کالمز

’’گورنمنٹ آف گلگت بلتستان آرڈر 2018‘‘: حقیقت کیا ہے؟

تحریر: امیرجان حقانیؔ

قومی سلامتی کمیٹی کی طرف سے اتفاق رائے کے بعد منظوری دیا جانے والا گلگت بلتستان ریفامز آرڈ کو ’’ گورنمنٹ آف گلگت بلتستان آرڈر 2018‘‘ کا نام دیا گیا۔یہ بدیہی حقیقت ہے کہ اس اصلاحاتی آرڈر کی تیاری میں پاکستان کے تمام اسٹیک ہولڈر کی تین سالہ محنت شاقہ شامل ہے۔ ایسا بالکل بھی نہیں کہ یہ آرڈر کسی ایک فرد ،طبقہ یا ادارہ کی خواہشات کے مطابق ترتیب دیا گیا ہے۔اس میں دو رائے بھی نہیں کہ گلگت بلتستان ایک حساس علاقہ ہے۔ اس کی حساسیت کادرست اندازہ اور فکر،سیاسی و مذہبی زعماء، بیورکریسی اور عامۃ الناس سے زیادہ پاکستان آرمی کو ہے۔اصل معنوں میں اس علاقے کے حوالے سے بنیادی فیصلے پاک آرمی نے ہی کرنے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ چارہ بھی نہیں۔

اس اصلاحاتی پیکج کی بازگشت گزشتہ تین سال سے سننے کو مل رہی تھی اور اس کی تیاری کے کئی مراحل طے ہوئے تھے۔تاہم کچھ عرصے سے گورنمنٹ آف گلگت بلتستان آرڈر 2018کے اجراء سے قبل ہی اس کے متعلق عجیب و غریب تفصیلات اور سیاسی بیانات سن کر حفیظ الرحمان صاحب کی سیاسی اپروچ پر افسوس بھی ہوتا رہا لیکن جب یہ آرڈر پی ڈی ایف فائل میں مصدقہ ذرائع سے مجھ تک پہنچا تو پڑھ کر وہ سب الزامات اور ہفوات زمین بوس ہوئے جو پالے گئے تھے اور معاشرے میں پھیلائے گئے تھے۔گلگت بلتستان کی آئینی پوزیشن پر بات کرنا میرے لیے آسان نہیں تو مشکل بھی نہیں۔اس موضوع پر کافی سے زیادہ مطالعہ کیا ہے۔ میرے ریسرچ مقالے کی ایک پوری فصل اسی موضوع پر ہے اس لیے صر ف اس موضوع پر ہزاروں صفحات اور رپورٹیں پڑھنے کا موقع ملا ہے اور درجنوں صفحات ریفرنسس کے ساتھ لکھ بھی لیا ہے۔ہر ایک کو پڑھا ہرمکتب فکر کو سنا اور پڑھا، پرانا مواد بھی، نیا مواد بھی، پہلووں کی سوچ بھی آج کی جگتیں بھی ، بند کمروں کے جائزے بھی عوامی محفلوں میں کی جانے والی جوشیلی تقاریر بھی، سرکاری ریکارڈ بھی غرض بہت کچھ۔سب ٹھیک لیکن طے شدہ بات یہ ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ہزار بار چاہنے کے باوجود بھی گلگت بلتستان کو پاکستان کا آئینی صوبہ تو کیا آئینی حصہ بھی نہیں بناسکتی۔یہ عالمی مسئلہ ہے پاکستان یا گلگت بلتستان کا نہیں۔ ہماری خواہش ہوسکتی ہے کہ ہمیں آئینی صوبہ یا آئینی حصہ بنایا جائے۔ بہترین خواہش لیکن بین الاقوامی حالت و معاہدات اور واقعات اس کی اجازت نہیں دیتیں۔سی پیک اور چائنہ کے اصرار کی وجہ سے اگر کچھ آئینی صورت بنا بھی لی گئی تو یادر کھا جائے بلتستان اور استور کو کاٹ کر ضلع دیامر اور گلگت ڈویژن کے تمام اضلاع کوایک صوبہ یا پھر وفاقی آئینی حصہ بنایا جائے گا یا کہیں انضمام کا راستہ نکالا جائے گا۔اس کے سوا پاکستانی سیاسی و عسکری طاقتوں اور آئینی ماہرین کے پاس کوئی چارہ نہیں۔نہ ہی انٹرنیشنل حالت اس سے زیادہ کچھ کرنے کی اجازت دیتی ہیں نہ ہی پاکستان اس سے زیادہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہے۔جی بی کو آئینی صورت میں دیکھنے سے پہلے ریاست پاکستان کو اقوام متحدہ میں کشمیر اور جی بی کے حوالے سے دائرکردہ موقف کا باریک بینی سے جائزہ لینے کی اولین ضرروت ہوتی ہے۔ ایسے حالات میں’’گورنمنٹ آف گلگت بلتستان آرڈر 2018ء ‘‘سے بہتر کی گنجائش موجود نہیں۔

