ٹکٹو ں کا موسم
وطن عزیز میں ٹکٹو ں کا موسم آیا ہے ۔ اور ٹکٹ بے چارے نے انگریزی سے اردو میں آکر اپنا تلفظ بھی کھو دیا اپنے معنی بھی کھودیے۔ انگریزوں کا’’ ٹکٹ ‘‘ اردو، پنجابی اور پشتو میں آکر ’’ ٹی کیٹ ‘‘ ہوگیا پھر دیہات کی بزرگ خواتین اڑوس پڑوس کے بزرگ مردوں سے سنکر اس کو ’’ ٹی کس‘ ‘ بولتی ہیں ۔دکان پر ، مسجد میں گھر پر ، شادی غمی کی تقریب میں ہر جگہ یہی سننے میں آتا ہے ۔ گل خان کوٹی کس ملا ہے ، حاجی کو ٹی کس نہیں ملا۔ آج اخبار کی ایک خبر نے ہم کو چونکا دیا ۔ راولپنڈی سے خبر آئی تھی کہ خاتون رہنما نازیہ راحیل نے ٹوبہ ٹیک سنگھ حلقہ پی پی 122 میں ن لیگ کے ٹکٹ کیلئے درخواست دی ۔ درخواست کے ساتھ ٹکٹ کا صدقہ ن لیگ کے خزانے میں جمع کیا ابھی وہ ٹکٹ کے انتظار میں تھی کہ اخبار میں بنی گالہ سے جاری ہونے والے تحریک انصاف سے ٹکٹ لینے والوں کی فہرست شائع ہوئی اُس فہرست میں جلی حروف میں نازیہ راحیل کا نام لکھا ہے ۔ نازیہ راحیل نے جوابی بیان جاری کیا ہے کہ میں نے تحریک انصاف کے ٹکٹ کے لئے درخواست نہیں دی۔ مجھے یہ ٹکٹ نہیں چاہیئے۔ گاؤں کی بوڑھی خواتین مبارک باد دینے آرہی ہیں ۔ نازیہ راحیل مبارک باد وصول کر نے سے انکاری ہے ۔ ایک معمر خاتون نے لاٹھی ٹیکتے اور دھاگے سے باندھے ہوئے چشموں کو ناک پر درست کرتے ہوئے کہنے لگی بیٹی تم خوش قسمت ہو، تمہاری ماموں فوجی حوالدار ہیں ۔ انہوں نے دیکھا ہوگا کہ ’’تاریک انصاف ‘‘ جیتنے والی ہے اس لئے یہ ٹی کس تمہیں بھیج دیا ۔ شکر کرو کہ کسی نے تمہارا نام لیا ہے ۔ مگر ناز یہ راحیل کا معاملہ اُس شخص کی طرح ہے جس کو لوگ کندھوں پر اُٹھا کر ’’ شہنشاہ زندہ باد ‘‘ کا نعرہ لگا رہے تھے اور وہ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا ۔ میں بادشاہ بننا نہیں چاہتا۔ کوہاٹ اور مردان میں ٹکٹ کا الگ پھڈا دیکھنے میں آرہا ہے۔ سوات کے مراد سعید کو ٹکٹ مل گیا ۔ علی محمد خان اور شہریار آفریدی کو مردان اور کوہاٹ سے ٹکٹ نہیں ملا ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ دونوں رنجیت سنگھ والے ’’ منجور نا منجور ‘‘ کے چکر میں پھنس گئے۔ بعض کہتے ہیں کہ ’’ املوک کے تول ‘‘ میں آگئے مگر دونوں محرونِ ٹکٹ خاموش ہیں ۔ تحریک انصاف نے شاید پورا منصوبہ ترتیب دیا ہے اس منصوبے کی رو سے حکومت ملنے کے بعد علی محمد خان کو صوبائی گورنر لگایا جائے گا ۔ شہریار آفریدی امریکہ میں پاکستان کے سفیر ہونگے ۔ اس لئے ان کو ٹکٹ دے کر انتخابی دنگل میں جھونک دینے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ دونوں پارٹی کا اثاثہ ہیں اور شاید مرادسعید سے بہتر اثاثہ ثابت ہوں گے ۔ ٹکٹ کے اور بھی پھڈے اخبارات میں مذکور ہیں ۔ دو کالمی خبریں دو خواتین کے ایک دوسرے پر تابڑ توڑ حملوں کی آرہی ہیں ۔ چترال سے تعلق رکھتے والی سابقہ ایم پی اے فوزیہ بی بی نے تحریک انصاف سے توبہ تائب ہوکر امیر مقام سے ملاقات کی ہے اور مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے اُن کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) کے جلسوں میں 5سالوں سے دھواں دھار تقریریں کرنے والی خاتون ورکر بی بی جان کا دعویٰ ہے کہ ٹکٹ پر ان کا حق زیادہ ہے ۔ ن لیگ کے باخبر حلقوں کا کہنا یہ ہے کہ ہم نے پی ٹی آئی کی وکٹ لی ہے ۔ پارٹی میں آنے والی سابقہ ایم پی اے وکٹ ہے ۔ اس کو ٹکٹ دینا ہماری ترجیحات میں شامل ہے بی بی جان نظریاتی ورکر ہے۔ اس کو نظریے پرصبرکر نا چاہیئے ۔ جیسا کہ ایک مذہبی جماعت کے لیڈر نے نظریاتی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ’’ جان لڑاؤ پسینہ بہاؤ‘‘ تم نظریاتی لوگ ہو تمہاری محنت سے میری دنیا اور تمہاری آخرت سنور جائے گی ‘‘ مگر بی بی جان کے چاہنے والوں کا موقف یہ ہے کہ دوسری پارٹی سے آنے والی خاتون پر ’’ لوٹا کریسی ‘‘ کا الزام ہے مشکل یہ ہے کہ ان کو اردو کے گرامر میں ’’ لوٹا ‘‘ کا مونث نہیں ملتا ایک ماہر علم قواعد سے پوچھا تو اس نے کہا لو ٹا بھی لشکر اور عسکر کی طرح کا لفظ ہے۔ مذکرہی بولا جاتا ہے ۔ قواعد زبان اردو لکھتے وقت مولوی عبد الحق کو اندازہ نہیں تھا کہ ’’ لوٹا ‘‘ سیاست میں مستعمل ہوگا ۔ اور اس لفظ کے مونث کی ضرورت اُس وقت پڑے گی ۔ جب کوئی معزز خاتون اپنی پارٹی چھوڑ کر دوسری پارٹی میں چلی جائے گی ۔ ن لیگ والے بہرحال فائدے میں ہیں ۔ ان کی کارکن نازیہ راحیل نے پی ٹی آئی کا ٹکٹ واپس کردیا ہے ۔ پی ٹی آئی چھوڑ کر آنیوالوں کو وہ مخصوص نشست کا ٹکٹ تھوک کے حساب سے دے رہے ہیں ان کو معلوم ہے انتخابات کے بعد مخصوص نشستوں پر کسی کو منتخب کر نے کی نوبت نہیں آئے گی ۔ خلائی مخلوق کی مہربانی سے مخصوص نشستیں مخالفین کے حصے میں آئیں گی ۔ اگر یہ صورت حال ہے تو جھگڑا کس بات کا ؟ شاید یہ لہو گرم رکھنے کا بہانہ ہے ۔
پلٹ کر جھپٹنا ، جھپٹ کر پلٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے ایک بہانہ