کالمز

سی پیک میں گلگت بلتستان کا حصہ (آخری قسط)

تحریر: دیدار علی شاہ

پچھلے کالم میں سی پیک کے حوالے سے تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اب بات کریں گے گلگت بلتستان میں سی پیک کے تحت صنعتی زون کے حوالے سے ، حکومتی نمائندوں سے ہم بار بار یہ سُن چکے ہے کہ سی پیک کے تحت پاکستان کے دوسرے صوبوں کی طرح گلگت بلتستان میں بھی صنعتی زون بنے گا۔ اس حوالے سے دسمبر 2016 میں پاک چین تعاون کمیٹی کا چھٹا مشترکہ اجلاس میں پاکستان کی طرف سے وفاقی وزرا سمت چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے شرکت کی تھیں۔

اور اُن کے اعلامیے میں یہ بتایا گیا تھا کہ پاکستان کے اندر مختلف صنعتی زونز کی تعمیر کی منظوری دی گئی۔ یہاں پر یہ بات قابل غور ہے کہ اس اجلاس میں گلگت بلتستان کی نمائندگی نہیں تھی اور نہ اعتماد میں لیا گیا تھا ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سی پیک میں گلگت بلتستان کے لئے کوئی قابل غور منصوبہ نہیں ہے۔ اور عوام میں بھی اس حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے۔

ابھی ایک مہینے پہلے گلگت بلتستان حکومت کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا کہ گلگت بلتستان میں صنعتی زون کے حوالے سے جگہ کا انتخاب کیا گیا ہے۔ اور کہا گیا کہ متفقہ طور پر’’ مقپون داس ‘‘ اور ’’ مناور ‘‘ نامی جگیں غور و خوست کے بعد انتخاب کیا گیا ہے۔ اب یہاں پر بھی یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ وفاق کی طرف سے ابھی تک واضح طور پر نہیں کہا گیا ہے کہ گلگت بلتستان میں صنعتی زون بنے گا پھر جگہ کا انتخاب کیسا؟ اگر صنعتی زون کی منظوری ہوئی ہے تو کس نے یہ منظوری دی ہے؟ اگر یہ سیاسی چال ہے تو اس علاقے کے ساتھ ہمیشہ کی طرح زیادتی ہوگا، نہیں تو اس صنعتی زون بننے سے اس علاقے میں معاشی سرگرمیوں کا نیا باب ثابت ہوگا۔

سی پیک کے تحت صنعتی زون کے حوالے سے یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ملک کے دوسرے صوبوں میں پہلے سے صنعتیں ہے، کاروبار زیادہ ہے، معاشی طور پر مضبوط بھی ہے ،تو وہ لوگ ان معاشی زونز میں سی پیک بزنس پلان کا حصہ بن کر بھر پور معاشی فوائد حاصل کر سکتیں ہے۔

مگر گلگت بلتستان میں ایسی صورت حال نہیں ، یہاں حالات مختلف ہے ، کوئی صنعتیں نہیں اور کاروبار نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس لئے یہاں پر صنعتی زون اور معاشی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لئے یہاں پر موجود معاشی مواقعے کو مدنظر رکھتے ہوئے طریقہ کار کے تحت پلان واضع کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ بات طے ہے کہ OBOR کے تحت بننے والی CPEC آنے والے وقتوں میں پاکستان میں معاشی لحاظ سے اہم کردار ادا کرے گااور پوری دنیا میں ون بیلٹ ون روڈ کے ذریعے معاشی و دفاعی لحاظ سے تبدیلیاں رونما ہونگے۔ اب گلگت بلتستان ایسے کونسی اقدامات کریں کہ وہ اس اقتصادی راہداری سے معاشی اور معاشرتی طور پر فائدہ حاصل کر سکیں ایسے چند تجاویز عرض ہے۔

یہ بات گلگت بلتستان والوں کو ذہن نشین کرنی ہے کہ سی پیک ایک بزنس پلان ہے اور اس میں دنیا کے معاشی طاقتوں کا اثر ہے ، یہ ہو کر ہی رہے گا۔ لہذا گلگت بلتستان نے اگر اسے معاشی نظر سے دیکھنے کی کوشش کی تو اس کا معاشی مستقبل ہوگا ، یا اسے خیرات یا امداد کے طور پردیکھا تو اسے کچھ نہیں ملے گا۔