سیاسی و عسکری اور آئینی ماہرین کی طویل سوچ و بچار کے بعد یہ ڈرافٹ تیار کیا گیا اور پھر قومی سلامتی کمیٹی سے اس کی منظوری لی گئی۔میرا وجدان مجھے یہی کہتا ہے گورنمنٹ آف گلگت بلتستان آرڈر 2018ء کی تیاری و منظوری میں سیاسی قوتوں سے زیادہ عسکری قوتوں کی مہربانی ہے۔کون کم بخت پاکستانی ہوگا جو گلگت بلتستان جیسے حسین و جمیل علاقے کو اپنا آئینی حصہ نہ بنائے اور کون گلگت بلتستانی ہوگا جو پاکستان جیسے ایٹمی ملک کا آئینی حصہ بننے کی خواہش نہ کرے لیکن بین الاقوامی معاملات ہماری خواہشات کے مطابق نہیں قانون کے مطابق طے پاتے ہیں جس کے لیے اعلی سطح پر بیٹھ کر بین الاقوامی تناظر میں معاملات کو دیکھا جاتا ہے اور اپنی خواہشات کی،عالمی قوانین کی پکڑ سے بچتے ہوئے تکمیل کی کوشش کی جاتی ہے یہی بہتر طریقہ بھی ہے۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے پاس سردست عالمی حالات و واقعات اور قوانین کے تناظر میں ’’گورنمنٹ آف گلگت بلتستان آرڈر 2018ء‘‘ سے بہتراصلاحاتی پیکج کی گنجائش بھی نہیں تھی۔ انہوں نے اپنی گنجائش کی مطابق بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کی۔ شاید اگلا قدم اس سے بھی زیادہ بہتری کی طرف گامزنی کاہوگا۔ہم لاکھ بار چاہنے کے باوجود بھی گلگت بلتستان کو مسئلہ کشمیر سے الگ نہیں کرسکتے۔مسئلہ کشمیر پاکستان اور گلگت بلتستان کے گلے کی وہ ہڈی ہے جو نہ اگلی جاسکتی نہ نگلی جاسکتی۔یہ بھی طے شدہ ہے کہ پاکستانی ریاست، اسٹیبلشمنٹ، سیاسی قیادت، گلگت بلتستان کے عوام اور ریاست کے تمام اسٹیک ہولڈر اور عوام ملک کر بھی گلگت بلتستان کو مسئلہ کشمیر سے الگ نہیں کرسکتے۔عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ ریاست پاکستان قانونی اور اخلاقی طور پر بے بس ہے کہ وہ جی بی کو کشمیر سے الگ نہیں کرسکتا۔ایسے پیچیدہ حالات میں ’’گورنمنٹ آف گلگت بلتستان آرڈر 2018ء‘‘کی مخالفت کے بجائے اس کو منزل کی طرف ایک مثبت پیش رفت سمجھا جائے تو شاید بہتر رہے گا۔اگر ہم یاد کریں تو 1947ء سے 2018ء تک گلگت بلتستان نے کئی سنگ میل طے کیے ہیں۔اس کی تفصیلات جاننے کے لیے شیرباز علی برچہ کی کتاب عکس گلگت بلتستان کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔

