کالمز

غریب صوبے کے حکمران۔۔۔۔اورمہنگی گاڑیاں

گلگت بلتستان پاکستان کا واحد خطہ ہے جس کی اپنی کو ئی زیادہ آمدنی نہیں کہ یہ صوبہ اپنے وسائل پر کھڑ اہوسکے جس باعث وفاقی حکومت اس صوبے کو نہ صرف گندم میں سبسڈی دے رہی ہے بلکہ سالانہ ترقیاتی بجٹ کے اربوں روپے بھی حکومت پاکستان ادا کر رہا ہے چونکہ صوبے کی اتنی آمدنی نہیں کہ یہاں کی حکومت خطے کے عوام کو یہاں کے وسائل اور آمدنی سے بجٹ پیش کرئے مگر گزشتہ دنوں روزنامہ اوصاف میں شائع ہونے والی ایک خبر نے پورے خطے کے عوام کو چونکا دیا ہے کہ علاقے کے ترقیاتی بجٹ 2017-18 میں ایک ارب اسی کروڑکی رقم سے گاڑیاں خریدی گئی یہ خطیر رقم ان مہنگی گاڑیوں پر خرچ کی گئی اگر یہ رقم کسی ترقیاتی کام پر لگا دیا جاتا تو اس سے ہزاروں افراد کو فائدہ پہنچ سکتا تھا کم از کم اس رقم سے گلگت بلتستان کے دو ڈسٹرکٹ تک پکی سڑک کی تعمیر ہوسکتی تھی ایسے سرکاری آفسیران کو بھی گاڑیاں تقسیم کی گئی جو اس کا استحقاق بھی نہیں رکھ سکتے تھے ملک کے دیگر صوبوں میں گریڈ سترہ کے آفسیران کے پاس سرکاری گاڑی کی سہولت تک موجود نہیں ہوتا بلکہ وفاق میں ڈپٹی سیکرٹری تک کے عہدے رکھنے والے آفسیران بھی بغیر گاڑی کے دفتر آتے ہیں مگر گلگت بلتستان میں بعض گریڈ سترہ کے آفیسران کے پاس دو ہزار اور پچیس سو سی سی گاڑیاں ہیں جو شاید ملک میں گریڈ اکیس کے آفسیران کے پاس بھی نہ ہو پھر ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ گلگت بلتستان ملک کا پسماندہ اور غریب علاقہ ہے اگر یہ خطہ غریب ہے تو یہاں کے آفسیران کے پاس اتنی قیمتی گاڑیاں کہاں سے آگئی ایک طرف ان گاڑیوں پر ملک کے خزانے سے پونے دو ارب روپے کا ٹیکہ لگا دیا گیا تو دوسری طرف یہ رقم بھی ترقیاتی بجٹ سے ادا کی گئی اور صاف الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیا چونکہ بقول اخباری رپورٹ کے ان گاڑیوں کی رقم ترقیاتی بجٹ سے ادا کر دی گئی حالانکہ ہمارے حکمران وفاق کے پاس جب کشکول لیکر جاتے ہیں تو حکمرانوں کے پاس جاکر گلگت بلتستان کے عوام کی غربت کا رونا رو کر رقم لاتے ہیں اور یہ رقم عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ کرنے کی بجائے اپنی عیاشیوں پر خرچ کیا جاتا ہے شایدملک میں گلگت بلتستان کا واحد علاقہ یا صوبہ ہوگا جہاں کے حکمرانوں اور بعض سرکاری آفسیران کے پاس ملک کے دیگر صوبوں کے حکمرانوں اور سرکاری آفسیران سے زیادہ مہنگی گاڑیاں موجود ہیں تو پھر ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ گلگت بلتستان ایک غریب صوبہ ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ گلگت بلتستان ایک پسماندہ علاقہ ہے جہاں کے عوام کو نہ تو آمد ورفت کی سہولتیں دستیاب ہیں نہ ان کو پینے کا صاف پانی میسر ہے اور نہ بجلی مل رہی ہے اور نہ ادویات مگر حکمرانوں کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ وہ عوام کے مفادات کے بارے میں سوچے اور خطے کے عوام ہیں جن کے مسائل ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں ہر سال وفاق دل کھول کر یہاں کے عوام کو بجٹ فراہم کرتی ہے بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ایک طرف ترقیاتی بجٹ کے لئے اربوں روپے دے رہی تو دوسری طرف گندم میں بھی کروڑوں روپے کی سبسیڈی دے رہی ہے وفاقی حکومت طرف سے دی جانے والی رقم کو ترقیاتی منصوبوں پر درست طریقے سے خرچ کیا جاتاتو یہ علاقہ آج ترقی کے میدان میں ملک کے دیگر صوبوں سے بہت آگے نکل سکتا تھا مگر غلط حکمت عملی اور بجٹ کا غلط استعمال سے آج خطے کے عوام کے مسائل ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں مگر دوسری طرف ہمارے حکمرانوں کو کوئی احساس تک نہیں کہ وہ یہاں کے عوام کے مسائل کو حل کرسکے اگر ایک سال میں اتنی گاڑیوں کی خرید میں سرکاری خزانے سے ایک پونے دو ارب سے زائد رقم خرچ ہوگئی ہے تو پیپلز پارٹی کے دور حکومت سے اب تک خالی گاڑیوں کی خرید اری میں کتنی رقم خرچ ہوئی ہوگی جب یہ حقیقت سامنے آئیگی تو پتہ چلے گا کہ گلگت بلتستان کا اصل ترقیات بجٹ کہا ں خرچ ہوتا ہے اس حوالے محکمہ فنانس کی زمہ داری بنتی ہے کہ پورے حقائق سے عوام کو آگاہ کیا جائے کہ سابق صوبائی حکومت اور موجودہ صوبائی حکومت نے گاڑیاں خدیدنے کے لئے حکومت کے خزانے یعنی عوام کا کتنا پیسہ اپنی عیاشوں پر لگا دی اس کے علاوہ جن آفسیران اور حکمرانوں کوجو گاڑیاں فراہم کی گئی ہے کیا وہ اس کا استحقاق رکھتے تھے یا نہیں اگر نہیں تو پھر اتنی مہنگی گاڑیاں خریدنے کی اجازت کس نے دی ایک طرف اربوں روپے کی گاڑیاں خریدی گئی ہے اوپر سے ان کا سا لانہ فیول اور منٹننس خرچہ بھی کروڑوں میںآتا ہوگا یہ بھی اطلاعات ہیں کہ غذر کے ہیڈ کوارٹر گاہکوچ سلپی پل کے لئے مختص رقم میں سے بھی تین مہنگی گاڑیاں خرید لی گئی حالانکہ اس رقم سے سلپی سے چٹورکھنڈ تک کی خستہ حال سڑک میٹل ہوسکتی تھی مگر حکمرانوں کو عوام کی سہولتوں سے کیا غرض ان کو تو صرف اپنی فکر لگی ہوئی ہے یہ لوگ عوام کے ساتھ مخلص ہوتے تو کبھی بھی اتنی مہنگی گاڑیاں خرید کر ملک کے خزانے اور عوام کو نقصان نہیں پہنچا سکتے یہ اسلام آباد بھی یاترا اس لئے کرتے ہیں کہ عوام کی پسماندگی کا رونا رو کر وفاق سے پیسے لایا جائے اور رقم عوام کے فلاح وبہبود کی بجائے اپنے سیر سپاٹوں کے لئے مہنگی گاڑیاں خرید پوری کی جائے اس حوالے سے حکومتی زمہ دارحلقوں سے اپیل ہے وہ باقاعدہ طور پر تحقیقات عمل میں لائے کہ جن آفسیران اور حکمرانوں کو اس طرح کی مہنگی گاڑیاں خریدنے کا استحقاق نہیں تھا تو انھوں نے ملک کے خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان کیوں پہنچا یا اور اتنی بڑی رقم ریلیز کرنے والے حکام کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہئے کہ بغیر استحققاق رکھنے والے افراد کو اتنی مہنگی گاڑیاں خریدنے کی اجازت کیوں دی اگر پیپلز پارٹی کے دور حکومت سے لیکر مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت تک خرید ی گئی گاڑیوں کی رقم گلگت بلتستان کی سڑکوں کی تعمیر پر لگا دیا جاتا تو خطے کی تمام سڑکیں میٹل ہوچکی ہوتی غریب عوام کے حقوق ڈاکہ ڈالنے والے کوئی بھی ہو ان کے خلاف کارروائی کرنا وقت کی ضرورت بن گئی ہے ۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button