وفا کا صلہ
جی این ایس کیسر
ستر سال صبر کرتے رہے، آس لگاتے رہے کہ کوئ تو مسیحا آیئے گا جو اس دھرتی کی پکار سنے گا، سنجیدہ گی سے اس مسًلے پر غور کریں گا اور بنیادی حقوق سے محروم سخت مگر نرم مزاج لوگوں کو محرومی کے بھنور سے نکالے گا۔ خواب خواب ہی رہا اور متعدد بار چکنا چور بھی ہوگیا جب اپنوں نے ہی نشین پہ بجلی گرانا شروع کیا۔ وقت بدلتا رہا، لوگ بدلتے گئے, وفاداریاں بدلتی گئی ،حکومتیں بدلی پر تشخص سے خالی اس محروم و محکوم دھرتی کا خیال کسی کو نہ آیا۔ لوگوں کو سمجھ آ رہا تھا، آزیتیں سہہ رہے تھے، ظلم پہ مسکراتے تھے۔ حاکم وقت با خبر ہو کے بھی بے خبر تھا۔ حالات روز روشن کی طرح سب پر عیاں تھیں، لیکن اس قوم نے صبر کے دامن کو ہاتھ سے جانے نہ دیا، امتحان دیتے رہے، عرض کرتے رہے، یہ قوم محکوم ضرور تھی مگر شعور سے آراستہ قوم تھیں۔ جنگ و جدل میں اپنی مثال آپ تھی مگر دشمن کی تمیز کا گر بھی جانتی تھی۔ جنگ پر امادہ نہ ہوئے، توڑ پھوڑ پر انحصار نہ کیا بلکہ پر آمن رہی۔کہی کوئی تحصیل دار نے اس قوم کو خادم بنایا تو کبھی کوئی حکومتی ایجنٹ بن کر اس دھرتی پہ حکومت کرتا رہا۔ جس کے حصے میں جتنا آیا اس نے دو نوالے اضافی بھی بغیر چبائے منہ میں ڈال کر پیٹ بھر لی۔ حقدار تماشہ بیں ہی رہا، نگاہوں میں حسرت لئے انتظار کی گھڑیاں گنتا رہا لیکن انتظار پھر انتظار ہے، طویل ہوتا گیا۔
لوگ قربان ہوتے گئے، سبز ہلالی پرچم ہر دوسرے کھیت میں لہرانے لگا۔ داد ملتی رہی، مال لٹتا گیا۔ جس کسی نے آہ کی اس پر مقدمات بنیں۔ خوف بڑھتا گیا، اواز دبتی گئی۔ اور اس سارے منظر نامے میں آگاہی خاموش تھی۔ احساس محرومی بڑھتی گئی۔
ایک وقت ایسا ایا کہ جب بر سراقتدار جماعت نے سحر کی نوید سنا دی۔ ایک محروم خطے کو نام سے نوازا گیا۔ مبارک باد کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا، گویا اس خطہ بے آیئن کو اس کی منزل مل گئی ہو۔ لیکن یہ بھی لٹیروں کی چال نکلی۔ کچھ عرصہ بعد ہی ایک بین الاقوامی سطع پر متناضہ خطے سے آیئن کے دایئرے میں شامل کئے بغیر ہی ٹکس طلب کیا گیا۔ دھرتی بے آیئن کے باسیوں کو آب علم ہوچکا تھا اور مٹی کا درد رکھنے والے سپوت بھی پیدا ہو چکے تھے، جنھوں نے قانونی تقاضوں کے تحت اس کالے قانون کو رد کیا، سڑکوں پہ نکل آئیں اور وہ قانون رد ہوگیا۔ یہ ایک حقیت ہے کہ وفاق میں جس جماعت کی حکومت آئی ہے، گلگت بلتستان میں بھی وہی تخت پہ براجماں رہی ہے۔ جس کی وجہ سے باقی حکومتی اصولوں کے ساتھ اضافی طور پر شاہ کی وفاداری کو بھی بنیادی حثیت دی گئی، یعنی جو حکم وفاق سے آئےاسے وزیروں کے وسیع تر مفادات میں بغیر کسی سوال کے تسلیم کرنا فرض ہوگیا۔