میں یہی سمجھتا ہوں اور سچ بھی یہی ہے کہ ’’گورنمنٹ آف گلگت بلتستان آرڈر 2018ء‘‘ نہ جی بی عوام کا ہدف ہے اور نہ ہی حرف آخر۔ اس کی حیثیت بس آئینی منزل کی طرف ایک بہترین پیش قدمی کی سی ہے۔ ماقبل کے 70سالوں میں ایسے درجنوں قدم اُٹھائے گئے اور ہر قدم میں پہلے والے قدم سے زیادہ بہتری دکھائی گئی ہے۔اصلاحاتی آرڈر2009ء کے اجراء پر ایک مکتب فکر نے حد سے زیادہ واویلا کیا اور حتی الوسع مخالفت کی اورگورنمنٹ آف گلگت بلتستان آرڈر 2018ء کے اجراء پرایک اور مکتب فکر نے مبالغہ سے کام لیااور ممکن سے زیادہ مخالفت کی۔دونوں مکاتب فکر نے سلوگن سیاسی اپنایا مگر سوچ اور ذہنیت وہی تھی جو ان کی خفیہ میٹنگوں میں دہرائی جاتی رہی ہے ۔ دونوں کا پیش منظر سیاسی ہے لیکن پس منظر مذہبی ۔اس خدشاتی سوچ نے علاقے کو قعرمذلت میں گرا دیا ہے۔۔

