ایم ایم اے ٹکٹوں کی تقسیم اور اندر کی کہانی
تحریر : محکم الدین ایونی
ان دنوں جمیعت ا لعلماء اسلام اور جماعت اسلامی جو ایم ایم اے کی صورت میں حلیف جماعتیں ہیں ۔ کے مابین چترال کی ایک قومی اور ایک صوبائی سیٹ کی تقسیم کے حوالے سے تنازعہ شدت اختیار کر گیا ہے ۔ اور جماعت اسلامی کی ضلعی قیادت نے صاف الفاظ میں ایم ایم اے سے ناطہ توڑنے اور اپنی علیحدہ انتخابی مہم چلانے اور اپنے جھنڈے تلے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے ۔ اور یہ خبریں اخبارات اور سوشل میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہیں ۔ جس سے چترال کا اور خصوصا ایم ایم اے کا سیاسی ماحول ماہ جون کی تپش سے بھی کئی ڈگری بڑھ گیا ہے ۔ بظاہر یہ جمیعت اور جماعت کا تنازعہ معلوم ہوتا ہے اور سوشل میڈیا میں جماعت کے رفقا اسے اسی طرز پر پیش کرتے ہیں ۔ لیکن واقفان حال بتاتے ہیں کہ حقیقت اس سے بالکل مختلف ہے ۔ اورکہا جا رہا ہے کہ یہ جماعت کے دو بڑوں کے اختلاف کی وہ کہانی ہے جس کی سکرپٹ 20013کے الیکشن کے بعدبتدریج لکھی گئی اور یہ باہمی بے اعتمادی اور حصول اقتدار کی وہ خفیف لالچ ہے ۔ جسے جمیعت پر عدم رواداری کے الزمات لگا کر ہر دو شخصیات اپنے لئے حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔ ٹکٹوں کی تقسیم کے اس قضیے کے حل کیلئے گذشتہ چند روز کے دوران کئی نشستیں ہوئیں ۔ لیکن تاحال مسئلے کے حل کی کوئی صورت سامنے نہیں آئی ہے اور نوبت صوبائی امیر جماعت اسلامی مشتاق احمد تک جا پہنچی ہے ۔ جو دیر میں بھی سیٹوں کی تقسیم پر اُٹھنے والے اختلافات کی وجہ سے تاحال چترال نہیں پہنچ سکے ہیں ۔ جس کا انتظار کیا جارہا ہے ۔ تاہم جماعت کے دوبڑوں نے اپنے کاغذات نامزدگی حاصل کئے ہیں اور کسی بھی وقت ریڑننگ آفیسر کے پاس جمع کریں گے ۔ لیکن جے یو آئی کی طرف سے کوئی زیادہ پریشانی دیکھنے میں نہیں آ رہی جو جذبات اقتدار کے حصول کیلئے جماعت اسلامی میں نظر آرہی ہے ۔
جماعت اسلامی کی ضلعی قیادت کی طرف سے مسلسل یہ الزامات جے جو آئی پر لگا ئے جا رہے ہیں کہ وہ سیٹوں کی تقسیم میں رواداری کا مظاہرہ نہیں کر رہا ۔ جبکہ جے یو آئی کا دعوی ہے کہ انہوں نے ہمیشہ جماعت اسلامی کے ساتھ رواداری کا سلوک کیا ۔ جس کی مثال سابقہ الیکشن میں ایم ایم اے کے امیدوار مولانا عبدالاکبر چترالی کو قومی سیٹ دینا اور حالیہ بلدیاتی الیکشن میں ضلعی نظامت میں حاجی مغفرت شاہ کی کامیابی بطور مثال موجود ہیں ۔ اور اب بھی جماعت اسلامی کے نامزد امیداوار مولانا عبدالاکبر چترالی کو قومی اسمبلی کی نشست بخوشی دی گئی ہے ۔ جس میں وہ دلچسپی رکھتے ہیں ۔ اور جے یو آئی کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ اب یہ تو ممکن ہی نہیں ہے کہ قومی اور صوبائی کی ایک ایک نشستیں دونوں جماعت اسلامی کے حوالے کئے جائیں ۔ جے یو آئی کی باتوں میں کسی حد تک وزن دکھائی دے رہا ہے ۔
سیانے لوگ اس بات کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آخر یہ اختلاف ہے کیا ۔ تو اس سلسلے میں شنید ہےکہ جس طرح دوسری جماعتوں میں بھی اختلاف رائے موجود ہیں ۔ وہ جماعت اسلامی کے اندر بھی موجود ہے ۔ لیکن اختلاف رائے کے دونوں محرک مضبوط اور طاقتور ہیں ۔ اور جماعت کے اندر اپنے اپنے حلقے رکھتے ہیں ۔ لیکن بد قسمتی سے الیکشن میں اُن کے حصے میں صرف ایک سیٹ آنی ہے ۔ اور اس پر صرف ایک اُمیدوار ہی الیکشن لڑ سکتا ہے ۔ دونوں کا الیکشن لڑنا ممکن نہیں ہے ۔ اور مبینہ طورپر مولا چترالی نامزدگی پہلے ہو چکی ہے۔ جسے جماعت اسلامی چترال کی ضلعی قیادت ماننے کیلئے تیار نہیں ہے ۔ یو ں جماعت اندرونی اختلاف کو جے یو آئی کے گلے میں باندھنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ جس سے ایم ایم اے کی کشتی کو سمندر میںُ اتارنے سے پہلے ہی اس میں سوراخ ہونے کا خدشہ نظر آرہا ہے ۔ اس کشتی پر سوار جو افراد اقتدار کی کُرسیوں تک پہنچنے کے خواب دیکھ رہے ہیں اُن کے خواب اُس وقت تک شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتے جب تک باہمی اتفاق کی رسی کو نہ پکڑیں اور میں میں کی بجائے ایم ایم اے کی طرف توجہ دیں۔ لیکن کیا یہ اب ممکن بھی ہے ۔ اس پر سوالیہ نشان ہے ۔