سی پیک کے تحت گلگت بلتستان کو وفاق کتنا حصہ دیتا ہے اور گلگت بلتستان خود سی پیک سے اپنے معاشی و معاشرتی ترقی کے لئے کتنا حصہ لینے میں کامیاب رہتا ہے یہ دونوں الگ الگ باتیں ہے، کیوں ؟ زرا سوچئے کہ وفاق صرف صنعتی زون ، بجلی کی پیداوار اور کچھ چھوٹی چھوٹی پروجیکٹس ہو سکتے ہیں لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک اندازے کے مطابق ایک دن میں سی پیک کے تحت چار سو ٹرکس (کنٹینرز) خنجراب کے راستے گلگت سے گزرئیں گے تو اس کا ہمارے ماحول پر کتنا اثر پڑے گا؟ اتنے زیادہ آمدورفت سے یقیناًہمارے ماحول پر بُرا اثر پڑے گا اور ساتھ آب و ہوا، گلیشیرزپر انتہائی درجے کے منفی اثرات مرتب ہونگے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پہلی اور ترجیحی بنیاد پر ماحول کی تحفظ کے لئے اقدامات ہوں۔

دوسری چیز یہاں کے نوجوان نسل کو ٹیکنکل کورسز کا اہتمام کرنا ہے۔ کیونکہ اگر یہاں پر صنعتی زون بنتا ہے تو وہاں پر افرادی قوت کی اشد ضرورت ہوگا جبکہ ایسے ٹکنیکل لوگوں کا گلگت بلتستان میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ گلگت میں ٹیکنکل کالج کا قیام یا پھر یہاں کے بچوں کو پاکستان کے دوسرے صوبوں میں تربیت دیا جائے یا چین میں اس کا اہتمام کیا جائے۔ تاکہ یہاں پر معاشی سرگرمیاں بڑھنے سے افرادی قوت بھی پورا کیا جاسکیں۔

تیسری چیز یہاں کے نوجوان نسلوں کے لئے چین کے مختلف یونیورسٹیوں میں ماسٹرز، ایم فیل اور پی ایچ ڈی لیول کے لئے اسکالرشپ کا آغاز کیا جائے تاکہ چینی زبان ، کلچر، سی پیک اور وہاں کے ترقی کے میعار اور کام کو دیکھ کر گلگت بلتستان میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔

چوتھی چیز گلگت بلتستان کے ثقافت اور زبان کے تحفظ اور ترویج کے لئے اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہ بات طے ہے کہ جب سی پیک کی معاشی سرگرمیاں پوری گلگت بلتستان میں شروع ہونگے تو اس کے کچھ منفی اثرات بھی ہونگے جس کا اثر یہاں کے ماحول، زبان اور ثقافت پر گہرا ہوگا، کیونکہ ملکی و غیر ملکی سیاح اور کاروباری افراد یہاں کا رخ کریں گے جس کی وجہ سے یہاں پر آبادی کا توازن بگڑ سکتا ہے۔ اس کی وجہ کاروباری تناظر میں پاکستان کے دوسرے صوبوں سے لوگ یہاں پر زمین خرید لیں گے کیوں کہ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے مطابق پاکستان کے لوگ گلگت بلتستان میں زمین خرید سکتے ہے جبکہ کشمیر میں یہ قانون لاگو نہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ بروقت اقدامات مفید ثابت ہوسکتا ہے۔

پانچواں چیز یہاں کی خشک میوہ جات اور زراعت میں بہتری لانا ہیں، اس حوالے سے پھل دار درخت زیادہ سے زیادہ لگانا اور ساتھ میں یہاں کے خشک میوہ جات کو تیار کر نے کے لئے پلانٹس کی تنصیب اور اسے مارکیٹ تک پہنچانے کے لئے اقدامات انتہائی ضروری ہے۔اس کے ساتھ زراعت کے شعبے میں بھی بہتری کے لئے اقدامات کی ضرورت ہے۔

چھٹا چیز سیاحت کا فروغ ہے ، ابھی تک گلگت بلتستان میں سیاحوں کی رہن سہن کے لئے کوئی قابل قدر انتظامات نہیں ہے اس لیے ضروری ہے کہ سی پیک کے تحت یہاں پر آسان شرائط پر قرضہ اسکیم کا اجرا کیا جائے تاکہ یہاں کے لوگ ہوٹلز اور دوسرے بنیادی ضروریات سیاحتی مقامات پر تعمیر کیا جا سکیں۔

ساتواں چیز انرجی سیکٹر ہے یہاں پر پاور پلانٹس کی تعمیر کر کے نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ پورے پاکستان کو روشن کر سکتیں ہے۔

آٹھواں چیز یہاں پر معدنیات کے ذخائر ہے جس کو استعمال کر کے گلگت بلتستان میں غربت کو ہمیشہ کے لئے ختم کر سکتیں ہے اور پاکستان کو معاشی طور پر مضبوط بنا سکتیں ہے۔

نوایں چیز گلگت بلتستان کی حدود میں شاہرہ قراقرم پر سیکورٹی یونٹس کے لئے افرادی قوت یہاں سے بھرتی کرئیں گے یا یہ بھی پنجاب سے آئیں گے؟

دسویں چیز گلگت بلتستان کے حدود میں جو تجارتی کنٹینرز چلیں گے ، ان سے حاصل ہونے والے ٹال ٹیکس گلگت بلتستان کے لئے یا وفاق کو جائے گا؟