میری خواہش اور سوچ کے مطابق نہ سیلف امپاورمنٹ آرڈر 2009ء کافی و شافی تھا اور نہ ہی گورنمنٹ آف گلگت بلتستان آرڈر 2018ء کافی و شافی ہے۔دونوں ناقص تاہم زمینی حقائق اور بین الاقوامی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے جائزہ لیا جائے تو سیلف امپاورمنٹ آرڈر 2009ء بھی مناسب لگتا ہے اور گورنمنٹ آف گلگت بلتستان آرڈر 2018ء بھی بہتر سے بہترین کی طرف پیش رفت ہی ہے۔اور دونوں میں موازنہ کیا جائے تو دوسرا والا پہلے والے کا ایکسٹیشن ہے۔یعنی قدرے بہتر۔ آرڈر ۲۰۰۹ء میں ایڈیٹ کرکے جن چیزوں میں بہتری لانے کی کوشش کی گئی ہے وہ یہ ہیں۔گلگت بلتستان کے عوام کو زیادہ سے زیادہ بااختیار بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ قانون سازی کے تمام اختیارات گلگت بلتستان اسمبلی کو تفویض کیے گئے ہیں۔ جی بی کونسل کو ایک مشاورتی کونسل تک محدود رکھا گیا ہے۔وفاقی بیورو کریسی کی من مانیوں کا دروازہ بند کردیا گیا ہے۔ اس سے قبل ہمارے لوگ وزارت امور کشمیر اور کشمیر آفیئرز کے کسی ڈپٹی سیکرٹری یا سیکشن آفیسر کے سامنے قطاریں لگائے کھڑے ہوتے اور سیکرٹری کانا ڈویژن اور وزیرامور کشمیر تو جی بی کے سیاسی لیڈروں اور آفیسروں کے لیے وائسرائے سے کم درجہ نہیں رکھتے۔اس اصلاحاتی پیکج میں آئین پاکستان میں مرقوم تمام بنیادی حقوق کو شامل کیا گیا اور پہلی دفعہ 28ہزار مربع میل پر بسنے والے لوگوں کو پاکستانی شہری تسلیم کرلیا گیا۔گورنر کے لیے جی بی کا شہری ہونا لازمی قرار دیا گیا۔چیف کورٹ کو گلگت بلتستان ہائی کورٹ کا نام دیا گیا۔اور ججوں کی تعداد بڑھائی گئی۔سپریم اپیلیٹ کورٹ کو برقرار رکھا گیا لیکن اس کے ججز کے انتخاب کے طریقے کار کو بہتر بنایا گیا۔اپیلیٹ کورٹ کے ججوں کو کوئی فرد اپنی مرضی کے مطابق منتخب نہیں کرے گا بلکہ چھ رکنی کمیٹی منتخب کرے گی۔وزیراعظم کمیٹی کے ارسال کردہ ناموں میں کسی کو جج منتخب کرنے کا پابند ہوگا۔اپیلیٹ کورٹ کے بجائے سپریم کورٹ آف پاکستان کو گلگت بلتستان تک ایکسٹنشن دی جاتی تو زیادہ بہتر تھا۔قرآن و حدیث اور اسلامی احکام کے خلاف قانون سازی کو ممنوع قرار دیا گیا۔جی بی سول سروس کے قیام کو یقینی بنانے اور ساتھ ہی فیڈرل پبلک سروس کمیشن میں جی بی کے نمائندے کے لیے خصوصی آسامی تخلیق کرنے کی بھی صراحت کردی گئی۔یہ کام صدر پاکستان اپنے صوابدیدی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے کریں گے۔گلگت بلتستان کے انتظامی آفیسران کے لیے ملک کے دیگر مقامات اور وفاق میں خدمات انجام دینے کے لیے مواقع پیدا کرنے کی کوشش کی گئی اور جی بی میں بیرون سے آفیسروں کی آمد کا سلسلہ بھی کم کرنے کی سفارش کی گئی۔گلگت بلتستان کو معاشی اعتبار سے مستحکم کرنے کے لیے پانچ برس تک ٹیکس فری قرار دیا گیا اور این ایف سی ایوارڈ اور دیگرپالیسی ساز اداروں میں بطور مبصر نمائندگی دی گئی جو بہت ہی خوش آئند ہے۔سیاحت سمیت جنگلات اور دیگر بڑے منصوبوں پر قانون سازی کی اجازت گلگت اسمبلی کو دی گئی اور اس مد میں حاصل ہونے والی آمدنی گلگت بلتستان کی ملکیت تسلیم کرلی گئی۔اس سے گلگت بلتستان مالیاتی اعتبار سے خود کو بہتر طریقے سے مستحکم کرنے کی پوزیشن میں آگیا ہے۔آنے والے دنوں میں اس اختیار کا صحیح استعمال کیا گیا تو گلگت بلتستان صنعت و حرفت میں بڑا نام کما سکتا ہے۔مالیاتی اعتبار سے گلگت بلتستان کے چیف سیکرٹری کو زیادہ سے زیادہ بااختیار بناکر امور کشمیر کی من مانیاں ختم کردی گئی ہیں۔چیف سیکرٹری تک ہماری رسائی بہت ہی سہل ہے جبکہ امور کشمیر کے ایک سیکشن آفیسر تک رسائی کے لیے ہزاروں روپیہ کے ساتھ کئی دن کی خواری بھی شامل تھی پھر بھی کام نے نہیں ہونا تھا۔گلگت بلتستان کی زمینوں پر مرکزی حکومت کا حق ختم کردیا گیا ہے۔ اگر مرکزی حکومت کوضرورت پڑنے پر جی بی حکومت سے رجوع کرنے کی پابند بنایا گیا ہے۔اختیارات کی تقسیم میں بھی حتی الامکان بہتری کی کوشش کی گئی اور آئین پاکستان کے مطابق وزیراعظم پاکستان ان تمام اختیارات کا مالک ہوگا جو دیگر صوبوں کے لیے اس کے پاس ہیں۔اس بات میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ گلگت بلتستان کے حوالے سے بہت سارے اختیارات کا مالک وزیراعظم پاکستان کو بنایا گیا ہے ۔ میرے نزدیک یہ ترقی کی شکل ہے۔ پہلے امور کشمیر کے پاس تھے اب یہ اختیارات وزیراعظم کے پاس ہیں۔ تو براہ راست ملک کا سب سے بڑا منتطم جی بی کے معاملات کو دیکھے گا۔میرے نزدیک 2018ء کے آرڈر کی یہ سب سے بڑی خامی ہے لیکن شاید آئینی ماہرین، اسٹیبلشمنٹ اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو اس سے بہتر کوئی راہ دکھائی نہیں دیا جو عالمی لیول میں بھی قبول کی جاسکے۔ایوب خان کی بنیادی جمہوری نظام سے لے کر آج تک کا یہ سفر بتدریج ارتقائی عمل سے گزر رہا ہے۔ جو بہر صورت خوش آئند ہے۔

