کالمز

چیف سیکرٹری کا رویہ اور عوامی رد عمل

سعدیہ مہ جبیں

دو دنوں سے سوشل میڈیا پر چیف سیکرٹری صاحب کا دورہ بلتستان اور ضلع گانچھے کے واحد ہسپتال ڈی ایچ کیو ہسپتال خپلو میں عوامی نمائندوں کے ساتھ کی جانے والی ہتک امیز گفتگو زیر بحث ہے.

عوام اپنے غم و غصہ کا اظہار کہیں احتجاج کی صورت میں تو کہیں چیف سیکرٹری کے خلاف نعرے لگانے کی صورت میں نکال رہے ہیں. جوکہ نہ صرف ضلع گانچھے میں جاری ہے بلکہ بلتستان کے دیگر تین ضلعوں بشمول گلگت کے جاری ہے…

چیف سیکرٹری صاحب کی گفتگو انتہائی نامناسب اور بدتمیزی پر مبنی تھا، موصوف کو ایک گائناکالوجسٹ کی تعیناتی بارے درخواست کیا گیا تو صاحب بہادر ناراض ہو گیا، اور عوامی نمائندے کی سرزنش کی اور اسے سیاسی نمبر سکورنگ بتا کر چپ کرانے کی کوشش کی. پھر اس سے بڑھ کر موصوف کا کہنا تھا یہاں دوران زچگی خواتین کی اموات کی تعداد صرف پنتیس ہے، آپ کہہ رہے ہو ہماری مائیں بہنیں مر رہی ہے.

جناب عالی ایک سال کے عرصے میں پینتیس عورتوں کی اموات آپ کے لئے تھوڑا تھا تو آپ کیا چاہتے ہیں؟

آپ کو سو دو سو عورتوں کی اموات چاہئے ؟

جناب عالی ہماری خاموشی اور شرافت کا آپ غلط فائدہ اٹھا رہا ہے، ہماری ماؤں بہنوں اور عوامی نمائندوں کی اس طرح کی تذلیل انتہائی نامناسب ہے کیا ایک سرکاری افسر کا عوام کے ساتھ یہی رویہ ہوتا ہے..؟

اب ہمیں گائناکالوجسٹ چاہئے ہر حال میں چاہئے، ہمارے نمائندے اس بات کو یقینی بنائیں ضلع گانچھے کے عوامی ووٹوں سے منتخب نمائندے کہاں سوئے ہوئے ہیں..؟

ایک لیڈی نمائندے کو چھوڑ کر کسی بھی نمائندے نے اس پر بات تک کرنا گوارا نہیں کی، جس لیڈی نمائندے نے اس پر بات کی وہ بھی صرف عوام کو شانت رہنے کا کہا اور چیف سیکرٹری صاحب کی بات پر حکومت کی طرف سے مکمل تحقیقات کر کے کاروائی کرنے کا عندیہ دیا…

اگر آپ چھے نمائندے ملکر ایک گائناکالوجسٹ کو ضلع میں تعینات نہیں کر سکتے تو اسمبلی سے استعفیٰ دیں، نہیں تو ضلع گانچھے جسے منی لاہور کہا جاتا ہے اب ایک خواب ہی رہیں گے. خاص کر حلقہ نمبر (1) کے عوام نے پچھلے دو الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ کے کنڈیڈٹ کو یہاں سے جتوایا ہے، اور ضلع گانچھے کے صدر مقام خپلو کو منی لاہور کا خطاب بھی دیا.

2015 کی الیکشن میں تو پورے ضلع سے نون لیگ نے کلین سویپ کیا، اور گزشتہ دو سال سے ایک گائناکالوجسٹ بارے وزیراعلیٰ صاحب سے بھی درخواست کی لیکن وعدہ کرنے کے باوجود کوئی شنوائی نہیں ہوئی، مختلف  اخبارات میں خبریں شائع ہوا لیکن ابھی تک معاملہ جوں کا توں ہے جوکہ یہاں سے منتخب نمائیندوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے..!!

ہمارے نمائندے روڈ اور پل بنانے میں مصروف ہیں انکو بنیادی ضروریات کے بارے معلوم نہیں ہے یا جان بوجھ کر ایسا کر رہا ہے. جہاں تعلیم اور صحت کی شعبے کو مستحکم کرنا چاہئے تھا وہاں یہ لوگ سڑکوں اور پلوں کے بنانے پر اربوں روپے خرچ کر رہے ہیں.

ہمیں سڑک اور پل سے زیادہ صحت اور تعلیم کی ضرورت ہے پورے ضلع کے لئے ایک ہی ہسپتال ہے لیکن یہاں بھی کوئی فسیلٹی میسر نہیں، یہاں آپریشن تھیٹر موجود ہے لیکن آپریشن کرنے والا ڈاکٹر موجود نہیں، یہاں پر کوئی ڈاکٹر آنے کو تیار نہیں کیونکہ اسے سکردو میں اپنا میڈیکل سٹور بھی چلانا ہے. بہت دکھ ہوتا ہے ایسے لوگوں کی رویوں کو دیکھ کر یہ لوگ پڑھے لکھے ہیں اور مسلمان بھی ہے جن کو انسانیت کی کوئی قدر نہیں..!!

تعلیم کے شعبہ الگ سے زبوں حالی کا شکار ہے، بس فری میں کتابیں تقسیم کر کے ہمارے نمائندے اور ادارے سمجھ رہے ہیں سب کو تعلیم یافتہ بنا دیا، اس پر الگ سے بحث کریں گے.

اب آتے ہیں چیف سیکرٹری صاحب کی گفتگو میں کیا گیا دوسرا ٹاپک پر موصوف کا کہنا ہے تم گلگت بلتستان والوں کو حکومت پاکستان سالانہ ایک سو ارب روپے فنڈز دیتے ہیں اور بدلے میں تم لوگ ایک روپیہ بھی ٹیکس نہیں دیتے..!!

جناب ہم یہ نہیں کہیں گے کہ ہم متنازعہ علاقہ ہے اس لئے ہم ٹیکس نہیں دیتے یہ تو ایک مسلم حقیقت ہے کہ کوئی بھی متنازعہ علاقہ ٹیکس دینے کا ذمہ دار نہیں اگر ٹیکس لاگو ہوں گے تو پہلے آزاد کشمیر کی حکومت سے ٹیکس لیں پھر ہم دیں گے.

ہم صرف یہ کہیں گے آپ ہمیں سو ارب روپے نہ دیں ہمیں اسکی ضرورت نہیں، آپ ہمیں دریائے سندھ کا ریالٹی دیں ، آپ ہمیں دیامر بھاشا ڈیم کا ریالٹی دیں، آپ ہمیں سیاحت کے شعبے میں کمانے والے پیسوں سے ہمارا حصہ دیں، آپ ہمیں ہماری معدنیات سے حاصل ہونے والے پیسوں سے ہمارا حصہ دیں، آپ ہمیں پاک چین راہداری پر ریالٹی دیں ہمیں سو ارب نہیں چاہئے…

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button