جی جی ایچ ایس بمبوریت میں تعلیمی عمل کا آغاز
تعلیم ترقی کا پہلا زینہ ہے ۔۔زندہ قوموں کی ابتدا ء تعلیم سے شروع ہوتی ہے اور انتہا تعلیم ہے ۔۔مسلم اُمت کی ابتداء لفظ’’ اقراء‘‘ سے ہوئی اور علم کو اس کی کھوئی ہوئی میراث قرار دیا گیا ۔۔فلاحی ریاست کا فرض ہے کہ وہ قوم کو ممکنہ بہتر تعلیمی ماحول مہیا کرے اور ممکنہ سہولیات سے نوازے ۔وطن عزیز میں ابھی تک یہ تشنگی ہے کہ بہتر تعلیمی ماحول قوم کو مہیا نہیں کی گئی ۔طبقاتی تعلیم ۔طبقاتی نظام تعلیم ۔اونچ نیچ ۔نصاب کا اختلاف۔۔اداروں میں سرگرمیوں میں فرق ۔ایک قوم کہنے والے حکمران اسی قوم کی تربیت مختلف انداز سے کرتے ہیں اور دعویٰ بہترین حکمرانی کا کرتے ہیں ۔۔ہمارے پسماندہ علاقوں میں تعلیمی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں ۔۔پھر بھی ماشااللہ سے کچھ کام ہو رہا ہے ۔۔کم از کم خواب دیکھائے جا رہے ہیں ۔۔چترال ایک دور افتادہ ضلع ہے اور پسماندہ بھی ۔۔یہاں کے دور دراز علاقوں میں تعلیم کی سہولیا ت سوالیہ نشان ہیں ۔۔علاقہ بمبوریت جواپنی انوکھی تہذیب ،نرالی ثقافت اور کیلاش کمیونٹی کی موجودگی میں پوری دنیا کی توجہ کا مرکز ہے ۔لیکن افسوس کہ ابھی تک زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہے اس کے لئے راستے میں پتھر نہیں گویا کہ کہکشان ہے مگر ملک کے صدر تک انہی پتھروں پہ چل کے آتے ہیں ۔۔جنرل پرویز مشر ف کے اور شہید بھٹو سینئر کے قدموں کے نشان موجود ہیں ۔افیسر شاہی اس کا چکر لگاتی رہتی ہے ۔۔مگر پتھروں پہ چل کے آتے ہیں اور پتھر نظر نہیں آتے ۔۔قریب زمانے تک یہاں پر بچیوں کے لئے کوئی تعلیمی ادارہ نہیں تھا ۔۔بچیاں بچوں کے سکول جاکر دسویں تک تعلیم حاصل کرتیں پھر گھر بیٹھیں ۔۔آگے تعلیم کی کوئی سہولت نہیں تھی ۔دھائیاں اور فریاد کوئی نہیں سننتے ۔لیکن آج سے کوئی پانچ سال پہلے اس علاقے کی تقدیر اس وقت بدلی جب اس دور کے چیف سیکرٹیری غلام دستگیر اختر ،ڈایریکٹر ایجوکیش ،ڈپٹی ڈایریکٹر اور ڈپٹی کمشنر چترال کے ساتھ بمبوریت تشریف لائے گورنمنٹ ہائی سکول بمبوریت میں اساتذہ کی گورننگ باڈی نے حسب روایت وہ پرانی دھائی سنائی کہ بچیوں کے لئے سکول نہیں ہے ۔دو اور وادیوں بریر اور رمبور کی بچیاں یہاں پر آکر رہ نہیں سکتیں ان کے لئے رہنے کی جگہ نہیں ہے ۔۔یہ علاقے کے لئے ساعت سعید تھی ۔۔چیف سیکرٹری نے دھائی سنی عہد کیا اور اسی وقت ۔۔بچوں کے پرائمیری سکول کے لئے پانچ اضافی کمرے ۔۔،بچیوں کے لئے مڈل اور ہائی سکول ۔۔اور ایک بڑے ہاسٹل کی منظوری بھی ہوئی اور فور زمینیں خریدی گئیں اورا کام بھی شروع ہوا ۔۔یہی لوگ ہیں جو دنیا میں نام کماتے ہیں جہان جاتے ہیں اپنے مبارک قدموں کے نشان چھوڑ جاتے ہیں ۔۔۲۰۱۷ء کو گرلز مڈل اور ہائی سکول کی بلڈنگیں اکھٹے بنیں۔۔اور ۲۰۱۸ء۔۔۲۰۱۹ء کے تعلیم سال کے لئے سکول میں تعلیمی عمل شروع بھی ہوا ۔۔اس کو انقلابی قدم کہتے ہیں ۔۔