وفاق میں نون لیگ آگئی اور گلگت بلتستان میں بھی حکومت قائم ہوگئ۔ خطہ بے آیین کو پھر امید دلا ئی گئ اور اس مرتبہ مرکزی کردار سرتاج عزیز تھا۔ مکمل اختیارات کی بات ہوئی اور رپورٹ تیار ہونے کی خوش خبری بھی دی گئ۔ پاکستان میں دیگر اہم مسائل پہ بنی رپورٹز کی طرح یہ رپورٹ بھی گمنامیوں کے آغوش میں چلی گئ۔ گلگت بلتسان کے باسیوں کا صحیح معنوں میں مزاق تب اڑایا گیا جب وفاق میں نا اہل نواز شریف کی جماعت نے جی بی آرڑر 2018 کے نام سے اس عجیب و غریب توپ کا رخ گلگت بلتستان کی طرف کر دیا۔ یہ آرڑر عجیب و غریب اس لئے ہے کیونکہ نہ یہ جمہوریت کے زمرے آتا ہے نہ آمریت اور نہ ہی یہ کوئی بادشاہت کا دستور ہے۔ یہ بھی بقول نون لیگ کے نااہل قائد کے خلائی کام لگتا ہے۔
اس آرڑر کا رد ہونا کوئی انہونی بات نہیں کیونکہ اس قانون کے اطلاق کا جواز ہی گلگت بلتستان میں نہیں بنتا۔ اس سارے منظرنامے میں متحدہ اپوازیشن کا کردار قابل تحسین ہے۔ ماضی کے غلطیوں کو بھلا کر میدان میں داخل ہونا پی پی پی کے لئے بھی نیک شگون ہے۔ اور اس بار اہم بات یہ ہے کہ متحدہ اپوازیشن کے مطالبات دو ٹوک ہیں، یعنی مکمل آئینی سیٹ اپ، چاہے وہ صوبے کی صورت میں ہو یا سٹیٹ کی صورت میں۔ جس کی وجہ سے عوام کو اپوازیشن کا ساتھ دینے میں بھی کوئی دقعت پیش نہیں آ رہی۔
یہاں تک سب کچھ پرآمن اور مہزب طریقے سے ہو رہا تھا اور حقوق کی جدوجہد جاری تھی۔ اسلام اباد دھرنے کے بعد اپوازیشن گلگت بلتسان اسمبلی کے سامنے دھرنہ دینے جاتی ہیں اور وہی پھر ماڈل ٹاون جیسا واقعہ رونما ہوتا ہیں۔ ایک پرآمن قوم کو پر آمن مظاہرے سے روک دیا جاتا ہیں۔ لاٹھی چارج کی جاتی ہیں، شیلگ اور ہوائی فائرنگ کی جاتی ہیں. کیا یہی ہے ستر سال کے صبر کا صلہ؟ ایک پرامن احتجاج کو خون خرابے میں تبدیل کیا جاتا ہیں۔ کیا یہ ہے جمہوریت جہاں حاکم وقت جب چاہے طاقت کا بے دریغ استعمال کریں، کیا یہ ہے جمہوریت جہاں پرآمن طریقے سے حق مانگنا جرم ہو. کیا یہ ہے حکومت اور اس کی پالیساں جو ایک محروم طبقے کو طاقت کے زور پر دبایئں رکھیں۔ اگر یہی ہے تو عصر کے حاکم کو سمجھنا ہوگا
؎
جو آج صاحب مسند ہے کل ںہیں ہونگے
کرائے دار ہیں زاتی مکان تھوڑی ہے