دیس کا وارث
تحریر: شکورخان ایڈووکیٹ
گلگت بلتستان ہمارے باپ دادوں کی سرزمین اور ان کے آباواجداد کا وطن ہےماضی میں جس کی سرحدیں پھیلتی اور سکڑتی رہی ہیں، بارہا پڑوسی قوتیں حملہ آور ہوکر مختصر مدت کے لیے غالب ہوئیں لیکن اکثر مغلوب ہوئیں۔ کشورکشائی قدیم باشندہ گان گلگت بلتستان کا شیوا رہا، عہد قدیم میں پڑوسی ریاست بدخشان کے تاجکوں اور مشرقی ترکستان کے ساتھ جھڑپیں ہوتی اور طویل جنگیں لڑی جاتی رہی ہیں اور ساتھ ساتھ مال کے بدلے مال کی قدیم تجارت بھی بلا روک ٹوک جاری رہتی تھی، رشتے ناطے کا یہ عالم تھا کہ کسی کی بہن اس طرف بیاہی جاتی تو کسی کی بہو ادھر سے لائی جاتی۔
تعلق تب بھی بلا تعطل قائم رہا جب بدخشان قدیم آریانہ کا حصہ تھا اور اس زمانے میں بھی جب بدخشان مملکت خراسان کا تجارتی مرکز ہوا کرتا تھا۔
شہر دوشنبہ آج تاجکستان کا دارلخلافہ ہے، سمرقند اور بخارا مملکت ازبکستان کے مرکزی شہر ہیں، کمیونسٹ انقلاب کے دور میں یہ روس کا حصہ بنے تھے، بیشتر دوسرے ممالک سمیت ان دونوں ملکوں کو بھی سابقہ سویت یونین نے 1989 کے بعد آزادی دیں۔
گلگت بلتستان کے مختلف اضلاع میں ایسے لاتعداد خاندان آباد ہیں جو زمانہ قدیم میں وسط ایشیائی خطوں تاجکستان، بخارا، مشرقی ترکستان اور پڑوسی خطوں یعنی وخان، شیغنان، اشکاشم، چقنسرائے، بشگال اور چترال سے لوگ جوق درجوق یہاں آ کے بستے رہیں۔ حیرت انگیز طور پر ایسی مثال کم ملتی ہے کہ گلگت اور ملحقہ اضلاع کے لوگوں نے متزکرہ خطوں کی جانب کوچ کیا ہو یعنی جنوب مشرق سے شمال مغرب کی جانب نقل مکانی کی ہو۔
قدیم باشندگان گلگت و ملحقہ علاقہ جات کے باسیوں کا مشرقی ترکستان کے شہر کاشغر، یارکھن (یرقند) کے ساتھ دوطرفہ تجارت اور رشتہ داریاں تسلسل کے ساتھ جاری رہیں۔ ساتھ ساتھ قبائلی جنگوں میں فتح و شکست کا عمل بھی چلتا رہا، اب یہ علاقے چین کا حصہ ہیں۔
لداخ اور اس کے گردا گرد علاقہ جات کے ساتھ اقوام بلتستان کی یادیں و رشتے وابستہ ہیں جو تقسیم ہندوستان کے بعد تک بھی مربوط تھیں، اپرچترال قیام پاکستان سے پہلے تک غذر کا حصہ رہا۔
ایک زمانہ وہ بھی آیا کہ گلگت کی سرحدیں سکڑتی گئیں، قبل ازیں گلگت کی سرحریں چقنسرائے اور گور تک پھیلی ہوئی تھیں، چقنسرائے اب افغانستان کا حصہ ہے اور گورضلع دیامر کا، یہ خطے سن 1871 میں گلگت سے جدا ہوئے۔
ماضی بعید میں گلگت بلتستان کے قبائل نے کشمیر کے ان علاقوں پر بارہا حملہ اور قبضہ کیا جو گلگت بلتستان کے قریب تھے اور کشمیری بھی یہی عمل دہراتے رہے، یہی وجہ تھی کہ آج بھی گلگت بلتستان کے قدیم زبانوں کی بازگشت متزکرہ بالا تمام علاقوں میں سنائی دیتی ہیں، آج بھی ہم نہ ان کے لیے اجنبی ہیں اور نہ وہ ہمارے لیے غیر۔