۱۹۷۴ء سے آج تک کے جائزے کے بعد یہی لگتا ہے کہ ہرنئی مرکزی حکومت نے گلگت بلتستان کو کچھ نہ کچھ سیاسی، انتظامی اور آئینی و قانونی حوالے سے پاور فل بنانے کی کوشش کی ہے۔ آئندہ بھی آگر دو چار وفاقی حکومتیں گلگت بلتستان کو آئینی و سیاسی حوالے سے مضبوط کرنے کی سعی کریں اور ان موجودہ اصلاحاتی آرڈروں کوایڈیٹ کرکے بہتر سے بہتر بنایا جائے تو یقین کیجیے کہ گلگت بلتستان منطقی طور پر اپنے انجام کو پہنچے گا اور بالآخر گلگت بلتستان کوعالمی سطح پر پاکستان کاآئینی شہری تسلیم کیا جائے گا۔

جملہ معترضہ کے طور پر عرض ہے کہ جب وزیراعظم پاکستان آرڈر 2018کی باقاعدہ منظوری دینے گلگت اسمبلی پہنچے تو محترم شاہد خاقان عباسی کے ساتھ گلگت اسمبلی میں جو رویہ بلکہ تضحیکی رویہ اپنایا گیا یہ انتہائی غلط تھا۔اس میں نیم متحدہ اپوزیشن کا غیر سیاسی انداز بلکہ بدتمیزی اور ساتھ میجر آمین کاجارحانہ مُکا اور حفیظ الرحمان کا غیر دانشمندانہ رویہ بھی برابر کا شریک ہے۔میجر آمین کو یہ سمجھنا چاہیے تھا کہ راجہ جہانزیب اس کا ماتحت فوجی سپاہی نہیں جو ’’یس سر ‘‘ کا عادی ہو بلکہ نڈر اور جنگجو راجہ گوہرآمان مرحوم کا پوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ اور حفیظ الرحمان اگر اپوزیشن کو عین وقت پر کھری کھری سنانے کے بجائے تھوڑا سا تحمل سے کام لیتے تو شایدمہمان وزیراعظم شاہد خاقان عباسی صاحب ہماری محبتیں سمیٹ کرجاتے لیکن اے کاش۔ دو چار لوگوں کی حماقتوں اورچند ذاتی مفادات کے پجاریوں کی وجہ سے ملک کا سب سے بڑا منتظم اعلی ہمیں ایک جاہل اور بدتمیز قوم باور کرتے ہوئے چلا گیا۔

لاریب اس پرمسرت موقع پر حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں نے اپنی بدترین پرفامنس سے نہ صرف قوم کو مایوس کیا بلکہ ملک بھر میں گلگت بلتستان کی تضحیک اور ایک آئینی سربراہ کے دل میں گلگت بلتستان کی محبت بھی ہمیشہ کے لیے مشکوک کردیا۔خاقان عباسی صاحب، ہم معذرت خواہ ہیں۔ ہم ایسی قوم نہیں۔ بس ہمارے چند لوگ دولت کے بل بوتے اسمبلی میں پہنچے اور ہماری ناک کٹوا کر رکھ دیا۔آپ ہمیں بہت ساری محبتوں سے نوازنے کے لیے آئے تھے لیکن ہمارے ممبران نے اپنی جہالت اور ہٹ دھڑمی کی بدولت نیک نامی کی بجائے بدنامی کماکر ہمیں بھی گنوار بنوادیا۔سو سوری ۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button