گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت
گلگت بلتستان ارض شمال کا خطہ عظیم ہے جس کے دس بڑے اضلاع اس بات کا ثبوت دیتے ہیں کہ گلگت بلتستان ایک زندہ و جاوید قوم کا مسکن ہے۔ گلگت بلتستان کی عظیم ثقافت کی بات کی جائے تو نہایت ہی دلفریب اور منفرد ہے۔ یہاں کی تمام تر قدرتی رنگینیاں ایک منہ بولتا ثبوت ہیں کہ گلگت بلتستان سیاحت کے لحاظ سے کسی سے ہٹ کے نہیں۔ گلگت بلتستان کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو یہ وجود پاکستان کے تین ماہ بعد معرض وجود میں آیا اس سے پہلے یہ ڈوگرہ راج کی سامراجیت کے زیر سایہ تھا لیکن آذادی کے متوالوں نے ڈنڈوں اور کلہاڑیوں کے زور سے ڈوگرہ راج سے نجات دلا کر بالآخر یکم نومبر 1947ء کو گلگت بلتستان کو آذاد کروایا۔ گلگت بلتستان 15 دنوں تک بلکل آذاد رہا مگر سولہویں دن کا سورج طلوع ہونے کے ساتھ ہی ادھر سے ہمارے پیارے ملک پاکستان سے ایک وفد آیا اور ادھر انڈیا سے بھی ایک وفد آیا جس میں الحاق کے معاملے کو گلگت بلتستان کے ہیروز کے سامنے رکھ دیا گیا۔ اس وقت گلگت بلتستان کے ہیروز نے بغیر سوچے سمجھے پاکستان کے ساتھ الحاق کو قبول کیا کیوں کہ پاکستان ایک عظیم اور آذاد مسلم ملک ہونے کی وجہ سے الحاق کرنا پڑا۔ افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ وقت الحاق سے تا حال گلگت بلتستان آئین پاکستان کے کسی دائرہ کار میں نہیں لایا جاتا ہے۔ ہر وہ شخص جو گلگت بلتستان کے لئے صدائے حق بلند کرتا ہے اسکو غدار کی سند کے ساتھ پابند سلاسل کرتے ہوئے اس کا نام و نشان صفہ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے جوکہ ایک دلیر اور غیور قوم کے لئے ناقابل برداشت ہے۔ آج ایک سرغنہ اور بدنام زمانہ سیاسی جماعت کا یہ دعوی ہے اور یہ رٹ لگائی ہوئی گھومتی ہے کہ ہم نے گلگت بلتستان میں امن وامان کی فضا قائم کی ہے۔ نہیں ایسا ہرگز نہیں یہ سراسر جھوٹ ہے یہ سارا کا سارا ایک ٹوپی ڈرامے سے کچھ کم نہیں یہ تو عوام کو گمراہ کرنے کا ایک بہانہ ہے۔ آج گلگت بلتستان میں امن قائم کرنے کا سارا کا سارا سہرا گلگت بلتستان کی واحد عوامی نمائندہ جماعت کے سر جاتا ہے جو کہ تمام تر مسلکی، قومیتی، اور سیاسی خرافات سے پاک ہے۔ وہ جماعت کسی تعارف کی محتاج نہیں جس کا نام عوامی ایکشن کمیٹی مشہور و معروف ہے۔ جس کے مرہون منت آج گلگت بلتستان کی سرزمین میں امن وامان کی فضا قائم ہوئی۔ جس کی مدد سے لوگ آج ایک صف میں کھڑے ہوکر ایک دوسروں کے قریب آنے لگے ہیں۔ عوامی ایکشن کمیٹی کے کاموں کے بارے میں تذکرہ نہیں کیا جائے تو یہ سراسر زیادتی ہوگی اور احسان فراموشی ہوگی کیوں کہ وہ گلگت بلتستان کی واحد عوامی نمائندہ جماعت ہے جو ہر وقت گلگت بلتستان میں ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھانے میں کوشاں رہتی ہے۔ چاہے وہ آئینی حقوق کی بات ہو، چاہے وہ ٹیکس کے خلاف ہو، چاہے وہ رشوت خوری کی بات ہو ہر جگہ اور ہر وقت نظر ثانی کرنے میں کبھی کوتاہی نہیں برتتی ہے۔
