میں الگ ۔
دور حاضر میں گلگت بلتستان میں پاکستان مسلم لیک نواز کی طوطی بولی جاتی۔ بہت سر گرم تھے گلگت بلتستان کے آئینی اصلاحات کے حوالے سے کبھی سرتاج عزیز کی سبراہی میں اجلاس تو کبھی وزیر اعظم پاکستان کے زیر نگرانی لیکن حالیہ آرڈر 2018 کے کچھ خبریں عوامی حلقوں میں گردش کر رہے اس تو یہ ظاہر ہو رہا ہے انہوں نے بھی GB کے لوگوں کو بےقوف بنا کے ایک دفعہ پھر سے لولی پاپ تھما دئے ہیں۔
تاریخ کے ان تمام حقائق سے یہ بات ظاہر ہوتی کہ ستر سالوں سے گلگت بلتستان کے عوام کو سوائے لولی پاپ کے کچھ نہی دیا گیا یقینا اس ہٹ درمی کے پیچھے پاکستان کے سیاسی ارباب اختیار کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان کے عوام بھی شامل حال ہے انہوں نے مسلکی ,فروی ,علاقے اور لسانی تعصب سے باہر نکلنے کے ضرورت ہی محسوس نہی کیے ۔
لیکن خوشی اس بات کی ہے موجودہ حالات میں گلگت بلتستان کے عوام ایک پیج پے متحد ہوئے ہیں تمام تر اختلافات سے بالا تر ہو کے سب کا مشترکہ آواز ہے گلگت بلتستان کے عوام کو ان کا آئینی حق دیا جائے ۔70 سالوں ںسے ہمیں بنیادی حقوق سے محروم رکھاگیا ہے مزید یہ بوجھ ہم سے آٹھایا نہی جاتا ۔
کچھ عقل کے آندھے جب بھی GB کے حقوق کی بات آتی تو کہتے اس سے تو مسلہ کشمیر پے اثر پڑے گا آرے عقل کے بادشاہو ! آزاد کشمیر کے نظام سے مسلہ کشمیر کو کوئی فرق نہی پڑتا ہے تو گلگت بلتستان کے عوام کو ان کا حق دینے سے بھی قیامت نہی آئے گی۔ قصہ مختصر ہر حال میں ہمیں ہماری شناخت دیا جائے ۔
پاکستان زندہ باد
گلگت بلتستان پائیندہ باد