یہ بات حقیقت ہے کہ اگر اس مرتبہ وفاق نے سی پیک کے تحت گلگت بلتستان کے لئے کوئی خاص منصوبے نہیں رکھا ، تو پھر یہاں پر پاسماندگی، غربت، جہالت میں مزید اضافہ ہوگا اور احساس محرومی پیداہوگاجس کی وجہ سے بدامنی کا خدشہ رہے گا۔ اس لئے اس علاقے کی وسیع تر مفاد کے لئے حکومت پاکستان سی پیک کے تحت معاشی سرگرمیوں کے لئے یہاں پر زیادہ سے زیادہ گنجائش پیدا کریں۔ اور یہاں پر ترقی کی رفتار کو تیز کر کے ایک ایسی ماحول تیار کریں جو معاشی، معاشرتی ، ماحولیاتی اور تعلیمی لحاظ سے پختہ ہو سکیں۔ ایسا کرنے سے مستقبل میں ریاست پاکستان کے لئے فائدہ مند ثابت ہوگا۔

یہ بات بھی حقیقت ہے کہ اس سے پہلے اس علاقے کے ساتھ ناانصافی اور زیادتی کی گئی ہے ۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا اور اس بار بھی گلگت بلتستان کو نظر انداز کیا گیا تو پھر خدشہ ہے کہ حکومت کے لئے بہت سارے مشکلات پیدا ہو سکتی ہے، اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ گلگت بلتستان کے رہنے والوں میں اب شعور پیدا ہوگئی ہے کیونکہ گلگت بلتستان کے اندر اور باہر مختلف فورمز پر گلگت بلتستان کی حقوق کی بات زور پکڑتی جا رہی ہے۔

گلگت بلتستان کے لوگوں کو بااختیار بنا کر اسے ترقی کی رفتارپر گامزن کرنا، اس کی ایک اچھی مثال یہ ہے کہ حال ہی میں چین نے صوبہ سنکیانگ جو مسلم اکثریتی صوبہ ہے اور پسماندہ بھی تھا، اب سی پیک کے تحت وہاں پر چین نے توجہ دیں کر، اب ترقی آسمان کو چھو رہی ہے۔ حالانکہ وہاں پر چند سالوں پہلے بدامنی نے بھی سر اٹھایا تھا مگر اب حکومت چین نے وہاں پر معاشی سرگرمیوں سے عوام کے محرمیوں کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔

1977 کو شاہرہ قراقرم کی تکمیل کے بعد گلگت بلتستان میں بہت سارے تبدیلیاں رونماہ ہوئی ہے جس کے مثبت اثرات کے ساتھ کچھ منفی اثرات بھی مرتب ہوئی ہے ، اب40سال بعدیہ شاہرہ نہیں ہوگا بلکہ 55 ارب ڈالر کی لاگت سے بننے والی اقتصادی راہداری ہے۔ اسے آج کی معاشی ، معاشرتی اور ماحولیاتی نظر سے دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔

اسی لئے گلگت بلتستان میں سی پیک سے متعلق تمام ممکنہ معاشی، سیاسی، معاشرتی اور ماحولیاتی امور کو ذہن نشین اور طریقہ کار واضع کرتے ہوئے صنعتی زون کی تعمیر، بہتر سڑکیں، سیاحت کے فروغ، معدنیات کے لئے واضع پالیسی، ماحول پر منفی اثرات پر اقدامات ، زراعت کی بہتری اور بجلی کی پیداور کے لئے عملی طور پر منصوبہ بندی کے ساتھ کام شروع کرنا مقصود ہے ۔ ایسا کرنے سے گلگت بلتستان کا مستقبل روشن ہے ، گلگت ایک جدید شہرمیں تبدیل ہوسکتا ہے اور اس سے پاکستان معاشی اور دفاعی طور پر مضبوط ہو سکتا ہے۔

اُس وقت چایئنہ نے شاہرہ قراقرم کی تعمیر دفاعی اور کمیونسٹ نظریہ کو وسعت دینے کے لحاظ سے تعمیر کیا گیا تھا مگر اب کوریڈور کی تعمیر کی وجہ اپنے معیشت کو وسعت اور مضبوط بنانا ہے۔ یہ ایٹمی طاقتوں کا کھیل ہے اور یہ کھیل اپنی معاشی مضبوطی کے لئے کھیلا جاتا ہے تاکہ دنیا میں وہ حکمران ہوں ، اس کھیل کے دوران چھوٹے چھوٹے علاقے اور رکاوٹوں کو کچلا جاتا ہے ، تاریخ میں ایسی واقعات بھری پڑی ہے ۔ اس لئے گلگت بلتستان عقلی و دانائی افکار کا مظاہرہ کر کے تاریخ میں اپنے آپ کو زندہ رکھیں۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button