گریٹ گوہر امان کا گریٹ پوتا
بیساکھی چارج کے حوالے سے برادرم ایمان شاہ صاحب نے اپنے کل کے کالم میں تفصیل سے ذکر کیا ہے جس پر مزید کچھ لکھنے کی گنجائش نہیں رہی البتہ اتنا کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ حکومتی ممبر قانون ساز اسمبلی نے شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بننے کی جو کوشش کی اس پر سوائے افسوس کے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ موصوف نے حملہ ایک ایسے شخص پر کیا جو ایک روز قبل ہی گلگت بلتستان گورننس ارڈر2018کے خلاف احتجاج کے دوران زخمی ہوگئے تھے، اس کے باوجود بھی ممبرقانون ساز اسمبلی راجہ جہاں زیب بیساکھی کی مدد سے صوبائی اسمبلی پہنچے تھے۔ میجر (ر) امین نے یہ موقع بہتر جانا اور ایک زخمی آدمی پر وار کیا۔ شاید موصوف کو یہ علم نہیں تھا کہ انھوں نے جس ممبر پر حملہ کیا یہ کوئی معمولی شخص نہیں بلکہ خطے کے بہادر سپوت راجہ گوہر امان کا پوتا تھا۔ اپنی بہادری کی لازول دستانیں رقم کرنے والا راجہ گوہر امان جس کی موت کے بعد بھی انگریز ان کی قبر کے قریب سے گزرتے ہوئے ڈر جاتے تھے میجر (ر)امین نے شاید یہ سمجھا ہوگا کہ اس زخمی ممبر پر وار کرکے وزیر اعظم کے سامنے اپنی بہادری دیکھاینگے مگر راجہ گوہر امان کے پوتے نے وہ کر دکھایا جس کی امید تھی۔ انھوں نے نہ صرف اپنے دادا کی یاد تازہ کرا دی بلکہ بیساکھی سے میجر (ر) امین کی اچھی خاصی خبر لی، حالانکہ ممبر قانون ساز اسمبلی راجہ جہاں زیب کو اپوزیشن کے ممبران سہارا دیتے ہوئے اسمبلی میں لائے تھے۔ ایسے میں انسانیت کا بھی تقاضا تھا کہ اس ممبر سے اظہار ہمدردی کی جاتی زخمی ہونے کے باوجود بھی راجہ جہاں زیب نے صوبائی اسمبلی کے اس اہم اجلاس میں شرکت کی اور اسمبلی کے اندر ممبر قانون ساز اسمبلی میجر (ر) امین کواپوزیشن ممبران میں شایدصرف زخمی ہونے والے راجہ جہاں زیب ہی نظر آئے وہ یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ کم از کم اس زخمی ممبر پر حملہ کر کے قانو ن اسمبلی کے اندوزیر اعظم پاکستان خاقان عباسی کے سامنے ایک اچھے متوالے (ن) لیگی ہونے کا ثبوت دے سکے مگر ایسا نہیں ہو سکا الٹا ان کو لینے کے دینے پڑگئے راجہ جہاں زیب نے اپنی بساکھی سے ان کی جس طرح خبر لی وہ اخبارات کی زینت بن گئی ہیں اس پر مزید کچھ لکھنے کی شاید ضرورت نہیں۔
میں آج اپنا کالم اس موضوع کے حوالے سے یہاں ختم کرتا ہوں اور اب میں ممبر قانون ساز اسمبلی کے دلیر دادا راجہ گوہر امان کی طرف آتا ہوں جس کو انگریزوں نے بھی میجر (ر)امین کی طرح غلط سمجھ بیٹھے تھے اس گریٹ گوہر امان نے جو بہادری دیکھا ئی صدیاں گزرنے کے باوجود بھی گلگت بلتستان کے عوام اس عظیم سپوت کی بہادری کو یاد کرتے ہیں گلگت بلتستان کے اس عظیم تاریخ کے درخشندہ ستارے کا تعلق خوش وقت خاندان سے تھا یہ مشہور حکمران یاسین و گلگت سلیمان شاہ کے بھائی ملک امان کے بیٹے تھے راجہ گوہر امان کے کثیر تعداد بھائیوں میں کم از کم پانچ قتل ہوئے راجہ گوہر امان یاسین میں فوت ہوئے اور یہیں دفن ہیں راجہ گوہر امان وہ عظیم ہستی تھے جس نے بھوپ سنگھ پڑی میں انگریزوں ، ڈگروں اور سکھوں کو چنے چبوائے یہیں گوہر امان والی یاسین نے گلگت ایجنسی کے لوگوں کی فوج کے ساتھ ڈوگرہ جرنیل بھوپ سنگھ اور اس کی تین ہزار ڈوگرہ ،سکھ اور انگریز فوج کو گھیر کر موت کے منہ میں دھکیل دیا گلگت بلتستان کے کے اس عظیم ہیرو گوہر امان دی گریٹ کی بہادری کی وہ لازول مثالیں ہیں جس کا ذکر کرنا یہاں ممکن نہیں اس کی بہادری کے حوالے سے کئی کتابیں لکھی جاسکتی ہے راجہ گوہر امان کی وفات کے بعد بھی کئی سالوں تک ڈوگروں ،سکھوں اور انگریزوں نے غذر کارخ کرنا چھوڑ دیا تھا اور ان میں اتنا خوف سوار تھا کہ کئی یاسین جائینگے تو راجہ گوہر امان کے ہاتھوں مارا نہ جائے آج بھی راجہ گوہر امان کی قبر کے قریب سے گزرتے ہوئے انگریز ڈرتے ہیں آ ج بھی راجہ گوہر امان کی بہادری کی دستانیں ہمارے بزرگ سناتے ہیں اس بہادر سپوت نے بہادری کی وہ لازول دستانیں رقم کی ہے جس کو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گاگلگت بلتستان کی صوبائی اسمبلی کے 27مئی 2018کو ہونے والے واقعے نے ایک بار پھر راجہ گوہر امان کی یاد تازہ کر دی شاید ممبر موصوف کو یہ پتہ نہیں تھا کہ وہ جس پر حملہ کر رہا ہے وہ کوئی اور نہیں بلکہ خوش وقت خاندان کا چشم و چراغ راجہ جہان زیب تھا جہاں زیب نے اپنے بساکھی کا جس طرح استعمال کیا ہے وہ بھی اب تاریخ کا حصہ بن گئی ہے