رمضان اور آج کا مسلمان
تحریر: حمیرہ علی
یونیورسٹی سے تھکی ہاری ہاسٹل پہنچ گی تو حالت جواب دے گئی تھی- دل کر رہا تھا کہ بستہ سمیت ہی بستر پہ لیٹ جاوؑں- تھوڑی ہمت کر پانی پی لیا۔ کچھ دیر سستانے کے بعد بھوک کا احساس ہوا تو کچھ کھانے کی نیت سے پھلوں کی ٹوکری پر نظر ڈالی ، جو خالی پڑی تھی- تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد پھل خریدنے کی غرض سے بازار کا رخ کیا-
بازار پہنچ کر دکاندار بھائی سے سیب کی قیمت دریافت کی تو انہوں نے ایک ایسا جملہ بول دیا جو مجھے ناگزیر گزرا اور مجھے سوچھنے پر مجبور کر دیا- میرے پوچھنے پر دکاندار کا کہنا تھا کہ ‘باجی! رمضان کا مہینہ قریب ھے تو چیزوں کے دام بھی بڑھ گۓ ہیں”- دکاندار سے بحث کۓ بغیرآدھا کلو سیب لے کر میں ہاسٹل کی طرف نکل پڑی- ہوسٹل پہنچے تک یہ جملہ میرے ذہن میں گھومتا رہا کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کیا رمضان مبارک اجناس کی قیمت بڑھا کر منافع خوری کا موقع ہے یا زندگی کے ہر شعبے میں عدل، انصاف اور انکسار کا؟ کیا روزہ محض فاقہ کشی ہے؟ کیا لوگ واقعی میں اس مقدس مہینے کی فضیلت اور اہمیت سے آگاہ نہیں ہیں ؟ یا پھر سب جان کر بھی انجان بن رہے ہیں- اسی طرح کے ہزاروں سوالات میرے ذہن میں گردش کرنے لگے-
ہاسٹل پہنچتے ہی میں نے پھل ٹوکری میں رکھ دۓ اور کرسی پر بیٹھ گی- اچانک ہی دل میں ایک خیال آیا کہ بحثیت مسلمان میرے لۓ رمضان المبارک کی کیا اہمیت ہے؟ جب سے ہوش سنبھالا ہے اپنے بزرگوں سے یہ سنا ہے اور بہت ساری کتابوں میں یہ پڑھا یے کہ رمضان ایک مقدس مہینہ یے، یہ عبادت کا مہینہ یے، اور یہ گناہوں کی بخشیش کا مہینہ یے- حدیث مبارک میں یے کہ ‘رمضان شہر اللہ” یعنی رمضان اللہ کا مہینہ یے- اس حدیث مبارک سے رمضان کی اہمیت واضح ہوجاتی یے- لیکین آج اسلامی معاشرے میں نظر ڈالی جاۓ تو مایوسی ہوجاتی ہے- مسلمان رمضان کریم کو اپنی عملی زندگی میں صرف ایک رسم کا درجہ دے چکا ہے- آج کے مسلمان کے لۓ ماہ رمضان کا مطلب صرف بھوکے اور پیاسے رہنا ہے-
اسلام عقل کا دین ہے اور اسی عقل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ عطا کیا ہے- اگر ہم اہک لمحے کے لے یہ سوچے کہ آخر اس بھوکے اور پیاسے رہنے کا کیا مطلب ہے؟ جو عبادات اس ماہ میں کی جاتی ہیں وہ ذیادہ عظیم اور افظل ترین کیوں ہیں؟ اور کیوں اس مہینے کواللہ کا مہینہ کہا جاتا ہے؟؟
جب ایک مسلمان کی حیثیت سے میں ان سوالوں پہ غور کرتی ہوں تو مجھے یہ سمجھ آتا یے کہ یہ مبارک مہینہ صبر اور شکر کرنے کا مہینہ ہے- مسلمان اس پورے ماہ میں روزے رکھتے ہیں، بھوکے پیاسے رہتے ہیں یہ عمل اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار رحمتوں سے نوازا ہے اور اسی کے ساتھ اس بات کا بھی احساس ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی اس دنیا میں ایسے لوگ بھی رہتے ہیں جو پورے بارہ مہینے روزہ رکھتے ہیں کیوں کہ انہیں صرف دو وقت کی روٹی نصیب ہوتی ہے- جب انسان کو اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے تو انسان شکر الہٰی میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتا اور دل میں یہ مصمم ارادہ کر لیتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اس مخلوق کی مدد کریگا- کیوں کہ خدمت خلق سب سے بڑی عبادت ہے-
کیا ہر انسان ایسا سوچتا ہے؟ کیا انسان نے اس بات پر غور کیا ہے کہ روزہ صرف فاقہ کشی کا نام نہیں بلکہ اس کا اصل مطلب ہے کہ ایک مسلمان کی زبان سے کسی دوسرے کے لۓ ناشاٰئستہ الفاظ نہ نکلے، اس کے ہاتھوں کسی کا نقصان نہ ہو، وہ کسی کا حق نہ چھین لے اور اپنے دل میں کسی کے لے برا نہ سوچے، اپنی آنکھ سے کسی پہ بری نگاہ نہ ڈالیں اور یہاں تک کہ اس کی وجہ سے کسی جانور تک کو نقصان نہ پنہچے- اگر انسان خودکو ان تمام برے کاموں سے پاک رکھ کر سچے دل سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں اور روزے رکھے تو وہ صحیح معنوں میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کر لیتا ہے اور اپنی دنیا اور آخرت دونوں ہی سنوار لیتا ہے-
لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ مسلمان صرف نام کا مسلمان رہ گیا ہے- جہاں ماہ رمضان کا مقصد دوسروں کو آرام اور سکون پہنچانا ہے وہاں کم آمدنی والے لوگ مہنگائی کی وجہ سے سحری اور افطاری میں سوکھی روٹی اور پانی سے گزارا کر لیتے ہیں تو دوسری طرف ایسے لوگ بھی ہیں جن کے دسترخوان طرح طرح کے کھانوں سے سجے ہوتے ہیں- کاش ایسا ہوتا کہ ان لذیز کھانوں سے بھری ہوئی دسترخوان کا کچھ حصہ بچا کر ایک غریب گھرانے میں دیا جاتا اور انہں بھی اپنی خوشی میں شامل کیا جاتا تو اسلام کے تعلیمات کی پاسیداری ہوجاتی جیسے کیہ فرمایا گیا ہے ‘ کہ مسلمان وہ ہے جو اپنے مسلمان بھائی کے لۓ بھی وہ پسند کریں جو وہ اپنے لۓ پسند کرتا ہے-
ہم نے رمضان کریم اور اس کی فضیلت کو صرف مسواک کرنے، سُرمہ لگانے اور بھوکے پیاسے رہنے کی حد تک محدود رکھا ہے-ضرورت اب اس امر کی ہے کہ تمام مسلمان یہ بات جان لے کہ مسلمان کے لۓ سال کے بارہ مہینے کا روزہ ہوتا ہے- یہ ایک مسلمان کی ہاتھ کا روزہ، آنکھ کا روزہ، اور زباں کا روزہ ہے- اگر ہم یہ بات جان لیں اور اپنی عملی زندگی کا حصہ بنالے تو یہ دنیا امن کا گہوارہ بن جاۓ گا-