صوبے کے مسائل اور بلدیاتی الیکشن میں تاخیر
گلگت بلتستان میں بلدیاتی انتخابات ایک عرصے سے التوا کا شکار ہے موجودہ حکومت جب برسر اقتدار آئی تو کئی دفعہ وزیر اعلی اور صوبائی وزراء نے صوبے بلدیاتی الیکشن کرانے کی یقین دہانی بھی کروائی مگر گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت کو تین سال پورے ہونے کو ہیں تاحال علاقے میں بلدیاتی الیکشن نہ ہونے سے عوام کے مسائل میں روز بروز اضافہ ہورہے ہیں گزشتہ نوسالوں سے گلگت بلتستان میں بلدیاتی الیکشن نہ ہونے سے صوبے میں بلدیاتی ادارے بھی غیر فعال نظر آتے ہیں اس سے قبل جب خطے میں بلدیاتی انتخابات ہوتے تھے تو اس دوران ڈسٹرکٹ کونسل اور یونین کونسل کے ممبران سالانہ حکومت کی طرف سے دیا جانے والاترقیاتی بجٹ سے علاقے میں ترقیاتی کاموں کو ترجعی بنیادوں پر مکمل کرانے میں اپنا بھر پور کردار ادا کرتے تھے اور یونین سطح پر عوام کو اعتماد میں لیکر گاؤں لیول کے جو بھی مسائل ہوتے ان کو فوری حل کرتے رابط سڑکیں ہو یا ندی نالوں کی تعمیر چینل بنانا ہو یا حفاظتی بند سب پر عوام کو اعتماد میں لیا جاتا تھا مگر جب سے بلدیاتی الیکشن نہیں ہوئے خطے میں بلدیاتی اداروں کی کارکردگی بھی کوئی بہتر نظر نہیں آتی یونین سطح پر تو ترقیاتی کام نہ ہونے کے برابر ہے اگر ڈسٹرکٹ سطح پر بھی دیکھا جائے تو کوئی ایسا منصوبہ نظر نہیں آتا جس کی تعریف کی جائے اس کے علاوہ بلدیاتی اداروں کی طرف سے نوسال قبل بنائے گئے رابط سڑکیں اور دیگر تعمیرات کی دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے وہ منصوبے بھی آثار قدیمہ کا منظر پیش کر رہے ہیں بعض ایسی رابطہ سڑکیں ہیں جو صفحہ ہستی سے ہی مٹ چکی ہیں مگر ان کی طرف کوئی دھیان دینے والا نہیں ہے سالانہ ڈسٹرکٹ اور بلدیہ کو ملنے والا ترقیاتی بجٹ کی طرف بھی اگر دیکھا جائے تو پورے صوبے میں کوئی ایسا ترقیاتی کام نظرنہیں آتا کہ جس کی تعریف کی جائے اس حوالے سے یا تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ بلدیاتی الیکشن نہ ہونے کی وجہ سے ممبران ڈسٹرکٹ کونسل اور بلدیہ کے ممبران کو ملنے والا فنڈز روک دئیے ہو یا اس فنڈز کو کسی اور مد میں خرچ کیا جاتا ہو اس حوالے سے اس کاجواب تو بلدیاتی اداروں کے حکام ہی دے سکتے ہیں کہ آخر اگر ترقیاتی بجٹ ملتا ہے تو اس کے فوائد عوام کو حاصل کیوں نہیں آتے اگر ترقیاتی فنڈز روک دئیے ہیں تو اس کے کیاوجوہات ہوسکتے ہیں گلگت بلتستان میں گزشتہ نو سالوں سے بلدیاتی الیکشن نہ ہونے کے باعث خطے میں سیاسی گہماگہمی جمود کا شکار ہے اور کئی امیدوار جو بلدیاتی الیکشن میں حصہ لینے کے لئے بیتاب تھے اب وہ بھی زیر زمین چلے گئے ہیں حالانکہ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان نے کئی بار گلگت بلتستان میں بلدیاتی انتخابات کرانے کی نوید سنائی جس کے بعد علاقے میں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی مگر تاحال گلگت بلتستان میں بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے کوئی حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا حالانکہ ملک کے دیگر صوبوں میں بلدیاتی ادارے فعال ہیں اور عوام کے یونین اور ڈسٹرکٹ کونسل کے ممبران ان کے چھوٹے چھوٹے مسائل ان کے دروزے پر حل کرتے ہیں اس حوالے سے عوام توقع رکھتے ہیں کہ وزیر اعلی گلگت بلتستان اپنے وعدے کے مطابق صوبے میں بلدیاتی انتخابات کرانے میں اپنا بھر پور کردار ادا کرینگے بلدیاتی الیکشن میں کامیاب ہونے والے ڈسٹرکٹ یونین یا بلدیہ کے ممبران کو ترقیاتی بجٹ بہت ہی کم سعی مگر جو بجٹ ان کو دیا جاتا تھا وہ کسی نہ کسی تعمیراتی کام میں خرچ ہوتا نظر بھی آتا تھا مگر گزشتہ نو سالوں میں گلگت بلتستان میں بلدیاتی الیکشن نہ ہونے کی وجہ سے بلدیاتی اداروں کی وہ کارکردگی نظر نہیں آئی جو بلدیاتی الیکشن کے موقع پر دیکھنے کو ملتا گلگت بلتستان میں بلدیاتی انتخابات نہ ہونے کی وجہ سے علاقے کی رابط سڑکیں کھنڈرات میں تبدیل ہوگئی ہے جبکہ ممبران ضلع کونسل اور بلدیہ کے ممبران اپنے حلقوں میں عوام کی ضرورت کے مطابق چھوٹے موٹے کام کراکے عوام کی مشکلات کا ازالہ کرتے تھے مگر نو سالوں سے صوبے میں بلدیاتی الیکشن نہ ہونے سے عوام کے مسائل میں کمی کی بجائے مزید اضافہ ہوگیا وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان گلگت بلتستان میں بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے دلچسپی لے تو بلدیاتی الیکشن کے بعد ڈسٹرکٹ کونسل اور بلدیہ کے ممبران کو ملنے والا فنڈز سے عوام کے نصف مسائل ضلع کونسل بلدیہ اور یونین ممبران کی ہی حل کرسکتے ہیں اس سے ایک طرف عوام کے حکومت کی کارکردگی سے مطمین ہونگے تو دوسری طرف گاؤں سطح پر بھی حکومت کی کارکردگی سامنے ائیگی