حکم نامے کی کہانی اور شور شرابے
انجینئر عرفان شاہد
گلگت بلتستان آڈر 2018 کو اگر آئینی صوبے کی عینک کو اتار کر صرف ایک اصلاحاتی پیکج کی نظر سے دیکھیں تو ہمیں اس میں بہت سی چیزیں مثبت نظر آ رہی ہیں۔ چونکہ ہم ایک جذباتی قوم ہیں جسے کوئی بھی اپنی مقصد کے لیے اپنی سوچ کا عینک پہنا کر استعمال کر سکتا ہے اس لیے ہم کچھ دن اس پیکج کو مسترد کر کے احتجاج کرتے رہیں گے ا ور موسم کے بدلتے ہی یا کوئی اور سانحہ کے ساتھ یہ بھی بھول جائیں گے۔ پاکستان کی بیورو کریسی اور سیاست دان ہمیں اچھی طرح سمجھتی ہے اگر ہماری سرحد چین سے نہ ملتی اور ہماری قسمت مسئلہ کشمیر کے ساتھ نہ جوڑی ہوتی تو مجھے یقین ہے کہ یہاں FCR والی بلا کا بھی خاتمہ نہیں ہوا ہوتا۔ گلگت بلتستان کی عوام کو اب سمجھ آنی چاہیے کہ ہماری اصل غلطی کیا تھی۔ ہماری پانچ لاکھ عوام مل کر دس دن کے لیے احتجاج کرتے رہیں تو بھی وفاقی سیاسی پارٹیوں اور دوسرے صوبوں کے عوام کو خبر تک نہیں ہوتی۔ ہماری میڈیا دن بھر ایک ٹیسٹ کرکٹ میچ پر تبصرے کرتے رہیں گے لیکن ہماری عوام کی آواز کوئی نہیں سنے گا۔ ایک تو کم بخت ہماری جغرافیہ اس طرح ہے کہ چیخ چیخ کر بھی آواز ان پہاڑوں کے پار نہیں پہنچتی۔ بھلا ہو چین کاجس نے CPEC کے نام سے اپنی صنعت اور تجارت کو وسیعی کرنے کا سوچا اور اس چینی شخص کا جو راستہ تلاش کر تے کرتے گلگت بلتستان آ پہنچا اور یہاں بسنے والوں کے لیے ایک نئی صبح کی نوید سنائی دی۔ ہمیں اس بات کا بھی شکر ادا کرنا چاہیے کہ پاکستان کی معیشت کمزور اور حکمران لالچی ہے اسے چین کی دوستی اور دولت بہت بھاتی ہے۔بل کھاتی ہوئی شاہراہ قراقرم پر چلتے چلتے لوگ اور وفاقی آفسر گلگت بلتستان پہنچے تو یہاں کی عوام کو دیکھ کر حیران ہو گئے۔
تعجب میں اضافہ تب ہوا جب لوگوں نے مطالبہ کرنا شروع کیاکہ ہماری زمین کو بھی آئین پاکستان میں شامل کرو اور ہمیں بھی شہری حقوق دو۔ سننے والے ہنسےکچھ بہت ہنسے اور چند ایک نیک اللہ کے بندے بھی آئے جو وعدہ کر گئے کہ آپ لوگوں کی بات کوحاکم اعلی تک پہنچائیں گے۔ سلسلہ چلتا رہا حاکم عالی بھی بدلتے رہے ہر قسم کے حاکم آئے خاکی لباس وا لے ڈنڈا والے پتلون والے شیروانی والے تسبیح والے اور چند تو ایسے جو دو تین دفعہ آئے۔ لیکن گلگت بلتستان کے لوگ وعدے کی تکمیل کا انتظار کرتے رہے۔انتظار کی بھی حد تھی کوئی آدھی سے زیادہ صدی گزر گئی لوگوں کی طبیعت میں ذرا سی شدت جو دیکھی توٹیلی ویزن کی سکرین پر ایک پٹی جل پڑی جس میں لکھا تھا کہ حاکم عالی نے اپنی آئین کی کتاب میں ناردن ایریز کو گلگت بلتستان کہنے کا حکم شامل کیا ہے اور ایک وزیر اعلی کے لیے بھی جگہ دیا ہے جو کسی بھی اختیار کا مالک نہ ہو گا۔کچھ دن تو خوشیاں منائی گئی لیکن حکم نامے کی اصلیت پتہ چلی یہ تو صرف ایک ٹوپی ڈرامہ تھی تو آئینی صوبہ کی طلب پھر زور پکڑنے لگی۔