اس کے لئے محکمہ تعلیم زنانہ چترال کی جادوئی کوشش اور وہ عظیم مخلص اساتذہ جن کو گرلز ہائی سکول ایون سے عارضی ڈیوٹی پہ بھیجا گیا داد کے مستحق ہیں جنہوں نے اس نئے ادارے کو چلانے کا عزم کیا اور تاریخ میں اپنا نام لکھوایا کہ یہی وہ عظیم لوگ تھے جنہوں نے ایسی ایسی قربانیاں دیں ۔۔عورت ذات جب کچھ کرنے پہ آتی ہے تو شیروں کا کام کر جاتی ہے ۔۔علاقے میں تجربہ رہا ہے کہ اخلاص کی داد نہیں ملتی مگر مخلصوں کو کسی داد کی ضرورت بھی نہیں ہوتی ۔۔الفاظ کے گورکھ دھندوں سے آگے بھی ایک دنیا ہے جو عمل کی دنیا ہے ۔۔جماعت ششم سے جماعت نہم تک کلا سیں شروع ہوئیں ۔۔سکول میں تعلیمی عمل کے شروع کرنے میں جہاں پہ گورنمنٹ کی اساتذہ کا کردار ہے وہاں علاقے کی ایک تعلیم یافتہ بچی فہمیدہ بی بی کی بھی بڑی قربانی ہے جو ایک تعلیم یافتہ مگر گھر بیٹھی بچی ہے مگر انھوں نے اپنی خدمات علاقے کے لئے پیش کیا اور مذکورہ سکول آ کر بے لامعاوضہ معاوضہ والوں کے شانہ بہ شانہ کام کرنے کا عزم کیا ۔۔سکول میں تعلیمی عمل زور رو شور سے جاری ہوا ۔۔سکول کی انچارچ ہیڈ مسٹرس محترمہ شاہی سلطان ایک انتھک محنتی اور مخلص استاد ہیں جو قوم کو سروس دینا اپنی خوش بختی سمجھتی ہیں ۔۔مئی کی پندرہ تاریخ کو سکول میں تعلیمی عمل کا باقاعدہ افتتاح ہونا تھا اس کے لئے تقریب سجائی گئی ۔۔ڈپٹی کمشنر چترال مہمان خصوصی تھے ۔۔علاقے کے عمائدیں ،اساتذہ ، پی ٹی سی کونسل اور لوکل کونسل کے ممبر مدعو تھے ۔۔پھوار گر رہی تھی ۔۔مہمانوں کا انتظار طویل ہوا ۔۔دو بجے مہماں تشریف لائے ۔۔اسٹیچ پہ ڈی سی چترال جناب ارشد سدھیر صاحب ،شہزادہ سراج الملک ،بیگم سراج ،ڈی ٰ ای او فیمل بی بی حلیمہ ،ڈپٹی ڈی ای او مہرون نساء ۔۔پرنسپل گرلز کالج ایون ثمینہ ناز بیٹھی ہوئی تھیں ۔۔سٹیج سیکریٹری کے فرائض شمع جعفر انجام دے رہی تھیں جو ادارے کی ایک فعال ٹیچر مانی جاتی ہیں ۔۔ تلاوت کلام خداوندی سے پروگرام کا آغاز ہوا ۔۔نعت رسول مہربان ﷺپیش کی گی۔۔سکول کی بچیوں نے تقریریں کیں ۔ نغمے پیش کیئے ۔۔سکول کی انچارچ ہیڈمسٹرس نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا ۔۔اُنہوں نے اپنے اور اپنے سٹاف کو اس لحاظ سے خوش قسمت کہا کہ ان کے ہاتھوں ایک تاریخ رقم ہو رہی ہے ۔۔انھوں نے اپنے سٹاف کے عزم و ہمت کو داد دی کہ انھوں نے اس نئے ادارے کو چلانے کی چلنچ قبول کی ۔۔اور خالص خدمت کے جذبے سے روز ایون سے اس پرخطر سفر پہ آتے ہیں اُنہوں نے گرلز سکول ایون کی پرنسپل کو خراج تحسین پیش کیا کہ انھوں نے اپنے ادارے کے چھ اساتذہ کو عارضی ڈیوٹی پہ اس ادارے کو دیا ہے اُنہوں نے ہائی سکول بمبوریت کے انچارچ پرنسپل اور سٹاف کا ان کے تعاون کے لئے شکریہ ادا کیا ۔۔انھوں نے ڈی سی چترال اور محکمہ تعلیم کے آفسرز کا ان پر اعتماد کرنے پر شکریہ ادا کیا ۔ انھوں نے علاقے کے عمائدیں سے اپیل کی کہ اس ادارے کو کامیاب بنانے میں بھر پور تعاون کریں انھوں نے کہا کہ اپنے بچوں کو اس ادارے میں داخل کرائیں انھوں نے کہا کہ اس بندے کو ادارے کے متعلق سوچنا چاہئے جس کے اپنے بچے چترال کے دوسرے اداروں میں پڑھ رہے ہیں انھوں نے کہا کہ قربانی یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو لا کر یہاں داخلہ کرائیں۔