ملک بنتے اور ٹوٹتے رہیں گے، قبیلے قبیلوں میں ضم ہوتی اور بکھرتی رہیں گی، بولیوں اور زبانوں کا درگت بنتا رہے گا، کوئی بات حرف آخر نہیں ہے، کوئی نہیں کہہ سکتا کہ آنے والے کل میں کیا ہونے جا رہا ہے، کونسی زبان معدوم ہوگی اور کونسی مملکت ہوا ہوجائے گی اور تاریخ کا حصہ بنے گی، بقول کسے، ثبات تغیر کو ہے زمانے میں۔
گلگت بلتستان کے باسیوں کی شکلیں، جسمانی ڈیل ڈول، کلچر، تمدن، رسوم و رواج، رہن سہن، کھانا پینا، نشست و برخاست، بودو باش، طرز تعمیر، موسیقی، لوک کہانیاں، ضرب الامثال، محاورے، توہمات، نظریات، سادگی اور زندگی کا سلیقہ متزکرہ بالا خطوں کے باسیوں سے جا ملتی ہیں۔ ہم اور لداخیوں، کاشغریوں، تاجکوں، بدخشانیوں میں ذرہ بھر فرق نہیں، وہ آئیں یا ہم ان کے ہاں جائیں، بولیوں میں تفاوت ضرور ہے لیکن اجنبیت کا شائبہ تک محسوس نہیں ہوتا۔
پاکستانی صوبہ خیبرپختونخواں، سندھ، پنجاب میں گلگت بلتستان اور چترال کا باسی دور سے پہچانا جاتا ہے، اس کا لباس، شکل و صورت، لب و لہجہ اور زبان میں زمین و آسمان جتنا فرق ہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستانی میڈیا چینلز کے دروازے ان کے لیے بند ہیں البتہ جن کی پیدائش اور زندگی پاکستانی شہروں میں گزری وہ کسی حد تک مستثنے ہیں۔
پاکستان کے اکثر باشندوں نے گلگت بلتستان کا نام نہیں سنا اور بہت کم پاکستانیوں نے یہ علاقہ دیکھا ہے، پہلے پہلے پاکستانی اس خطے میں کیسے وارد ہوئے یہ کہانی کسی اور وقت کے لیے اٹھائے رکھتے ہیں۔ آج کے پاکستانی علاقوں سے تعلق رکھنےوالے کسی قدیم فرد کے فرشتوں کو بھی خبر نہ تھی کہ ہزارہ ڈویژن سے آگے بھی انسانی بستیاں ہیں، ہزارہ سے گلگت تک کا علاقہ سنگلاخ عمودی چٹانوں اور ہیبتناک دشوار پہاڑوں پر مشتمل تھا، نیچے ناقابل عبور،بپھرا ہوا دریائے سندھ ٹھاٹھیں مارتا تھا، اسی وجہ سے برصغیر والوں کی رسائی ان علاقوں تک کبھی نہیں رہیں اور نہ گلگت بلتستان والوں کو برصغیر کا کھوج لگانے کے لیے مہم جوئی کی ضروت محسوس ہوئی، البتہ گلگتی بلتستانی عہد قدیم سے مختلف کشمیری قصبات میں آتےجاتے رہے ہیں۔
مہم جو، جفاکش انگریز سن 1800 کے وسط سے گلگت بلتستان آ، جا رہے تھے جن میں ڈاکٹر لیٹنر سمیت بہت ساروں کے نام قابل ذکر ہیں۔
یکم نومبر1947 کو گلگتیوں نے مہاراجہ کشمیر کی ڈوگرہ فوج کو کمانڈر سمیت اسیر کرکے گلگت کو ڈوگروں سے آزاد کرایا، اہل بلتستان نے 14 اگست 1948 کو ڈوگروں سے آزادی کا اعلان کیا۔