گزشتہ چند دنوں سے گلگت بلتستان میں ایک نام نہاد آرڈر عوام کے سروں میں منڈلا رہا ہے جو جی۔ بی آرڈر کے نام سے مسلط کیا گیا ہے جس میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ گلگت بلتستان کو اپنے فیصلے کرنے کی کوئی گنجائش نہیں اور اس میں صاف صاف واضح کیا گیا ہے کہ گلگت بلتستان کی حکومت پاکستان کے وزیر اعظم کی ہدایت کی پابند ہوگی اور ٹیکس نافذ کرنے کے لئے قانون کا سہارا لیا جائے گا اور پہلے سے قانونی طور پر نافذ کردہ تمام ٹیکس برقرار رہینگے۔ یہ آخر کیسا المیہ ہے جس میں ایک صوبائی حثیت رکھنے والا خطہ اپنی قسمت کے فیصلے خود نہیں کر سکتا۔ گلگت بلتستان کی عوام پر ہر وقت مظالم ڈھانے کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی انداز سے ہراساں کرتے ہوئے ان پر بےجا قانون کو مسلط کر دیا جاتا ہے۔ کبھی جی۔ بی۔ کونسل کے نام سے لولی پوپ دی جاتی ہے تو کبھی صوبائی سیٹ اپ کے خیالات جگا کر عوام کو گمراہ کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے آج عوام سراپا احتجاج ہے۔
گلگت بلتستان کی غیور عوام کو کسی نہ کسی مسئلے میں ہر وقت الجھایا جاتا ہے۔ کبھی بے جا زمینوں پر قبضہ تو کبھی ٹیکس کے نام سے دھمکایا جاتا ہے۔ حکومت وقت گلگت بلتستان سے کیا چاہتی ہے اگر گلگت بلتستان کی عوامی طاقت چاہیے تو گلگت بلتستان کے تمام مطالبات کو بروئے کار لا کر اس خطے شمال کو نقشے پاکستان میں صحیح معنوں میں لائے اور مکمل آئینی طرز کا سیٹ اپ دیا جائے۔ لیکن یہ گلگت بلتستان کی عوام کے لئے بہت مشکل ثابت ہوگا کہ وہ سنبھل جائیں۔
وجود پاکستان سے تاحال تمام محاذوں کی حفاظت میں ہمارے گلگت بلتستان ہی کے جوان معمور ہیں۔ اگر گلگت بلتستان کے تمام اضلاع کا دورہ کیا جائے تو ہر قبرستان میں پاکستان کے سبز ہلالی پرچم لہراتے ہوئے نظر آیئنگے اس سے یہ بخوبی علم ہوتا ہے کہ یہ ایک ایسی غیور اور وفادار قوم کے جوان زمین تلے دفن ہیں جنہوں نے مادر وطن پاکستان کے لئے اپنی جان کے نظرانے پیش کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ گلگت بلتستان کی غیور عوام کے دلوں میں اپنے وطن کے لئے کتنی محبت ہے مگر افسوس صد افسوس ہمارے جذبات کی کوئی قدر نہیں۔
ٹیکس اور بے جا زمینوں پر قبضے کی بات کی جائے تو گلگت بلتستان کی عوام ٹیکس دینے کو بلکل بھی تیار نہیں کیوں کہ ٹیکس تو اس خطے میں نافذ کیا جاتا جو مکمل طور پر آذاد مانا جاتا ہے مگر یہاں تو گلگت بلتستان کو متنازعہ اور غیر آئینی تسلیم کیا جارہا۔ یہ کہاں کا انصاف ہے جو آذاد بھی نہیں مانا جاتا ہے اور ٹیکس بھی لیا جائے۔ گلگت بلتستان کی عوام کا یہ عظیم مطالبہ ہے کہ اگر خدانخواستہ ٹیکس کا نفاذ ہو بھی تو یاد رکھا جائے یہ نافذ شدہ ٹیکس گلگت بلتستان میں ہی خرچ کیا جائے۔ اور رہی بات گلگت بلتستان کی زمین کی تو یہ کوئی خالصہ سرکار نہیں جو گلگت بلتستان کی غیور عوام سے چھین لی جائے اس میں ہمارے آباؤ اجداد کے خون کے قطرے شامل ہیں۔ اس بات سے کوئی بھی شخص اتفاق نہیں کرتا کہ اغیار آکر ہماری زمینوں کو بےجا طور پر ہتھیا کر قبضہ جما لے۔ گلگت بلتستان کی زمینوں پر قبضہ ہوتا دیکھ کر عوام کے ذہنوں میں ایک ہی سوال آتا ہے کہ آخر کیوں قبضہ کیا جارہا اسکی وجہ کیا ہے؟ اس پر ایک ہی جواب ملتا ہے کہ آپکی زمین سی۔ پیک کی ذد میں آنے والی ہے۔ یہاں پر ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سی۔ پیک کیا ہے آیاں سی۔ پیک گلگت بلتستان کے لئے فائدہ مند ہے یا یہ گلگت بلتستان کی عوام کو بے گھر کرنے کے لئے بنایا جارہا ہے کہ بہتر سرمایہ کاری کے لئے؟ مگر یہاں پہ ستم ظرفی یہ ہے کہ گلگت بلتستان آئینی حقوق کی محرومی کے ساتھ ساتھ سی۔ پیک کے فوائد سے بھی محروم ہے۔ سی۔ پیک کا ڈھنڈھورا تو پوری دنیا میں پیٹا جا رہا ہے مگر ستم بالائے ستم یہ ہے کہ آج گلگت بلتستان کے سینے کو چاق کرتے ہوئے سی۔ پیک تو گزار رہا ہے مگر اس خطے کی قسمت میں کہاں کہ سی۔ پیک میں نمائندگی ملے سوائے دھواں کے جو ہر عام و خاص شخص کی قسمت کا مقدر بنے گا۔
اور آج اگر گلگت بلتستان کی سیاحت کی بات کی جائے تو K2، نانگاپربت اور تمام دیگر سیاحتی مقامات کو ملک عزیز پاکستان اپنا مان لیتا ہے مگر آئینی حقوق کی بات کی جائے تو انکار کیا جاتاہے کہ گلگت بلتستان متنازعہ علاقہ ہے اور پاکستان کا حصہ نہیں۔ یہ کیسی ناانصافی ہے کہ گلگت بلتستان پاکستان کے ساتھ الحاق شدہ ہونے کے باوجود آئینی حقوق سے محروم ہے۔
چند دن قبل ایک عظیم و شان سیمینار جو کہ آئینی حیثیت کے نام سے منعقد کیا گیا جس میں مقررین کے واضح الفاظ تھے کہ آیاں گلگت بلتستان کی زمین چاہیے یا مکین چاہیے اگر زمین چاہیے تو بھول جائے اور اگر مکین چاہیے تو ہم سے رابطہ کریں۔ یہ دو ٹوک الفاظ حکومت وقت کے لئے کافی ہیں اس سے حکومت کو یہ نتیجہ اخذ کرنا چاہیے کہ گلگت بلتستان کی عوام اب جاگ گئی ہےاب نہیں چلے گا کوئی ظلم۔ کوئی جبر کوئی استبداد کیونکہ گلگت بلتستان کے مکین ایک ایسی خصوصیت رکھتے ہیں کہ وہ اپنے سروں کو کٹوا تو سکتے ہیں مگر مادر وطن پاکستان کے نام پر آنچ نہیں آنے دیتے۔ اور یہ بات بھی اس تقریب میں گوشگزار کی گئی کہ ہم ابھی فریاد کر رہے ہیں کہ ہمیں آئینی حقوق دو اگر آئینی حقوق نہیں دیتے تو اس دن سے ڈرو جس دن ہم آئینی حقوق مانگنا ہی چھوڑ دینگے۔
حکومت پاکستان سے گلگت بلتستان کا مطالبہ بارہا ہے کہ گلگت بلتستان کو آئینی حقوق کے ساتھ ساتھ قانونی طور پر حق دیا جائے کہ وہ اپنی قسمت کے فیصلے خود کرے۔
سی۔ پیک جو آج سرمایہ کاری کا ذریعہ مانا جاتا ہے اس میں گلگت بلتستان کو شامل ہونےمیں مکمل حق دیا جائے۔
گلگت بلتستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے مگر گلگت بلتستان کو مسئلہ کشمیر کے حل تک اپنے قدرتی وسائل کو بروئے کار لانے میں مکمل طور پر آذادی دی جائے۔