ایل ٹی اے کے جنرل سیکریٹری استاد زاہدعالم نے خطاب کرتے ہوئے اس منظر کو پیش کیا جب کہ اس ادارے کے لئے دھائی دی جا رہی تھی ۔۔انھوں نے ان یادوں کو تازہ کیا اور آج ادارے کی کامیابی پر شکر کیا انھوں نے ڈی سی صاحب اور محکمے کا شکریہ ادا کیا ۔اس کی کامیابی کیلئے اپنے عزم کا اظہار کیا ۔۔
ہائی سکول بمبوریت کے پرنسپل نے کہا کہ اگر اس علاقے کے بچوں اور بچیوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے کسی قربانی کی ضرورت ہو تو وہ ان فداکاروں کی صف اول کا فرد ہے ۔۔چاہے اس کی جان تک جائے مگرقوم کے بچوں کو ٹائیگر بنا یا جائے ۔۔انھوں نے کہا کہ شاگرد ان کی زندگی ہیں اور وہ اس شہر کا شہر یار ہے ۔۔اس کو اپنے استاد ہونے اور ساتھ استاد کا بیٹا ہونے پہ فخر ہے انھوں نے اس سکول کی کامیابی کے لئے جنھوں نے کوششیں کیں ان کو خراج تحسین پیش کیا انھوں نے کہا کہ وہ خوش قسمت ہے کہ ان کے دور میں ان کی بچیوں کے لئے الگ ادارہ بن گیا ہے انھوں نے ان بچیوں کے والدیں کا شکریہ ادا کیا یہ بچے ان کے سکول میں رہنے کے دوران ان پر اور ان کے سٹاف پر اعتماد کیا گیا اگر چہ ان کو کسی شاباشی کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی مگر زندہ قومیں دوسروں کی خدمات محسوس کرتی ہیں ۔ انھوں نے کوکل کونسل کے چیرمین اور ممبروں کی کوششوں کو سراہا کہ وہ علاقے میں بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے کر رہے ہیں ۔۔۔۔شہزادہ سراج صاحب نے علاقے امن اور مسلم کلاش برادری کی آپس میں محبت و احترام پر زور دیا اور اپنی بیگم کی طرف سے پچاس ہزار روپے کی نئے ادارے کے لئے اعانت کا اعلان کیا ۔۔ڈی ای او فیمل نے اپنے خطاب میں ادارے میں تعلیمی عمل کو ممکن بنانے میں ڈی سی صاحب کے تعاون ۔۔اپنے محکمے اور اساتذہ کی قربانیوں کا ذکر کیا ۔۔انھوں نے محکمے کی مجبوریوں کا ذکر کیا ۔۔انھوں نے حاضریں محفل سے بر ملا اعانت دینے کی اپیل کی ۔انسپکٹرتمیز الدین کا نام لے کے اعانت کے لئے سراپا سپاس ہوئیں ۔۔ایسی مخلص آفیسر کو داد دینی چاہئے ۔۔ڈی سی چترال نے اپنے دلنشین انداز میں بچیوں کو مخاطب کیا ۔۔انھوں نے اپنے سکول کے پہلے دن کی یاد کو شیئر کیا ۔۔یادیں دھند کی طرح ہوتی ہیں جتنا ان میں راستہ بناتے جاؤں دھند صاف ہوتا جاتا ہے ۔۔انھوں نے ڈی ای او فیمل کو اس کی کارکردگی پہ سراہا ۔۔علاقے کے لئے خدمت کا عزم کیا ۔۔بچیوں کی کارکردگی کوسراہا ۔۔اساتذہ کی کاوشوں کو داد دی ۔۔ شمع جعفر نے بہت خوبصورت انداز سے پروگرام کی میزبانی کی آپ کی اردو سن کر ایسا لگا کہ یہ بمبوریت نہیں لکھنو ہے۔۔ رب اس کی صلاحیتوں کو مذید نکھار دے۔۔ پر تکلف چائے تھی ۔۔جو پروگرام بمبوریت کی معصوم اور پاکیزہ پریوں کی گل پاشی سے شروع ہواتھا ۔۔احترام کے گلدستوں پہ ختم ہوا جو حاضریں ایک دوسرے کو پیش کر رہے تھے ۔