الیگزنڈر براون نامی انگیز میجر نے آزادی کے فاتحین میں سے چند کو مشورہ دیا کہ نئی مملکت چلانے کے لیے پاکستان کے سرحدی صوبہ سے ایک یا چند اعنان حکومت کے رموز سے واقف ماہرین کو بلایا جائے، موصوف نے چند ایک مقامیوں کی رضا مندی کو جواز بنا کر صوبہ سرحد کے نئے وزیر اعلی عبدل قیوم خان الماروف خان قیوم کو پاکستانیوں کی درآمد کے لیے ٹیلی گرام بھیجا وہ خان قیوم کو پہلے سے جانتا تھا، یاد رہے یہ وہی خان قیوم ہے جس نے سرحد سے کشمیریوں پر یلغار کے لیے قبائلی لشکر بھیجا تھا۔
خان قیوم نے سرحد کے محمود عالم نامی نائب تحصیلدار کو گلگت بھیجا، محض چوبیس سالہ لیکن شاطر براون نے گلگت کے جری، بہادر مگر سیاسی شعور سے عاری معتبرین کو سبزباغ اور نئی نویلی مملکت کی ترقی کے جھوٹے خواب دکھا کر محمود عالم کو پولیٹیکل ایجتٹ کا عہدہ دلانے پہ راضی کیا، محمود عالم نے چرب زبانی اور براون کی معاونت سے سادہ لوح گلگتیوں کو شیشے میں اتارنا شروع کیا اور بہتر نظام حکومت چلانے کے لیے مزید ماہرین کی درآمد کے بہانے سرحد سے ایک ایک کرکے لوگوں کی گلگت سمگلنگ (ہیومن ٹریفیکنگ) شروع کر دیں۔ پاکستانی سویلین اور فوج کے گلگت گھس آنے کا سلسلہ بعد ازاں کسی موقعہ پر بھی تھم نہ سکا اور دیکھتے دیکھتے گلگت اور بلتستان پاکستانی کالونیاں بنتی چلی گئیں۔
ہمارے بہت سے نوجوان اور لکھاری حضرات لکھتے ہیں کہ ہم نے گلگت بلتستان "پیالی میں رکھ کر” اور کوئی کہتا ہے کہ "طشتری میں سجا کر” غیرمشروط پاکستان کو پیش کیا۔ میرے بھائیو، یہ بےبنیاد جھوٹ اور محض پروپیگنڈہ ہے، ہم نے کبھی بھی گلگت بلتستان پاکستان کو پیش نہیں کیا ہے، البتہ چرب زبانی اور دھوکا دھی سے ہتھیا لیا گیا ہے جس کا اوپر ذکر آیا ہے۔
ماضی میں اکا دکا یورپی سیاح کشمیر کی وادیوں سے ہوتے ہوئے یا بذریہ جہاز گلگت بلتستان آتے رہتے تھے، ایوب کے دور حکومت میں شاہراہ ریشم کی تعمیر پر رضا مندی کے دوران پاکستان کے وزیر خارجہ بھٹو نے سن 1963 میں گلگت بلتستان کے عوام سے پوچھے بنا ان کے خطے سے "شکسگام ویلی” کاٹ کر چین کے حوالے کیا، نتیجتا شاہرہ کی تعمیر شروع ہوگئی۔ 1978 میں شاہرہ ٹریفک کے لیے کھل گیا تو غیرملکی سیاح بڑی تعداد میں آنے لگے، ان دنوں پاکستانی باشندے مغربی سیاحوں کے خانسامہ، ڈرائیور اور پورٹر کی حیثیت سے گلگت یاترا کرتے پہلی بار دیکھے گئے۔
چین اور پاکستان پڑوسی نہیں۔ پاکستان کی "آئینی جغرافیائی سرحد” شمال میں ضلع کوہستان کی حدود میں اختتام پزیر ہوتی ہے، اس مقام سے چین چھ سو کلومیٹر دور ہے اور سارا درمیانی علاقہ گلگت بلتستان ہے جوکہ تاہنوز آئینی طور پر پاکستان سمیت دنیا کے کسی اور ملک کا حصہ نہیں۔
