کالمز

حجاج، کیلاش اور پولیس

شمس الرحمن تاجک

صدیوں پہلے کے ایک دربار کا ذگر کرتے ہیں دربار میں ایک پیغام رساں پیش ہونے کی اجازت چاہتے ہیں۔ پیغام ایک خاتون کی طرف سے اس زمانے کے مسلمان حکمران حجاج بن یوسف کے نام پر ہے۔ سالوں کی مسافت پر واقع دیبل کے مقام پر کسی مسافر نے ایک خاتون کو فریاد کرتے ہوئے سنا تھا کہ ان پر ہونے والی ظلم کا مسلمان ہونے کی حیثیت سے بدلہ لیا جائے۔ ان کا پیغام سنا جاتا ہے فوج کو تیاری اور حملے کا حکم دیا جاتا ہے، سالوں کا سفر پا پیادہ یا گھوڑوں پر طے کیا جاتا ہے ، دیبل فتح کیا جاتا ہے۔ مظلوم کو انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جاتی ہے۔ اس سارے منظر نامے میں جو سب سے اہم بات ہے وہ بھروسہ ہے۔ فریاد کرنے والی خاتون کو مکمل بھروسہ تھا کہ حجاج بن یوسف ان کی فریاد ضرور سنیں گے۔ اور حجاج بن یوسف نے بھی فریادی کے بھروسے کو نہیں تھوڑا۔ بلکہ ظلم سے نجات دلا کر اس بھروسے کو مزید تقویت دی۔

صدیوں بعد چترال میں ایک واقعہ پیش آتا ہے۔ واقعے کے مظلوم خواتین پولیس کو پکارتی ہیں۔ دو سال تک پولیس خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی ہے۔ دو سال بعد واقعے کی مووی کلپ عام عوام تک پہنچتی ہے، سوشل میڈیا کا جن بے قابو ہوجاتا ہے۔ پولیس روایتی بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے موقف پیش کرتی ہے کہ یہ کلپ دو سال پرانی ہے۔ اگر دو سال پہلے آپ کو پتہ تھا تو آپ کو مبینہ ملزم کو عبرت کا نشان بنا کر مظلوم کیلاش لڑکیوں کو انصاف دلانا چاہئے تھا۔ جب سوشل میڈیا نے چیخنا شروع کیا تو آپ کو یاد آیا کہ اپنے آپ کو پولیس والا کہہ کر لڑکیوں کے ساتھ ظلم کرنے والے شخص کو ڈھونڈنا چاہئے۔ کم از کم چترال پولیس جیسے نیک نام ادارے کی عزت کا تو خیال رکھا جاتا۔ پولیس کا نام لے کر پورے ڈیپارٹمنٹ کو بدنام کرنے والے شخص کو قرار واقعی سزا تو دی جاتی۔اگر دو سال پہلے پولیس کو پتہ تھا کہ اتنی زبردست قسم کی ہراسمنٹ ہوئی ہے اور وہ بھی چترال جیسے پرامن علاقے کے معصوم بچیوں کے ساتھ۔ تو اب تک پولیس کا کردار کیا رہا ہے۔ اگر دو سال تک پولیس اس شخص تک نہیں پہنچ پایا کیا اگلے کئی صدیوں تک اس شخص کا پتہ چلا سکتی ہے۔ حالانکہ عام آدمی کو اس شخص کے فیس بک اکاؤنٹ تک ازبر ہیں۔ کیا پولیس کی خاموشی آئندہ کے لئے ایسے عناصر کو شہہ دینے کا موجب نہیں بنے گا۔

یہاں سب سے اہم بات پاکستان بھر سے آنے والے سیاحوں کو پتہ نہیں کیوں اس بات کا یقین ہے کہ کیلاش لوگ مغربی دنیا سے بھی زیادہ مدرپدر آزاد لوگ ہیں۔ وہ کوئی تہذیب، خاندانی نظام، مذہب اور گناہ و ثواب کا تصور نہیں رکھتے۔ حالانکہ کیلاش قبائل دنیا کے سب سے مہذب لوگ ہیں۔ سب سے زیادہ مظبوط خاندانی نظام رکھتے ہیں۔ ان کے مذہب میں بھی اچھائی کو اچھا اور برائی کو برا ہی سمجھا جاتا ہے۔ اور گناہ پر سزا، اچھے اعمال پر جزا کا نظام دنیا کے تمام مذاہب سے زیادہ پایا جاتا ہے۔ چترال کے کیلاش بیٹیوں کے بارے میں ایسی رائے قائم کروانے میں ہم چترال کے لوگوں کا کردار رہا ہے ہم نے ان کے مظبوط کردار، مذہب، بہترین خاندانی اور معاشرتی نظام کو ایک مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔ وجہ اس کی صرف ایک ہے کہ وہ اقلیت میں ہیں۔ بیرونی دنیا ہماری ان معصوم اور پیاری بیٹیوں کے ساتھ ہمارے گھر کے برآمدے میں کھڑے ہو کر بدتمیزی کرتی ہے اور ہم تماشا دیکھتے ہیں۔اس سے بڑھ کر بے غیرتی کیا ہوگی۔

مگر پھر اس ظلم کی انتہا والی مووی کلپ میں ایک بے انتہا مان اور بھروسے کا ذگر ہے۔ کسی کیلاش لڑکی نے یہ نہیں کہا کہ وہ اپنے ماں باپ یا بہن بھائی کو بلائے گی بلکہ ماں باپ سے بھی بڑھ کر ان لڑکیوں نے پولیس کو بلانے کا اوراپنی حفاظت کرنے کا کہا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کیلاش لڑکیوں کو اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں سے بھی زیادہ چترال پولیس پر بھروسہ ہے۔ وہ دل سے سمجھتے ہیں کہ چترال پولیس ان کی حفاظت کے لئے موجود ہے ان کا یہ بھروسہ چترال پولیس کی اب تک کی کارکردگی کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ غلط بھی نہیں ہے۔ اب یہ چترال پولیس پر منحصر ہے کہ وہ اس مان کو کس انداز سے برقرار رکھتی ہے۔ اس بھروسے کو کیسے پختہ یقین میں بدل سکتی ہے۔ ہم چترال پولیس کی سابقہ روایات اور کارکردگی کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی کیلاش بہنوں کے لئے جلدی اور فوری انصاف کی توقع رکھتے ہیں۔ ساتھ میں یہ توقع بھی رکھتے ہیں کہ وڈیو میں نظر آنے والی کیلاش بہنوں کو تھانوں میں بلا کر تنگ نہیں کیا جائے گا بلکہ ان سے کچھ پوچھنا بھی ہوا تو ان کے گھروں میں جاکر چترال کی روایتی احترام اور تہذیب کو مدنظر رکھ کر ان سے معلومات لئے جائیں گے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button