پھر ایک صاحب حاکم اعلی بن آئے جو شلوار قمیص پہنے کے شوقین تھے۔ ان سے کسی نے کہا گلگت بلتستان کے لوگ حقوق مانگ رہے ہیں تو وہ صاحب بھی حیران ہو گئے کہنے لگے میری رعایا ء کتنی بڑی ہے اور گلگت بلتستان نام کی کوئی کونسل بھی پاکستان میں موجود ہے اور میں اس کا چئر مین ہوں اور مجھے پتہ بھی نہیں۔ گلگت بلتستان کے سب سے آخری گاوءں میں موجود کسی غریب کی دعا قبول ہو گئی اور وزیر اعظم صاحب کو یاد آیا کہ اور اس کونسل کا جرگہ بلا لیا۔ وزیر اعظم صاحب کو تب پتہ چلا کہ گلگت بلتستان کی آبادی پندرہ لاکھ کے قریب ہے اور انہیں کشمیریوں کی خوشنودی کے خاطر ذبردستی ان کے زیر اثر رکھا ہوا ہے۔ جی بی کے عوام آئینی صوبے کا مطالبہ کرتے ہیں لوگ بھی اب پہلے سے قدرے مختلف اور ماڈرن ہو گئے ہیں جو فیس بک پر اکاونٹ بنانا بھی جانتے ہیں۔ اس غریب کی آہ میں کچھ زیادہ ہی اثرتھا۔وزیر اعظم نے واپس جا کر اس بے بس عوام کی زخموں پر مرہم رکھنے کا فیصلہ کیا۔
فیصلے نے کچھ زیادہ وقت لیا تب کسی منحوس نے یہ شور مچایا کہ وزیر اعظم صاحب گلگت بلتستان کو آئینی صوبہ بنا رہے ہیں۔ سیاسی مخالف پارٹیوں نے بھی خوب عوامی جذبات کا استعمال کیا۔ حکومت کے چار دن باقی رہ گئے تھے۔ شلوار قمیض والا صاحب پھر گلگت پہنچ گئے اس دفعہ ان کی دائیں ہاتھ میں جی بی آڈر نام کا ایک حکم نامہ بھی موجود تھا۔ حکم نامہ اصلاحاتی پیکج کے تناظر میں دیکھا جائے تو کسی تحفے سے کم نہیں ہے لیکن لو گوں کو کو ن سمجھائے آئینی صوبے کی رٹ لگائے بیٹھے تھے۔
پہلی بار وزیر اعظم کی آمد پر گلگت میں پولیس کو آنسو گیس اور لاٹھی چارچ کا استعمال کرنا پڑا۔ وزیر اعظم حکم نامہ سنا کر چلے گئے اور اگر لوگ احتجاج سے فارغ ہو گئے ہیں تو حکم نامے کو ذرا پڑھ لیں۔ حکم نامہ واقعی ایک تحفہ ہے جس میں کشمیری مداخلت کو ختم کیا گیا ہے۔ ہمارے وزیر اعلی اور چیف سیکڑری کو اختیارات دیے گئے ہیں۔امداد کی شکل میں بہت سے روپے ملنے والے ہیں۔ بہت چیزیں واضح کر دی گئی ہیں انشااللہ اس کے بارے میں دوبارہ لکھوں گا۔ وزیر اعظم صاحب نے اڑان بھر لی ہے اس لیے چیخنے چلانے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ آجکل پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان ٹیسٹ میچ بھی چل رہا ہے تو ہماری عوام وہاں مصروف ہے۔ ہماری بیوروکریسی رمضان میں گرمی سے بچنے کے لیے یورپ کی سیر کے لیے نکلی ہے او ر عدلیہ سے تو رمضان ٹرا نسمشن نہیں رکتی249 اس لیے روزے میں شور شرابے سے پرہیز کریں ۔
ابھی عید آنے والی ہے اور مجھے امید ہے کہ ہم سب کچھ بھول جائیں گے۔