پاکستان جانتا ہے کہ چین سے زمینی رابطے کا واحد ذریعہ گلگت بلتستان ہے، دریائے سندھ اسی خطے سے نکلتا ہے، سیاحوں کی اکثریت صرف اسی کو دیکھنے آتی ہے، کرہ ارض کی بلند چوٹیاں اسی سرزمین میں ہیں، انہیں کوہساروں میں معدنیات اور سونے کے ذخائر ہیں، یہاں کے جنوبی اضلاع قیمتی جنگلات سے مالامال ہیں، بدیں طور پاکستان کے لیے اس کی اہمیت ایک دم بڑھ جاتی ہے، انہیں خوبیوں کے پیش نظر پاکستان نے یہاں مستقل ڈیرے ڈال رکھے ہے، کسی جانب سے خطرہ نہ ہونے کے باوجود افواج میں روزافزوں اضافہ کر رہا ہے، علاقے کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے کی غرض سے پاکستانیوں کو خطے میں لا کے بسا رہا ہے۔
پاکستان جانتا ہے کہ گلگت بلتستان کے ساتھ تاریخی، جغرافیائی، لسانی رشتے نہیں ہیں اور تہذیب و تمدن بھی جدا ہے، ستر سالوں سے محض طاقت اور کھینچا تانی کا رشتہ ہے جو کبھی بھی ٹوٹ سکتا ہے۔
ہمارے آباؤ اجداد نے گلگت بلتستان کے دفاع کی جنگیں لڑیں، فتح پائیں، مارے گئے، جلا وطن ہوئے، لیکن بعید کے دشمن کجا، قرب و جوار کے قبائل کو بھی خود پہ غالب نہ آنے دیتے تھے، مغلوب ہوتے ہوتے بھر غالب آجاتے تھے، پلٹ کر جھپٹتے تھے پھرجھپٹ کر پلٹتے تھے، خطے کی چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے لشکریوں کا ہر جوان باپ دادے کی وراثت پہ آنچ نہ آنے دیتا تھا، یہی ان کی زندگی کا نصب العین تھا۔
ماضی کے علی شیرخان آنچن کا زمانہ ہو یا گوہرآمانی دور، انہوں نے موت تک آزادی کو برقرار رکھا اور صحیح سالم وطن اپنے جان نشینوں کے حوالے کیا اور قوم کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں۔ ایسے بہت سے نام اور کارنامے خطے کی تاریخ کا حصہ ہیں۔ ہمارے ہیروز نے کبھی غیروں کو اپنی سرزمین پر خوش آمدید نہیں کہا، قریب و بعید کے لشکریوں کو اینٹ کا جواب پتھر سے ، پتھر کا جواب گولی سے دیا، جانیں لیں، جانیں دیں لیکن کسی تیسرے راستے کا انتخاب نہ کیا۔
گلگت بلتستان کے باسی اپنے وطن میں سینکڑوں نہیں ہزاروں سالوں سے آباد ہیں جس دوران ہزاروں بار دشمنوں سے نبرد آزما ہوئے، ہربار باپ دادا کے عزت کی لاج رکھ لیں۔ وہ سخت جان لوگ نہ قحط و بیماری کے ہاتھوں فنا ہوئے اور نہ جدال و قتال کے ہاتھوں ناپید ہوئے، ان کا طرہ امتیاز رہا ہے کہ انہوں نے مادر وطن کو کبھی غیر کے ہاتھ جانے نہ دیا ہمیشہ اس کے حقیقی وارثوں کے ہی سپرد کیا،
سوال یہ ہے کہ کیا آج ان کا وارث ان کے نقش قدم پہ چل رہا ہے؟ کیا اس نے طوق غلامی اتار پھینکنے کا ارادہ کرلیا ہے ؟ لیکن۔۔۔۔ اب جب بھی غلامی کی زنجیر ٹوٹے گی تو اس کی کڑیاں بھی ٹوٹ کر بکھر جائیں گی، رہے گا نام اللہ کا۔
گلگت بلتستان ہمارے باپ دادوں کی سرزمین اور ان کے اجداد کا وطن ہے، ان ہی کے وارثوں کو منتقل ہوتا رہے گا انشااللہ۔